یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے


کہیں ایک کہانی پڑھی تھی جو کچھ یوں تھی، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ریاست کا بادشاہ بہت ظالم تھا۔ اس کی ساری پالیسیاں عوام مخالف تھیں لیکن کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے وزیر خاص کو بلایا اور کہا کہ ہمارا جو طرز حکومت ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ عوام ہمارے خلاف کوئی احتجاج نا کر دیں۔ وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ قوم مردہ ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں ہو گا۔ آپ خود بھی مزے کریں اور ہمیں بھی کرنے دیں۔ لیکن بادشاہ کو ڈر تھا کہ کہیں کوئی بغاوت نہ ہو جائے۔

وزیر نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بادشاہ نے پھر خدشے کا اظہار کیا تو وزیر نے کہا کہ آپ آزما کے دیکھ لیں۔ اگلے دن چینی مہنگی کر دی گئی لیکن کوئی احتجاج نہ ہوا۔ پھر بجلی مہنگی ہوئی۔ پھر بھی کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ وزیر نے کہا میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ قوم احتجاج نہیں کرے گی۔ بادشاہ کو یقین نہیں آتا تھا کہ لوگ اتنے مردہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ پھر اس نے ایک ظالمانہ حکم جاری کیا اور وزیر سے کہا کہ اب تو احتجاج ضرور ہو گا۔

ہر روز ریاست کے لوگ صبح کے وقت شہر کے مرکزی دروازے سے گزر کر دوسرے شہر مزدوری کرنے جاتے تھے۔ بادشاہ نے حکم صادر فرمایا کہ ہر روز صبح مرکزی دروازے سے گزارنے والے شخص کو مرغا بنا کر فی کس دو جوتے مارے جائیں۔ اور ساتھ ہی وزیر سے کہا کہ کہیں کوئی احتجاج ہو تو مجھے خبر کرو۔ تین دن بعد بہت سارے لوگ اکٹھے ہو کر سراپا احتجاج بنے محل پہنچ گئے۔ وزیر بھاگتا ہوا بادشاہ کے پاس آیا کہ کچھ لوگ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ دیکھا میں نے تمہیں کہا تھا کہ اس فیصلے پہ احتجاج ضرور ہو گا۔ دربار لگایا گیا، بادشاہ اپنے تخت پہ بیٹھا اور لوگوں سے بات کرنے کو کہا۔ ایک نمائندہ کھڑا ہوا اور بولا کہ حضور ہمارا ایک مسئلہ ہے اور ہم حل چاہتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ بیان کریں۔ وہ گویا ہوا کہ حضور ہم لوگ صبح کام پر جاتے ہیں۔ مرکزی دروازے پر فی کس دو جوتے مارے جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگ جوتے کھانے کے لیے قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ آپ نے جوتے مارنے کے لیے صرف ایک شخص مقرر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کی باری دیر سے آتی ہے اور ہم کام پر پہنچنے سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔ جناب سے گزارش ہے کہ جوتے مارنے والے بڑھائے جائیں تا کہ ہمیں لیٹ نہ ہونا پڑے۔

یہ سن کر بادشاہ نے جوتے مارنے والوں کی تعداد زیادہ کر دی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے (نوٹ: اس بات اور حکومت میں تبدیلیوں کا آپس میں تعلق محض اتفاق ہو سکتا ہے (منقول)۔

نا جانے کیوں ہر بار یہ واقع پڑھ کر اپنا خیال آجاتا ہے کہ ہر دور میں پاکستانی عوام کے ساتھ کچھ یوں ہی کیا گیا اور انہیں اس کا اتنا اندازہ نہیں ہوا مگر اس بار اس بار تو حد ہی ہوگئی پچھلی حکومتوں سے پڑنے والے جوتوں کی نوعیت ذرا کم ہوا کرتی تھی اور اسی لیے عوام بھی آرام سے کھا لیا کرتے تھے مگر اس بار ایسی شدید نوعیت کے جوتے پڑرہے ہیں اور عوام کو چیخنے کی بھی اجازت نہیں ہے ظاہر ہے بھئی عام حکومت اور خاص حکومت کے جوتوں میں فرق تو ہو گا۔

خیر حکومتوں سے ہمیشہ شکایت ہے اور رہے گی مگر پاک فوج کو سلام جس نے ہمیشہ پاکستان کے لیے قربانیاں دیں فوج میں رہتے بھی کام کیا اور ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی دل بڑا ہی روتا ہے کہ اتنے سال فوج کو دینے کے بعد اب جب آرام کا وقت آیا تو حکومت نے بلا لیا اور فوج نے ہر بار پکارے جانے پر لبیک کہا تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو بہتر طور سے فوج ہی چلا سکی ہے اور قائد عاظم کے تمام فرمودات درست ہیں مگر یہاں وہ غلط نکلے ان کا یہ کہنا: یہ مت بھولیں کہ مسلح افواج عوام کے خادم ہیں۔ ان کا کام قومی پالیسی بنانا نہیں ہے۔ یہ ہم، عام شہری ہیں، جو ان امور کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ان کاموں کو انجام دیں جن کے ساتھ آپ کو سپرد کیا گیا ہے۔ ذرا غلط ہے یہ قریباً 70 سال پہلے کی بات ہے لیکن یقیناً اگر آج قائد زندہ ہوتے تو ضرور اپنے آپ کو درست کرتے۔

مجھے یہ افسوس تھا کہ ہمارے عوام بہت ہی بیوقوف ہیں، کچھ سمجھتے ہی نہیں یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ میں خاصی مایوس تھی کہ کچھ عرصے سے ملک میں کافی نئی چیزیں ہورہی ہیں جیسے کہ اٹھارہویں ترمیم پر بحث حکومت میں اہم تبدیلیاں اور عوام خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے مگر کل ایک پوسٹ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہماری قوم تو خاصی سیانی ہے سب جانتی ہے بس۔ براہ راست بولنے سے گریز کرتے ہوئے آج کل میمز کی زبان میں بتا دیتی ہے کہ ”یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments