ڈگری کیا شعور جانچنے کا بیرومیٹر ہے؟


علم کے معنی آگہی اور جاننے کے ہیں اور تعلیم سیکھنے یا سکھانے کے عمل کے کو کہتے ہیں۔ دنیا جب سے وجود میں آئی ہے یہ آگہی حاصل کرنا اور اس کو سیکھنے سیکھانے کا عمل جاری ہے اور روز اول سے ہی یہ ایک انتہائی مقدس عمل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہی دنیا نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور آج جب انسان کائنات تسخیر کر رہا ہے تو یہ صرف اس کے اسی عمل کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

ابتداء میں انسان کی زندگی بڑی خام حالت میں تھی اس لئے اُسکا علم بھی بڑی خام حالت میں تھا آگہی سے جب کائنات اور زندگی کے اسرار کھلنے لگے اور علم میں گہرائی آتی چلی گئی تو علم سے علوم بنتے چلے گئے اور علم کے اندر ہی ایک دریچہ کھلا جو فن کہلایا۔ فن کے معنی ہنر کے ہیں ہنر مند افراد وہی ہیں جو اجکل پروفیشنل کہلاتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو کسی خاص کام میں مہارت اختیار کر لیتے ہیں اور اُس کام کو اپنے لئے روزگار کا ذریعہ بنا لیتے تھے ان میں راج، مستری، نقشہ نویس سے لے کر مصوری، گائیکی اور مجسمہ سازی غرض یہ انسانی روزمرہ کی ہر شے کا احاطہ کرتے تھے۔

ہنر مند کسی بھی معاشرے کو ترقی دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں لوگوں کی زندگی اچھا اُستاد ڈھونڈنے اور پھر اُس سے ہنر سیکھنے میں گزر جاتی تھی اس لیے تو ایسی باکمال چیزیں انہوں نے تخلیق کیں سات عجائبات کو ہی دیکھ لیں فن آپ کو اپنی انتہاء پر نظر آئے گا، تان سین، بیتھووین، مائیکل انجیلو اور بہت سے دوسروں کی تخلیقات بے مثل ہی نہیں بلکہ انگشت بدنداں بھی ہیں۔ جب انسانی تاریخ غلام داری دور میں داخل ہوئی تو چونکہ ہاتھ سے کام کرنے والے افراد با افراط میسر آنے لگے تو یہاں علم دو شاخوں میں بٹا تو وہ تمام کام جس میں انسانی جسمانی مشقت شامل تھی اور جو اب غلاموں سے کروائے جا سکتے تھے وہ چھوٹے کام کہلائے گئے اور جس میں انسانی ذہنی مشقت شامل تھی وہ بڑے کام کہلائے گئے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بحیثیت نسل حاکم قوم نے اپنی برتری ثابت بھی کرنی تھی۔ اس لیے بہت سی نو آبادیاتی اقوام میں بڑے اور چھوٹے کام کی تخصیص آج بھی موجود ہے جیسا کہ نائی، جولاہا اور میراثی اور ہاری وغیرہ کو ہمارے یہاں کمی کہا جاتا ہے جبکہ کچھ بھی نہ کرنے والا اپنے آپ کو چوہدری، ملک اور خان کہلواتا ہے جبکہ معاشرے کو نکھارنے میں اُس کا حصہ شاید صفر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو قابل عزت گردانتا ہے۔

بہرحال ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں ذہنی کام جیسے فلسفہ، تاریخ، امور سیاست، مذہب وغیرہ انہوں نے اپنے لئے رکھ لئے کیونکہ حکمرانی کے لئے ان علوم کی اُنہیں ضرورت تھی جو نہ صرف اُن میں استدلال پیدا کرے بلکہ حالات کو سمجھنے میں اُن کے لئے ممدومعاون بھی ثابت ہوں۔

تاریخ سے نہ صرف حال کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے سیکھ کر مستقبل کو بہتر بھی بنایا جاتا ہے۔ معیشت سے سماج اور سماجی تانے بانے اور سیاسی نظام کی داغ بیل ڈالتی ہے اور ان سب سے روز مرہ کی گفتگو، محاورے اور ادب تخلیق پاتا ہے کیونکہ اگر ہم دیکھیں تو ہر ا چھا ادب اپنے وقت کی پرچھائیں ہوتا ہے وارث شاہ بلکہ تمام صوفی شعراءاور منٹو وغیرہ سے لے کر ولیم شیکسپئرسے میکسم گورکی اور تمام روسی بلکہ دنیا بھر کا بہترین ادب اپنے وقت کاسماجی اور سیاسی آئینہ دار ہے اور یہ سب مل کر بین لاقوامی تعلقات کا باعث سبب بنتے ہیں اور ان سب کے باہمی آمیزش سے ہی بین لاقوامیت یا گلوبل ویلیج کا تصور جنم لیتا ہے جو لوگوں کی مجموعی نفسیات بناتا ہے۔

صرف ایک فن حرب اُنہوں نے اپنے پاس رکھا کیونکہ اس کی اُنہیں ضرورت تھی۔ اس طرح ذہنی کام کرنے والے اہل علم کہلائے گئے اور ہنر مند افراد اہل حرفہ کہلائے جانے لگے۔ صاحب اقتدار نے ہمیشہ اہل حرفہ کی سرپرستی کی یونانیوں نے جو اتنا شاندار فلسفہ پیش کیا اُس کی ایک بڑی وجہ اہل علم کی جسمانی فراغت بھی تھی اسی طرح سیاست پر چانکیہ اور میکاولی کی تصنیفات آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعدشخصیات کے بجائے اداروں پر انحصار شروع ہوا اور اس کے ساتھ بڑے اور چھوٹے کام کی تخصیص بھی ختم ہوئی کیونکہ اب ہر کسی کو کام کرنا تھا اور کام بھی نہ صرف اعلی معیار کا بلکہ صنعت کا پہیہ چلانے کے لئے تیز رفتاری اور جدت کی ضرورت بھی آن پڑی اس کے لئے اُنہوں نے تعلیمی ادارے جو کہ مدرسوں کی شکل میں پہلے سے موجود تھے اُن میں مختلف علوم اور فنون کے ماہر معلمین کو ایک چھت تلے اکٹھا کر کے اُس کو جدید اسکول کی شکل دی جہاں سے کامیاب فارغ التحصیل طلبا اب سند یافتہ یا ڈگری یافتہ اہل علم اور اہل حرفہ آنے شروع ہوئے جیسا کہ راج اب سند حاصل کرنے کے بعد سول انجینیر کہلائے جانے لگا، نقشہ نویس ارکیٹیکٹ، طبیب اور جراح ڈاکٹر اور فزیوتھراپسٹ کہلائے جانے لگے جبکہ امور دکانداری وکاروبار کے ماہرین کو ایم بی ایز کہا جانے لگے اور ایسا تمام فنون کے ساتھ ہوا۔

اب چونکہ علم اور فن پر کسی خاندان اور قوم کی میراث نہیں رہی اس لئے وہ تمام تعلیمی ادارے جو اچھے اساتذہ رکھ لیتی وہ اچھے تعلیمی ادارے کہلائے جانے لگے۔ اس میں ایک بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان فنون کے حصول کے لئے فلسفہ، منطق، ادب، تاریخ، سیاسیات جیسے علوم کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔ اب اس سرمایہ داری کے دور میں مارکیٹ میں فنون کے ماہرین کوپہلے سے بہت زیادہ معاوضہ ملنے لگا اور ان کی زندگی پرانے زرعی دور کی نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو گئی۔

سرمایہ داری میں سرمایہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ محرک ہوتا ہے جس سے پورا نظام چل رہا ہوتا ہے۔ پیسے کی فروانی سے اب نہ صرف پر تعیش اشیاء ان کے تصرف میں آنی شروع ہوئیں بلکہ اس کے بل بوتے پر معاشرے میں قابل عزت مقام بھی حاصل کرنا شروع کر دیا گو کہ ان میں سے بہت سے اہل حرفہ نے اپنے علم میں اضافہ کر کے یعنی اہل علم کے علوم پر دسترس حاصل کر کے اپنے آپ کو بیک وقت دونوں مکاتب میں داخل کر لیا لیکن زیادہ تر نے محض اپنے پیشہ میں ہی مہارت حاصل کی لیکن اب پیسے کی بدولت اداکار، کھلاڑی اور کاروباری حضرات سیاست میں داخل ہو گئے جس سے سیاست بھی کاروبار بن گئی۔

بڑے عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین اور صنعت کاروں نے مختلف فنون کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جا کر اپنے پیشوں پر لیکچر دینے شروع کر دیے اور میڈیا پر ان کو دانشور کے طور پر ظاہر کیا جانے لگا۔ آج اگر ہم پاکستان میں اس حوالے سے دیکھیں تو ہمیں میڈیا پر جن احباب کو دانشور کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہ تمام یا تو ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ فوجی ہوتے ہیں جنہوں نے شاید اپنے عہدوں پر تو اچھا کام کیا ہو لیکن اُن کا تاریخی ادراک اور سوشل سائنسز پر علم صفر ہوتا ہے اور وہ انہی موضوعات کو زیربحث لا رہے ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کو ویلفیئر سٹیٹ اور سیکیورٹی سٹیٹ کا مطلب ہی واضح نہیں ہوتا۔

اچھی بھلی یونیورسٹیوں کے ڈگری ہولڈرز ملک، قوم، ریاست اور معاشرے کا فرق جاننے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی ملک میں تبدیلی کے آثار کیا ہوتے ہیں اور تبدیلی کے محرکات کیا ہوتے ہیں اس سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتے ہیں اور تبدیلی کو صرف کسی انسان کے آنے اور جانے سے تعبیر کیا جاتا ہے شاید اس لئے ان کو پہلے تو ہر ایک سے اُمید ہوتی ہے اور بہت جلد بعد میں اُس سے نا اُمید بھی بہت جلد ہو جاتے ہیں

یہ لوگ سیاست کو صرف پاور پالیٹیکس یا ڈرائینگ روم پالیٹیکس ہی سمجھتے ہیں یہ عوام کے اُس تاریخی پس منظر سے قطعی نا آشنا ہیں جس کے تحت دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے ہیں اور جس کے تحت سوویت یونین وجود میں آیا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہوا یہ لوگ دیوار برلن کے منہدم ہونے کے محرکات اور اُسکے دنیا بھر میں ہونے والے اثرات کے بارے میں بالکل نہیں جانتے اور حد تو یہ ہے کہ خود ہمارے ملک میں پارلیمانی جمہورت کے ہوتے ہوئے ملک میں پارلیمان کس طرح کام کرتی یہ تک نہیں جانتے لیکن اس سب کے باوجود خود اپنے منہ سے اپنے آپ کو باشعور ضرور کہتے ہیں۔

اب ہر ڈگری ہولڈر اپنے آپ کو پڑھا لکھا اور عقل والا سمجھنا شروع ہو گیا ہے بلکہ وہ ڈگری نہ رکھنے والے شخص کو جاہل بھی کہہ رہا ہوتا ہے جبکہ اُن دونوں میں فرق صرف ڈگری کا ہو تا ہے یا یہ کہہ لیں محض سند کے حصول کا فرق ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا اور باشعور ہونے کے لئے صرف پیشہ پر مہارت ہی نہیں بلکہ تاریخ، عمرانیات، نفسیات اور معاشیات جیسے علوم کا جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ انہی کی بدولت انسان میں آگہی، شعور، فہم اور ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے محض ڈگری کبھی بھی شعور جانچنے کا بیرومیڑ نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments