اداکارہ میرا کا انکشاف


پاکستانی اداکارہ میرا نے رشی کپورکے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ”رشی کپور کی خواہش تھی کہ وہ ان (یعنی میرا ) کے ساتھ کام کریں۔“

بعض لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ انھوں نے یہ ”انکشاف“ ان کی زندگی میں کیوں نہ کیا۔ یہ اعتراض بالکل ایسے جیسے کوئی کہے کہ انھوں نے ان کے انتقال پر ان کی زندگی میں کیوں نہ افسوس کیا۔

ہمارے ایک دوست نے، جو رشی کپور کا چاہنے والاہے، یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اداکارہ میرا یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں کہ ”میری خواہش تھی کہ میں رشی کپور کے ساتھ کام کروں“ لیکن اس سادہ لوح کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ایک بڑی اداکارہ ہیں اور ایسا کہنے سے ان کے ”بڑے پن“ پر حرف آسکتا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک مضمون میں چھوٹے آدمی اور بڑے آدمی کے درمیان ”خط امتیاز“ کھینچتے ہوئے بتایا تھا کہ جب کوئی چھوٹا آدمی قبرستان میں داخل ہوتا ہے تو السلام علیکم یا اہل القبور کہتا ہے جب کہ بڑا آدمی قبرستان میں داخل ہوتے ہی ”وعلیکم السلام لیٹے رہیے لیٹے رہیے“ کا آوازہ بلند کرتا ہے۔ یقیناً میرا بھی جب کبھی قبرستان میں جاتیں ہوں گی تو ضرور ”وعلیکم السلام لیٹے رہیے لیٹے رہیے“ ہی کہتی ہوں گی کہ بہرحال وہ کوئی چھوٹی موٹی شخصیت نہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک سپر سٹار ہیں۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر بڑے لوگوں میں ”واؤ“ ساکن ہوتا ہے۔ ان کی رائے سے اگر پوری طرح نہیں تو کم از کم جزوی طور پر اختلاف کی گنجائش ضرور نکلتی ہے، سو ہم ان سے جزوی طور پر اختلاف کرتے ہیں۔

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ وہ کون سی مشکلات تھیں جن کی وجہ سے آنجہانی رشی کپور اپنی یہ دیرینہ خواہش پوری نہ کر سکے تاہم ہمیں اس بات کا شدید افسوس ہے کہ وہ یہ خواہش ساتھ لیے آکاش سدھار گئے۔ تایا غالب (میں نے چچا غالب اس لیے نہیں کہا کہ وہ میرے والد گرامی سے عمرمیں ایک سو تیس سال بڑے تھے ) نے شاید ایسے ہی کسی موقعے پر کہا تھا۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

لیکن رشی کپور کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ وہ ادا کارہ میرا کے ساتھ کام کریں۔ انھیں سرے سے کوئی اور ارمان ہی نہیں تھا اس لیے ”ارمانوں کے کم نکلنے کا“ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سو ہم نے بھی ایک ہی مصرع لکھنے پر اکتفا کیا۔

ہمارا ذاتی خیال ہے کہ میرا جی نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہوگا اور وہ بے چارے دل کا ارمان دل میں لیے رخصت ہو گئے ہوں گے۔ (ان کے نام کے ساتھ ”جی“ لکھنے سے ہمیں مرحوم میرا جی یاد آتے ہیں لیکن کیا کیا جائے ہمارے منہ سے بے اختیار نکل رہا ہے )

عین ممکن ہے کہ میرا جی کے انکار سے رشی کے دل پر دکھ سے جو داغ بنا ہو، وہی بعد میں بڑھتے بڑھتے ایک ناسور (کینسر) کی شکل اختیار کر گیا ہوگا، جو بعد میں جان لیوا ثابت ہوا ہو۔ میرا خیال ہے کہ رشی کپور کے پسماندگان کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہیے ورنہ وہ ان کے خلاف ان کے قتل کر مقدمہ درج کرسکتے ہیں۔

اب کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ اگر خود میرا جی نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ انھوں نے بیان میں اس کی وضاحت نہیں کی تو ایسے سادہ لوح لوگوں کو معلوم نہیں کہ میرا جی ان اداکاروں کی طرح نہیں جو آئے روز اپنی حب الوطنی کے اظہارکے لیے طرح طرح کے بیانات داغتے پھرتے ہیں تا کہ پاکستانی میڈیا کی، جس کے بارے میں عمران خان سے لے کر مولانا طارق جمیل تک سارے ہی متفق ہیں کہ وہ جھوٹ بولتا ہے، نظروں کا تارہ بنے رہیں۔ انھیں اس جھوٹے میڈیا کی آنکھ کا تارہ بنے کا کوئی شوق نہیں۔

حال ہی میں وفات پانے والے ایک اور لیجنڈ بھارتی اداکار عرفان خان کی بھی شدید خواہش تھی کہ وہ میرا جی کے ساتھ کام کریں لیکن انھوں نے اس کا اظہار محض اس لیے نہیں کیا کہ مرحوم کی اہلیہ اس کا کوئی غلط مطلب نہ لے۔ وہ چوں کہ خود اس تجربے سے گزر چکی ہیں اور اس حوالے سے آئے روز پاکستانی میڈیا سنسنی پھیلاتا رہتا ہے اس لیے وہ کسی کا گھر خراب کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔

اگر تمام پاکستانی اداکار ان کے نقش قدم پر چلیں تو ہماری فلم انڈسٹری، جو ہمارے مولوی صاحبان کی نظروں میں کھٹکتی ہے، جنت کا نمونہ پیش کرنا شروع کردے اور آپ نے تو سنا ہی ہوگاکہ جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔

میرا جی کے اس انکشاف سے مجھے بھی حوصلہ ہوا کہ میں بھی ایک اہم راز میں آپ کو شریک کر لوں۔ یہ راز جسے میں ایک عرصے سے اپنے سینے میں دبائے بیٹھا ہوں، آپ سے صرف اور صرف اس شرط پر شیئر کر رہاہوں کہ آپ اسے کسی کو نہیں بتائیں گئے۔ آپ چوں کہ اچھے قاری ہیں اسے لیے مجھے آپ پر پورا اعتماد ہے۔ لیکن ایک خدشہ بھی ہے کہ اگر یہ میرے ادبی حلقہ احباب تک پہنچ گیا تو خواہ مخواہ کا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ بہرحال میرا جی کا شکریہ کہ انھوں نے مجھے یہ حوصلہ بخشا۔ سو جگر پر ہاتھ رکھ کر سن لیں۔

ایک دن سعادت حسن منٹوں میرے خواب میں آئے اور کہنے لگے : ”سلیمی صاحب۔ میں نے آپ کے ناول پڑھے۔ میری شدید خواہش ہے کہ میں بھی آپ کی طرح ایک ناول لکھتا۔ لیکن آپ نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی کہ میرے مرنے کے انیس سال بعد پیدا ہوئے اور میرے مرنے کے اٹھاون سال بعد جا کر پہلا ناول لکھا۔“

اب میں کیا جواب دیتا آپ ہی بتائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments