ہڈالی کا بیٹا خوشونت سنگھ: پنجاب، پنجابی، اورپنجابیت


دریائے جہلم کے پانی میں نہ جانے کیا تاثیر ہے کہ دو بڑے لکھاری پیدا کیے ۔ دونوں ہی ماں (مٹی) کے لیے وجہ شہرت بن گئے، دونوں ہی کو اسے مجبوری میں چھوڑ کر پردیس جانا پڑ گیا۔ میری مراد گلزار صاحب اور خوشونت سنگھ ہیں۔ دونوں کو اپنی مٹی سے انتہا کی محبت رہی۔

خوشونت سنگھ شاہ پور کے ایک گاؤں ہڈالی (موجودہ ضلع خوشاب) کی مٹی سے جنم لینے والا، مگر ہڈالی کا بیٹا، تقسیم کے وقت لاہور کا اپنا گھر آزادی سے ایک ہفتہ قبل اپنے دوست منظور قادر (ایوب دور میں وزیر خارجہ) کے حوالے کر کے انڈیا کے شہر دہلی (نیو دہلی) میں ہمیشہ کے لیے رہائش پذیر ہوگیاپرکبھی اپنی ماں (مٹی) کو نہ بھول پایا بل کہ جب مرا بھی تو اس کی راکھ کا کچھ حصہ وصیت کے مطابق اسی مٹی مین دفنایا گیا۔

مٹی سے محبت ایک فطری عمل ہے۔ جس کا اظہار کچھ لوگ برملا کرتے ہیں اور کچھ چاہ کر بھی نہیں کر پاتے۔ مگر بعض لوگ اس پر بوجھ بننے کی بجائے اس کا فخر بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ خوشونت سنگھ کا اپنی جائے پیدائش کے ساتھ رہا۔ میراپہلا تعارف، چار سال کی عمر میں عورتوں کو بری نیت سے دیکھنے والے خشونت سنگھ سے ان کی کتاب A Company of a women کے ذریعے ہوا۔ جب میں نے اس میں سے ایک جملہ پڑھا ”جب انسان پر سیکس کی ہوس طاری ہو تو مذہب بھی پیچھے رہ جاتا ہے“ تو میں مان گیا کہ یہ کوئی عام لکھاری نہیں، جسے سرسری پڑھا جائے، خیر وہ کتاب پڑھی اور خوب پڑھی۔

اس کتاب نے تو مجھ سے اپنا آپ منوا لیا اور یوں مصنف کی کھوج کا ذہن میں آیا تو اندازہ ہوا کہ ہم ہی بے خبر رہے۔ یہ بچپن میں قلم سے تختی پر لکھنے والا تو کئی کتابیں لکھ چکا ہے اور ساتھ سیاستدان، وزیر، ناول نگار پتا نہیں کیا کیا کچھ نہیں ہے۔ دوسری کتاب ”The Sikh“ پڑھی جو سکھ مذہب کی تاریخ پر ہے مگر پڑھ کر حیرانی اس وقت ہوئی کہ ایک سکھ اپنے مذہب کے متعلق اتنا بولڈ اور rational کیسے لکھ سکتا ہے پھر خیال آیا میاں خوشونت سنگھ ہے جو اپنے فن پر سماجی دباؤ کو کسی خاطر میں لانے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں رہا۔ تقریباً ایک عشرہ گزر گیا اور اتفاق سے خوشونت سنگھ کی کسی کتاب کو پڑھنے کا اتفاق نہ ہوا مگر اب ان کرونائی حالات میں جب معلوم ہوا کہ ان کی ایک کتاب چھپی ہے تو فوراً منگوا لی۔

موجودہ کتاب ”پنجاب، پنجابی، اورپنجابیت“ جو اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی مالا دیال نے تالیف کی ہے۔ یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو اس نے مختلف ادوار میں پنجاب کے حوالے سے قلم بند کیے ہیں۔ اس کتاب کو شاہد حمید نے اردو میں ترجمہ کیا ہے اور خوب کیا ہے۔ اسے نہایت خوب صورتی سے میٹ کاغذ پر بک کارنر جہلم نے چھاپا۔ دوسرے الفاظ میں اپنے سپوت سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اول: پنجاب اور پنجابی پن، حصہ دوم:میرا خون آلود پنجاب، حصہ سوم: پنجابی

یہ کتاب بنیادی طور پر سکھ تاریخ پر ایک مختصر مگر جامع انسائیکلو پیڈ یا ہے۔ اس کا پہلا حصہ جو ضخامت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ بابا گرونانک سے لے کر دسویں گرو گوبند تک کے حالات زندگی، تعلیمات، سکھ مذہب میں امن پسندی سے جنگ پسندی تک کا سفر، سکھ قوم کا سیاسی کردار مغلوں اور انگریزوں کے ادوار میں کیا کھویا کیا پایا، مذہبی کتاب گرنتھ صاحب، آدھی گرنتھ وغیرہ کو کیسے لکھا گیا اور اس میں کن کن گروؤں، اولیاء اکرام، بھگتوں کے کلام کو اکٹھا کیا گیا، گرمکھی سکرپٹ کیسا تشکیل پایا اور اس کی اصل تہہ تک پہنچنے کی کو شش کی گئی۔ المختصر سکھ تاریخ کا کوئی پہلو ایسا نہ ہو گاجس کے بارے میں یہ کتاب جانکاری نہ پہنچاتی ہو۔

دوسرا اہم موضوع جو اس حصے کے ذریعے قاری پر آشکار ہوتا ہے وہ پنجابیوں کی تاریخ، پنجابی زبان، اور ثقافت ہے جس پر بڑی سیر حاصل اور اچھوتی گفتگو کی گئی ہے کہ کیسے پنجابی زبان کی ترویج ہوئی کس طرح جٹ قوم اور پنجاب کی دھرتی لازم و ملزوم ٹھہرے۔ جٹ قوم کو یہ کتاب پنجاب کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام دیتی نظر آتی ہے۔

کتاب کا دوسرا حصہ خوشونت سنگھ کاتقریباً آنکھوں دیکھا حال ہے کہ اس نے اپنا بچپن ہڈالی گاؤں کی دیہاتی زندگی میں کیسے گزارا، ہجرت کے وقت لاہور سے نہ چاہتے ہوئے انڈیا چلے جانا اور بعد میں جیسے خالصتان تحریک، آپریشن بلیو سٹار ”اندرا گاندھی کا قتل، سکھ مخالف فسادات سے انڈین سیاست اور پنجاب کی ریاست کیسے سیاسی آگ کی تپش سے جھلستی رہی؟ حصہ سوم آٹھ شخصی خاکوں پر مشتمل ہے جن میں رنجیت سنگھ، بابا کھڑک سنگھ، گیانی ذیل سنگھ، پی سی لعل، منظور قادر، نانک سنگھ، بھگت پورن سنگھ، اور ویرن بائی کے خاکے شامل ہیں۔

ان خاکوں میں خونی رشتے، دوستی، عوامی درد، سیاسی داؤ پیچ، محبت، ایثار وغیرہ کھل سامنے آتے ہیں جن کو پڑھتے ہوئے آپ ہنستے بھی ہیں، روتے بھی ہیں، انسانیت پر فخر بھی کرتے ہیں، انسانیت مذہبی شدت پسندی پر غالب بھی نظر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر معاشرے میں خدا ترس لوگ پائے جاتے ہیں۔ جو مزاجا ایک جیسی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں جو حقیقت میں انسانیت کے پیروکار ہوتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو انسانیت کی آبیاری میں صرف کر دیتے ہیں۔

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک چیز بڑی حد تک واضح ہو گئی کہ پنجابی شاعری کی صنف بارہ ماہ جسے بابا گرونانک نے اپنی شاعری میں بہت خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا۔ اس سے بہت متاثر نظر آئے۔ خوشونت سنگھ نے ان کا انگلش میں بھی ترجمہ کیا ہے مگر اس کتاب میں یہ دھرتی اور اس کے باسی والے حصے میں اس تکنیک کوخوب صورتی کے ساتھ استعمال کرتا ہے اور پہلے حصے کے آخر میں ان کا مکمل ترجمہ کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں خوشونت سنگھ اسی انداز کو اپناتے ہوئے نثری انداز میں جدید بارہ ماہ یعنی جنوری فروری وغیرہ کا نام استعمال کرتے ہوئے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

جس سے سنجیدہ موضوع بھی ہلکا پھلکا پڑھنے والے کو نظر آتا ہے۔ خوشونت سنگھ کی جو خوبی ہے جو اسے باقی لکھاریوں سے منفرد بناتی ہے وہ بیانیے کو اتنے دل چسپ انداز میں تحریر میں لاتے ہیں کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے اور ساتھ وہ اسی دل چسپ انداز میں حقائق و شواہد کوبیان کا حصہ بناتے جاتے ہیں یوں جو تحریر سامنے آتی ہے وہ ادبی، علمی اور تاریخی لحاظ سے مکمل ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو ایک ہی نشست میں مذکورہ تینوں اقسام سے خوشگوار ملاقات کروا دیتا ہے۔

یوں پڑھنے والا اس خوش گوار احساس کو اپنی روح تک محسوس کرتا ہوا خوشونت سنگھ کا پرستار بن جاتا ہے ۔ اس کتاب میں editing کے حوالے سے ایک آدھ مسئلہ نظر آیا مثلاً جب سکھ گروؤں کے حالات زندگی بیان کیے گے تو دونوں جگہ پر بالکل ایک ہی طرح سے لکھے گے ہیں جس سے repetition واضح نظر آئی۔ دوسرا یہ کہ یہ کتاب زیادہ تر انڈین پنجاب کے سکھوں کا بیانیہ نظر آتی ہے صرف وارث شاہ، بلھے شاہ اور منظور قادر کو تین سو بتیس صفحات میں انتہائی مختصر بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تمام ان لوگوں کو پڑھنی چاہیے جو پنجاب کی تاریخ سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں کیوں کہ اس میں تاریخ، مذہب، سیاست، ادب، معاشرت، رشتے، انسانیت وغیرہ جیسے موضوعات اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والے کے لیے بہت کچھ نیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments