کورونا وائرس: بیلجیئم میں اتنے زیادہ لوگ وبا سے کیوں ہلاک ہو رہے ہیں؟


بیلجیئم

اگر بات کورونا وائرس کے باعث شرح اموات کی کی جائے تو بیلجیئم دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔

شرح اموات کا تخمینہ کسی بھی ملک کی آبادی اور وہاں ہونے والی اموات کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک گراف کی نشاندہی کی جس میں بیلجیئم کو متاثرہ ممالک میں سب سے اوپر اور امریکہ کو ساتویں نمبر پر دکھایا گیا تھا، یہ گراف آبادی کے تناسب اور اموات کی تعداد کی بنیاد پر ڈیزائن کیا گیا تھا۔

یہ گراف دکھاتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی اس عالمی وبا سے موثر انداز میں نمٹ رہا ہے۔

بلیجیئم کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اور اگر اعدادوشمار پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ بلیجیئم میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 66 افراد کورونا کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔

امریکہ کی آبادی تقریباً 33 کروڑ ہے اور یہاں ہر ایک لاکھ آبادی میں سے 19 افراد کورونا سے ہلاک ہوئے ہیں۔

ہلاکتوں کے یہ اعدادوشمار امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔

بی بی سی

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

مدافعتی نظام بہتر بنا کر کیا آپ کووِڈ 19 سے بچ سکتے ہیں؟


بیلجیئم کی حکومت کے ترجمان پروفیسر سٹیون وان گوچیٹ کا کہنا ہے یہ اعدادوشمار کا ’ناقص موازنہ‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’(صدر ٹرمپ کا) ایسا کہنا صرف اس بات کا اظہار ہے کہ ہم (امریکہ) کتنا اچھا کام کر رہے ہیں۔ درحقیقت ہم (بیلجیئم) زیادہ درست انداز میں اعدادوشمار کو رپورٹ کر رہے ہیں۔‘

بیلجیئم میں مختلف کیا ہے؟

بیلجیئم

بیلجیئم کے حکام کا دعوی ہے کہ وہ اپنے ملک میں مصدقہ متاثرین اور ہلاکتوں کے اعدادوشمار اتنے بہتر انداز میں اکھٹے کر رہے ہیں جتنا دیگر ممالک میں نہیں ہو رہا۔

بیلجیئم میں مصدقہ متاثرین اور ہلاکتوں کو بھی اس مجموعی میزانیے میں گنا جا رہا ہے جو ہسپتالوں کے علاوہ فلاحی مراکز اور کیئر ہومز میں واقع ہو رہی ہیں۔ جبکہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کو بھی کورونا کیسوں کے طور پر گنا جا رہا ہے۔

بیلجیئم میں سرکاری طور پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اب تک ملک میں 7703 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے 53 فیصد ہلاکتیں کیئر ہومز میں ہوئی ہیں۔

کیئر ہومز میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 16 فیصد کورونا کے مصدقہ متاثرین جبکہ باقی مشتبہ مریضوں کی ہوئی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجموعی تعداد میں 3500 ہلاکتیں ایسی ہیں جو کورونا کے مصدقہ نہیں بلکہ مشتبہ مریض تھے۔

اعدادوشمار ایسے کیوں گِنے جا رہے ہیں؟

پروفیسر سٹیون وان کا کہنا ہے کہ ‘اس کی بنیاد ڈاکٹروں کی جانب سے دیے جانے والے اندازے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کیئر ہوم میں ایک یا دو مصدقہ متاثرین موجود ہیں تو قوی امکان ہے کہ ایک ہفتے کے عرصے کے اندر اندر ایسی (کورونا) ہی علامات کے باعث اس کیئر ہوم میں دس کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو جائیں گے۔’

بیلجیئم کی وزیر اعظم صوفیہ ویلمز نے حال ہی میں کہا ہے کہ شاید ان کا ملک اصل کیسز سے زیادہ رپورٹ کر رہا ہے۔

تاہم پروفیسر سٹیون کا دعوی ہے کہ شاید بیلجیئم حقیقت میں ہونے والی اموات سے کم رپورٹ کر رہا ہے۔

اور وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟

بیلجیئم

ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بیلجیئم میں عمر رسیدہ افراد کو یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت کیئر ہومز میں رکھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔

بیلجیئم کے علاوہ نیدرلینڈز ایسا ملک ہے جہاں آبادی کے تناسب کے حوالے سے کیئر ہومز میں رہنے والوں کی شرح زیادہ ہے۔

بیلجیئم کے حکام مانتے ہیں کہ شاید وبا پھیلنے کے ابتدائی دنوں میں کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی اور ناقص تیاریوں کے باعث کیئرہومز کا عملہ حفاظتی طبی سامان کی کمی کا شکار ہوا ہو گا۔ اور اسی وجہ سے وائرس بہت تیزی سے منتقل ہوا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔

تاہم اب کیئرہومز کے تمام عملے کے لیے چہرے پر پہننے والے ماسک، حفاظتی کپڑے دیے گئے ہیں جبکہ اس عملے کی مدد کے لیے فوجی ہسپتالوں سے نرسیں بھی تعینات کی گئی ہیں۔

وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بیلجیئم کے کیئر ہومز میں 10 فیصد ایسے افراد ہیں جن میں بظاہر علامات نہیں ہیں اور انھوں نے وائرس کے خلاف مدافعت حاصل کر لی ہے۔

اگرچہ یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر سائنسی لحاظ سے اس کی کافی اہمیت ہے۔

بیلجیئم میں لاک ڈاؤن کی صورتحال؟

بیلجیئم

بیلجیئم میں 18 مارچ سے تمام غیرضروری کاروبار بند ہیں اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والے کارکنان کے علاوہ تمام شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

شاپنگ کو محدود کر دیا گیا ہے اور ایک خاندان کا صرف ایک فرد ہے شاپنگ کے لیے گھر سے باہر جا سکتا ہے۔ تاہم واک کرنے اور میڈیکل وجوہات کی بنیاد پر گھروں سے نکلا جا سکتا ہے تاہم اس دوران 1.5 میٹر کا سماجی فاصلہ برتنے کی ہدایات ہیں۔

بیلجیئم کی پولیس ڈرونز کے ذریعے لاک ڈاؤن کا نفاذ یقینی بنا رہی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے کیے جا رہے ہیں۔

فرانس اور ہالینڈ کے ساتھ سرحدی علاقوں میں پولیس چوکیاں قائم ہیں اور سرحدی گزرگاہوں سے صرف ایسے افراد کو سرحد عبور کرنے کی اجازت ہے جنھیں کوئی ہنگامی صورتحال درپیش ہو۔

حکومتی منصوبے کے مطابق بیلجیئم میں لاک ڈاؤن مرحلہ وار انداز میں ختم کیا جائے گا۔ آئندہ سوموار سے کپڑوں کی دکانیں کھول دی جائیں گی اور ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کپڑا خرید کر اپنے لیے ماسک تیار کر سکیں۔ بیلجیئم میں پبلک ٹرانسپورٹ میں ماسک پہننا لازمی ہے۔

ملک میں کھیلوں کی اجازت بھی دی جائے گی مگر صرف ایسے کھیلوں کی جن میں دو سے زیادہ افراد بیک وقت نہ کھیل سکیں۔

دیگر تمام تجارتی مراکز کو 11 مئی سے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے 18 مئی سے کھلیں گے مگر ایک کلاس میں 10 سے زیادہ طالبعلم نہیں بیٹھ سکیں گے۔

کیفے، ریستوران اور چند سیاحتی مقامات کو آٹھ جون سے کھولا جائے گا مگر ایسا صرف اس وقت ہو گا اگر ملک میں وبا کا دوسرا بڑا پھیلاؤ آئندہ آنے والے دنوں میں نہ ہوا تو۔

بیلجیئم میں ٹیسٹنگ کیسے ہو رہی ہے؟

بیلجیئم

بیلجیئم میں ہر روز کی بنیاد پر دس سے بیس ہزار ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں اور فوقیت ایسے افراد کو دی جا رہی ہیں جو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے قائم ٹاسک فورس نے کیئرہومز میں رہنے والے تمام 210000 افراد اور عملے کے اراکین کی سکریننگ ممکمل کر لی ہے۔

ملک میں لگ بھگ 500 کیئر ہومز ہیں اور ان میں سے نصف میں کورونا کے مریض موجود ہیں۔

اینٹی باڈیز ٹیسٹوں کا آغاز مئی کے وسط سے کیے جانے کا امکان ہے۔

کیا بیلجیئم میں ٹریکنگ ایپس استعمال ہو رہی ہیں؟

بیلجیئم کی کورونا ٹاسک فورس کے سربراہ فلپ ڈی بیکر کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا فی الحال ‘قابلِ عمل’ نہیں ہے لہذا مریضوں اور ان کے قرابت داروں کی ٹریسنگ روایتی انداز میں ہی کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’جب کسی مریض کی تصدیق ہوتی ہے تو وہ ہمارے کال سینٹر سے رابطے میں آ جاتا ہے اور ہمارا عملہ ان کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے۔ انھیں یا تو گھر میں ہی قرنطینہ کر دیا جاتا ہے یا ہسپتال میں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایپ کے استعمال کی صورت میں بیلجیئم کی 60 فیصد آبادی کو رضاکارانہ طور پر اس پراسیس میں حصہ لینا ہو گا جو فی الحال ممکن نہیں ہے۔

’میں نے آسٹریا سے آنے والے رپورٹس پڑھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ صرف نو سے دس فیصد شہری ہی رضاکارانہ طور پر ایپ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 90 فیصد آبادی تک آپ کو خود ہی پہنچنا ہو گا۔‘

بیلجیئم میں دو ہزار کے لگ بھگ ’کورونا جاسوس‘ کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ یہ جاسوس ایسے افراد کی نشاندہی کریں گے جو کورونا کے مصدقہ مریضوں سے رابطے میں رہے ہیں۔

بیلجیئم نے اس وبا سے کیا سیکھا؟

بیلجیئم کے سائنسدانوں نے اس وبا سے حاصل ہونے والے سبق پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہے۔ وہ اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ بیلجیئم کے تین شہروں میں یہ مرض اتنے وسیع پیمانے پر کیسے پھیلا۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق مارچ کے مہینے میں ہونے والے بڑے میلے جن میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی تھی کورونا کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی وجہ بنے۔

ایسے علاقے بھی زیادہ متاثر ہوئے جہاں اٹلی نژاد افراد بستے ہیں جبکہ دیگر علاقے وہ ہیں جہاں غربت زیادہ ہے۔

بیلجیئم کے ہسپتال اب تک وبا کے باعث ہسپتالوں پر پڑنے والے بوجھ کو سہارنے کے قابل رہے ہیں۔ تاہم برسلز میں چند ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں اور یہاں سے مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

پروفیسر سٹیون وان کہتے ہیں کہ ’جب سکول دوبارہ کھلیں گے تو وائرس کے تیزی سے دوبارہ پھیلاؤ کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ اور ایسا ہی اس وقت ہو گا جب موسمِ سرما کی ابتدا ہو گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp