اُف خدایا! احمدی پھر حکومت میں داخل ہو گئے


مشتاق یوسفی صاحب نے بیان فرمایا ہے کہ پرانے زمانے میں اگر کوئی مرغا بھی زنان خانے میں نکل آتا تھا تو شریف بیبیاں گھونگٹ نکال لیا کرتی تھیں۔ اب کسی مرغے کی آمد پر تو شاید یہ اہتمام نہ ہوتا ہو لیکن اگر کہیں یہ خبر نشر ہوجائے کہ کوئی احمدی کسی حکومتی کمیٹی کا رکن بننے والا ہے یا کسی عہدے پر مقرر ہونے والا ہے تو حکومت میں شامل احباب ضرور گھونگٹ نکال لیتے ہیں۔

چند روز قبل میڈیا پر یہ خبر نشر ہوئی کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے ہدایت دی ہے کہ احمدیوں کو اقلیتوں کے قومی کمیشن میں نمائندگی دی جائے۔ اس خبر کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سلسلہ میں احمدیوں [جنہیں عمومی طور پر ان کے مخالفین قادیانی کہتے ہیں ] کی طرف سے کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی کہ انہیں اس کمیشن میں شامل کیا جائے۔ یہ قدم خود وزیر اعظم اور کابینہ کے بعض اراکین کی طرف سے اُٹھایا گیا تھا۔ لیکن یہ خبر نشر ہونے کی دیر تھی کہ حکومت میں شامل کئی احباب اور بعض صحافیوں پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی اور بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان بیانات میں ایک بات بار بار سننے کو مل رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے لیکن احمدی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں سمجھتے؟ اس طرح وہ پاکستان کے آئین سے غداری کر رہے ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ آئین کے جس حصہ کے بارے میں بحث ہو رہی ہے اس کے الفاظ کیا ہیں؟

آئین کے آرٹیکل 260 میں لکھا ہے

”دستور اور تمام وضع شدہ قوانین اور دیگر قانونی دستاویزات میں تا وقتیکہ موضوع یا سیاق و سباق میں کوئی امر اس کے منافی نہ ہو۔

اور پھران کے الفاظ کے بالکل نیچے لکھا ہے کہ قانونی طور پر صرف وہ شخص ”مسلمان“ شمار ہو سکتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر مشروط طور پر آخری نبی مانتا ہو۔ اور غیر مسلم اقلیتوں میں احمدیوں کا نام بھی درج ہے۔

آئین کے اس حصے سے کوئی اختلاف کرے یا اس کی حمایت کرے لیکن اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ ایسے شخص کو دستور اور قانون میں اور قانونی دستاویزات میں غیر مسلم لکھا جائے گا۔ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایسے شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے ذہن میں بھی اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھے۔ کوئی ذی ہوش یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسانی سوچ پر پابندی لگانے کے لئے بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے ”غیر مسلم“ قرار دیا گیا تھا۔ مجھے لگتا ہے جو صحافی حضرات اس کارروائی کا حوالہ دے رہے ہیں انہوں نے خود اس کارروائی کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس موقع پر پاکستان کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب نے جماعت احمدیہ کے وفد کو سربراہ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر یہ ترمیم کر دی جائے تو بھی:

” کوئی بھی آپ کو اس حق سے نہیں روکے گا کہ آپ جس مذہب سے چاہیں وابستہ ہونے کا اظہار کریں۔ کسی بھی مذہب پر عمل کریں۔ جو چاہیں محسوس کریں۔ آپ کو اپنی عبادت کرنے کی اجازت ہو گی۔ آپ کا اختیار ہوگا کہ اپنے آپ کو جس نام سے چاہیں پکاریں۔ خواہ اپنے آپ کو احمدی کہیں یا جو بھی چاہیں اپنے آپ کو نام دیں۔“

[ ترجمہ انگریزی عبارت۔ کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص 129 و 130 ]

یہ الفاظ واضح ہیں اور قانون کی تشریح کرتے ہوئے اگر ابہام ہو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ قانون بنانے والے ادارے کے ذہن میں اس قانون کا کیا مفہوم تھا۔

اگر کوئی شخص آئین کے کسی حصے سے اختلاف کرے تو وہ آئین کا باغی نہیں بن جاتا۔ مثال کے طور پر چند روز پہلے ہی بعض وزراء نے آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعض حصوں سے اختلاف کا اظہار کیا ہے اور ان کے نزدیک اس میں ترمیم ہونی چاہیے۔ اب کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وزراء آئین کے باغی ہو گئے ہیں؟

اس خبر پرمختلف چینلز نے بھی تبصرہ کیا۔ 30 اپریل کو اے آر وائی چینل پر ایک پروگرام نشر ہوا۔ اس میں صابر شاکر صاحب بطور اینکر اور چوہدری غلام حسین صاحب بطور تجزیہ نگار شریک ہوئے۔ اسی خبر پر گفتگو ہو رہی تھی صابر شاکر صاحب نے انکشاف کیا کہ جب قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے کارروائی ہو رہی تھی تو آخر پر اٹارنی جنرل نے جماعت احمدیہ کے سربراہ سے سوال کیا کہ جو مسلمان مرزا غلام احمد احمدی کو مسیح موعود نہیں سمجھتے آپ انہیں کیا سمجھتے ہیں؟ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد صاحب نے کہا کہ ہم تو انہیں غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ اس جواب کو سن کر ممبران اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ چوہدری غلام حسین صاحب نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ یہ کارروائی تو شائع شدہ ہے۔

انصاف کا تقاضا کہ کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے سے اس کارروائی سے معین حوالے درج کر دیے جائیں کہ جب اٹارنی جنرل نے یہ سوال کیا تھا تو جماعت احمدیہ کے سربراہ نے کیا جواب دیا تھا؟

یحییٰ بختیار صاحب نے 7 اگست 1974 کو جماعت ِ احمدیہ کے سربراہ سے سوال کیا کہ اگر ایک شخص بانی سلسلہ احمدیہ کے دعاوی کو تسلیم نہیں کرتا اس کو آپ کیا سمجھتے ہیں؟ قومی اسمبلی کی طرف سے جو کارروائی شائع کی گئی ہے، اس کے مطابق جماعت احمدیہ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب کو جواب دیا :

ِِ ”جو شخص حضرت مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتا لیکن وہ نبی ِ اکرم ﷺ حضرت خاتم الانبیاء کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے اس کو کوئی شخص غیر مسلم کہہ ہی نہیں سکتا۔“

یحییٰ بختیار صاحب نے یہ سوال دہرایا تو امام جماعت ِ احمدیہ نے پھر یہ جواب دیا :

”میں تو یہ کہہ رہا ہوں Categoricallyہر شخص جو محمد ﷺ کی طرف خود کو منسوب کرتا ہے وہ مسلمان ہے۔ اور کسی دوسرے کو اس کا حق نہیں ہے کہ اس کو غیر مسلم قرار دے۔“

[کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص 406 ]

اس سے قبل بھی اٹارنی جنرل صاحب نے اس قسم کے سوالات کیے تھے۔ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے یہ جوابات دیے گئے تھے

”ہاں جو کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، اس کو مسلمان ہمیں کہنا پڑے گا۔“ [صفحہ 44 ]
6اگست کو ایک سوال کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ جواب شائع شدہ کارروائی میں موجود ہے۔
”جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ مسلمان ہے۔“ [ صفحہ 240 ]

اس سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران اس قسم کے مختلف فتوے پیش ہوئے جن میں مختلف فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیے تھے۔ ایک ممبر اسمبلی غلام رسول تارڑ صاحب نے گھبرا کر کہا کہ ان فتوؤں کا اچھا اثر نہیں ہوگا۔ ان کی تردید ہونی چاہیے۔ [ صفحہ 257 ] اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے جماعت احمدیہ کے سربراہ سے دریافت کیا پھر ان کا کیا مطلب ہوگا؟ اس پر جماعت احمدیہ کے سربراہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اگر کسی فرقہ نے دوسرے کلمہ گو فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج اور کافر بھی قرار دیا ہے تب بھی وہ فرقہ ملت اسلامیہ میں بہر حال شامل رہے گا اور اس فتوے کا مطلب صرف گنہگار ہونے کے سمجھے جائیں گے۔ [صفحہ 265 اور 405 ]

ملک کے نازک حالات کے پیش نظر وہ فتوے درج نہیں کیے جاتے لیکن بڑے احترام سے مکرم صابر شاکر صاحب اور چوہدری غلام حسین صاحب کی خدمت میں یہ سوالات پیش کیے جاتے ہیں۔

1۔ اس تحریر میں 1974 کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے جو حوالے پیش کیے گئے ہیں وہ درست ہیں کہ میں نے اپنی طرف سے یہ جعلی حوالے پیش کیے ہیں۔ اگر آپ قومی اسمبلی جا کر وہاں کے ریکارڈ سے تسلی کرنا چاہتے ہیں تو ان جلدوں کے حوالے نوٹ فرمالیں :

The Proceedings of the Special Committee of the Whole House Held in Camera To Consider Qadiani Issue. 5, 6, 7 August 1974

2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حوالے درست ہیں تو کیا ان سے آپ کی بیان کردہ تفصیلات کی تردید نہیں ہوتی؟

کورونا کی وبا اور دوسرے مسائل کی وجہ سے اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ سارا پاکستان متفق ہو کر ان مسائل کا سامنا کرتا۔ لیکن افسوس کچھ طبقات اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ چھیڑتے رہیں جس سے قوم میں اختلافات کی خلیج بڑھتی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments