پاکستانی تاریخ کے چند اہم جوڈیشل کمیشن اور ان کی گمشدہ رپورٹیں



آٹا چینی سیکنڈل منظر عام پر آیا ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا کمیشن نے عرق ریزی کے بعد اپنی رپورٹ میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کی، کچھ لوگوں کے خلاف ایکشن لیا گیا قوم کو کہا گیا گبھرانا نہیں 25 اپریل تک مزید حقائق سامنے آئیں گے اُن لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا جنھوں نے غریب قوم کے ٹیکس کے پیسوں پر سبسڈی لی۔ 25 اپریل گُزر گئی کچھ نہ ہوا اب سننے میں آ رہا ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنے گا جو آٹا چینی سیکنڈل میں ملوث لوگوں بے نقاب کرے گا۔

جوڈیشل کمیشن بنانے سے مجھے یاد آیا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی جوڈیشل کمیشن بنے ان کی رپورٹس کبھی منظر عام پر نہیں آئی اگر آئی بھی تو ملوث لوگوں اتنے طاقتور تھے کہ ان کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

سب سے پہلا جوڈیشل کمیشن لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اس وقت کے جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ججز پر بنایا گیا قتل میں ملوث لوگ اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے کمیشن کو لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینے پر لگا دیا۔ جس کے فوری بعد بیگم لیاقت علی خان نے بیان دیا کہ کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور اُس وقت کے صوبہ سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہوگئے۔ انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم سے سامنے آئے۔

”کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔ دوسرا اگر لیاقت علی خان کا قاتل سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے“ ۔

دوسرا بڑے جوڈیشل کمیشن کی سربراہی سانحہ مشرقی پاکستان کے کرداروں کا پتہ لگانے کے لیے ایک نیک نام جج جسٹس حمود الرحمن کو سونپی گئی۔ جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سالہا سال صیغہ راز میں رکھی گئی پرویز مشرف کے دور میں ہندوستان کے ایک اخبار نے اس رپورٹ کے کچھ اقتباسات شائع کیے جس پر جنرل مشرف کو بادل نخواستہ یہ رپورٹ شائع کرنا پڑی مگر چند ابواب صیغہ راز میں رکھے گئے۔

ازاں بعد لاہور کے ایک معروف پبلشر دارالشعور نے مصدقہ رپورٹ کی کاپی حاصل کی اور اس کا مستند ترجمہ شائع کیا کمیشن نے سانحہ بنگال میں ملوث عوامل کو بے نقاب کیا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سانحہ کے ذمہ داروں میں حکومتی اختیارات کا بے رحمانہ استعمال، سول معاملات میں فوجی مداخلت لامحدود ہوس اقتدار اور محلاتی سازشوں کو قرار دیا گیا۔

کمیشن نے دوسرا بڑا مجرم گورنر جنرل غلام محمد کو قرار دیا جس نے لامحدود اختیارات کی ہوس میں پہلے 1953 ء میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اور دوسری بار 1954 میں دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی۔ کابینہ میں تمام پارلیمانی روایات کے برخلاف کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور میجر جنرل سکندر مرزا کو شامل کر لیا ان تباہ کن اقدامات سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں فلیڈ مارشل ایوب خان کو پارلیمانی جمہوریت کا قاتل اور جنرل یحییٰ کو پشت پناہی کا مجرم قرار دیا گیا انھوں نے بالغ رائے دہی کے بجائے بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کیا اور صدراتی نظام کے ذریعے سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے۔ اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر ہی اندر ایک لاوہ پلنے لگا۔

کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کا بھی جاہزہ لیا گیا کہ مارشل لاؤں کے نفاذ اور فوج کا سول معاملات میں دخل اندازی سے پیشہ ورانہ مہارت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ فوجیوں کو میرٹ کے بغیر زمین الاٹ کی گئی اور غیر قانونی مراعات بھی فراہم ہوتی رہی۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں ایوان صدر ”چکلہ“ بن گیا تھا اُن خواتین کے نام بھی درج کیے گئے جو ایوان صدر آتی جاتی رہی۔

ضیاءالحق قتل کیس کی انکوائری کے لیے جسٹس سیف پر مشتمل ایک اور جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔

اسامہ بن لادن قتل کے حقائق جاننے کے لیے موجود چئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا کمیشن نے حقائق جاننے کے لیے مسلح افواج کے سربراہوں کو بلایا لیکن برّی فوج کے سربراہ نہیں آئے تھے جسٹس جاوید اقبال کی ہدایت پر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔

2018 میں اے پی ایس سانحہ کے حقائق معلوم کرنے کے لیے جسٹس ابراہیم پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جاتا ہے کمیشن نے کیا کھوج لگائی آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ معصوم بچوں کے قاتل کون تھے۔

ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ پہلے تو کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں کی جاتی اسے یہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے کہ اس رپورٹ کو شائع کیا گیا تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی اگر کہیں شائع ہو جائے اور کمیشن سفارش کرتا ہے کہ ملوث کرداروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو کارروائی کے بجائے انھیں ترقیوں کے ساتھ ساتھ اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔

ہم دائروں میں سفر کر رہے ہیں 70 سال گزرنے کے باوجود ہم اسی جگہ کھڑے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم دائروں میں سفر کر رہے ہیں آج بھی عمران حکومت کی کابینہ میں منتخب افراد کی بجائے غیر منتخب لوگ اہم عہدوں پر براجمان ہیں فیصلہ ساز ایوان عملا معطل ہے فیصلے کہیں اور سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو متحد اور مستحکم رکھنا ہے تو آئین کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی دکھانا ہو گی اور ہر سیاسی و غیر سیاسی ادارے کو اپنی متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہو گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments