عارف وزیر: ریاست کی کمر پر مزید بوجھ نہ ڈالیں


پی ٹی ایم کے رہنما عارف وزیر کے بہیمانہ قتل پر ہر حساس اور باشعور شخص کی آنکھیں نم ہیں۔ پختون بیلٹ اور خصوصاً وزیرستان میں طالبانائزیشن کی آڑ میں پختونوں کو مخصوص ریاستی مفادات کی آڑ میں جس طرح ان کی اپنی ہی سرزمین پر خانماں برباد کیا گیا، انھیں دہشت و حشت کی جس لامتناہی جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا، اس نے پختونوں کے سینوں میں نفرت کے الاؤ بھڑکائے ہیں اور یہ الاؤ وقت گزرنے کے ساتھ آتش فشاں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

ایک لمحہ کے لئے مان لیا جائے کہ ریاست کے وسیع تر مفاد یا اس کی سلامتی کے لئے پراکسی جنگ کی حکمت عملی کے تحت کسی حد تک طالبانائزیشن کی تخم ریزی درست تھی لیکن جب اس کے ذریعے زیادہ تر تزویراتی مقاصد حاصل کر لئے گئے اور مالی اور دفاعی فوائد سمیٹ لئے گئے تو پھر اس نرسری کی بنیادوں کو وسیع تر قومی اور ریاستی مفادات کے تحت ہی اکھیڑ دینا چاہیے تھا۔ اس جنگ زرگری کے لئے پختونوں کو جس طرح مذہبی بنیادوں پر بے دردی سے استعمال کیا گیا اور پختون کے ہاتھوں کو اپنے پختون بھائیوں کے ہاتھوں خون میں رنگا گیا، اب اس کی تلافی ہونی چاہیے تھی۔

جن پختون علاقوں میں بارود کے ذریعے قہر ڈھایا گیا ہے، اب ان علاقوں کی بحالی کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے لیکن یہ ناتمام جنگ اب بھی جاری ہے۔ اب بھی اس میں غیور پختونوں کا خون بے دردی سے بہایا جا رہا ہے۔ ان کے علاقوں میں اب بھی دہشت گرد کھلے عام پھر رہے ہیں۔ پختون رہنماؤں اور عام پختونوں کو اب بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ان کی قیمتی زندگیوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان کے علاقوں اور ان کی زندگیوں میں امن و آشتی کو پھلنے پھولنے سے روکنے کے لئے اب بھی طرح طرح کے کھیل رچائے جاتے ہیں اور ”اپنے اچھوں“ کی پشت پناہی کر کے ”برے دہشت گردوں“ کا ہوّا کھڑا کرکے وہاں کے عام و خاص لوگوں میں خوف و دہشت پھیلائی جاتی ہے۔

ریاست کے لئے اپنے عوام اولاد جیسے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ریاستی ادارہ اپنے عوام کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ ناانصافیوں کا ارتکاب کرچکا ہو تو اسے اپنی غلطیوں کا اعتراف اور ادراک کرنا چاہیے اور ان غلطیوں کی تلافی کی کوئی معقول اور قابل قبول صورت نکالنی چاہیے۔ اگر مظلوم اپنے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے اوپر روا رکھے گئے ظلم و زیادتی کی تلافی اور اپنے موجود مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کرنا چاہتا ہے تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم عوام کو اپنی اولاد کی طرح اپنے ساتھ بٹھا کر ان کی شکایات اور مسائل غور سے سنے اور مظلوم عوام کو جھوٹی تسلیوں اور بے بنیاد وعدوں پر نہ ٹرخائے بلکہ فوری اور عملی اقدامات کے ذریعے حقیقی اشک شوئی کا بندوبست کرے۔

یقیناً آپ کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہوچکا ہوگا کہ جو لوگ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں، جو ریاستی جبر و ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اپنے معلوم اور نامعلوم مجرموں کا نام برملا لیتے ہیں، وہ غدار ہیں اور کوئی دشمن ملک ان کی پشت پناہی کرتا ہے لیکن جب آپ ان کے مسائل اور شکایات کو درست سمجھتے ہیں اور اپنی بعض دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں تو پھر ان پرغداری اور ملک دشمنی کا الزام لگانے کی بجائے ان کے مسائل حل کیوں نہیں کرتے۔ انھیں یہ موقع کیوں دینا چاہتے ہیں کہ وہ آپ سے مایوس ہوکر اغیار سے مدد طلب کریں۔ آپ کے ذہن میں حب الوطنی اور ملک دشمنی کا جو معیار ابھی تک موجود ہے، وہ ازکار رفتہ ہوچکا ہے، ہر خاص و عام اس کی حقیقت جان چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔

ریاست سے گلے شکوے رکھنے والے عارف وزیر کے بہیمانہ قتل کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ یہ ان واقعات کا تسلسل ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے پختونوں اور بلوچوں کے ٹارگٹ کلنگ، لاپتا افراد اور فوجی آپریشنوں کی صورت میں جاری ہے۔ اس طرح کی ٹارگٹ کلنگز، لاپتا افراد اور ان میں بعض کی مسخ شدہ لاشیں ریاست کی کمر پر ایک بوجھ کی صورت میں لادی جا رہی ہیں اور کوئی وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا کوئی وقت آئے۔

اپنے جائز آئینی حقوق کے لئے لڑنے والے عارف وزیر اور ان جیسے بعض ریاستی اداروں سے ناراض لوگوں کو قتل کروا کر یقیناً کسی کی انا کو غیرمعمولی تقویت ملے گی، اس طرح کے لوگوں سے نفرت کو تسکین کا احساس ہوگا لیکن اس کے نتیجے میں لوگوں کے دلوں میں نفرت کی جو آگ بھڑکتی رہے گی اور اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہے گا، اس کے نتائج اگر آج نہیں تو ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے۔

خدا کے لئے اس ملک اور اس کے عوام پر رحم کریں۔ نفرتوں کے الاؤ پر امن و آشتی کا ٹھنڈا پانی ڈال دیں۔ ناراض اہل وطن کو غدار اور ملک دشمن سمجھنا چھوڑ دیں۔ ان کو پاس بٹھا کر ان کی بات سنیں، ترجیحی بنیادوں پر ان کے مسائل حل کریں اور ان کی شکایات رفع کرنے کا مستقل بندوبست کریں۔ یہ اس مادر وطن کے بچے ہیں، ماضی میں بھی ان کی حب الوطنی کشمیر کے محاذ پر آپ دیکھ چکے ہیں اور اب بھی اگر انھیں سینے سے لگایا جائے تو یہ وطن پر مر مٹنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ جب آپ کسی کے زخموں پر پھاہا رکھتے ہیں تو اس کا درد کم ہوجاتا ہے اور جب اس کے زخم بھر جاتے ہیں تو وہ ماضی کے زخموں کو بھلا دیتا ہے۔ تو براہ کرم ان کے زخموں پر پھاہا رکھ کر ان کو آج اور ماضی کے زخموں کو بھلا دینے کا موقع دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments