آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟


مارچ کے وسط میں جب پاکستان میں کورونا وائرس سے بچاو کے لیے سکول، کالج بند کیے گئے تو اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو اسے ڈینگی کی طرح ہفتے دو ہفتے میں قابو آنے والی وبا سمجھ رہے تھے۔

لاک ڈاون شروع ہوا تو بہت سے دوست احباب نہایت یقین سے ایک عالمی سازش کی نشاندہی کرنے لگے، جس کا نقشہ تل ابیب میں بنا تھا اور جس کے ڈانڈے پنٹاگون اور امریکی صدارتی انتخابات سے جا کر ملتے تھے۔

ایک ہفتہ مزید گزرا تو یہ سوال کیا جانے لگا کہ کیا آپ کا کوئی جاننے والا کورونا کا شکار ہوا ہے؟ کیا کسی جاننے والے کی موت کورونا کے باعث ہوئی ہے؟ کیا آپ نے کورونا کا کوئی مریض دیکھا ہے؟

اس کے بعد واٹس اپ پہ پیغامات آنے شروع ہوئے کہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے بعد ایک مہنگی ویکسین متعارف کرائی جائے گی جس میں اسرائیل کی فلاں فلاں کمپنی کے اتنے شئیرز شامل ہیں۔

مریضوں کی تعداد بڑھی اور کچھ جاننے والوں میں بھی اس مرض کی تشخیص ہوئی تو تابڑ توڑ، شہد، کلونجی، گرم پانی اور لیموں کے نسخے، گرم پانی کے بھپارے لینے اور زیتون کا تیل سونگھنے کے ٹوٹکے سنائی دینے لگے۔

بیماری نے یورپ اور امریکہ کا نظام صحت برباد کردیا اور مرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچی تو اب یہاں لوگوں کو یہ خوش فہمی لاحق ہو گئی کہ پاکستانی چونکہ بی سی جی کے ٹیکے لگواتے رہے ہیں اور ملیریے سے بچنے کو ریسوچن پھانکتے رہے ہیں اس لیے ہمیں یہ وائرس کچھ نہیں کہے گا۔

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ گزر رہا ہے۔ مساجد میں حفاظتی اقدامات اٹھا کر تراویح جاری ہے۔ زندگی چل تو رہی ہے مگر ایک خوف کی فضا ہر طرف طاری ہے۔

اب تو لوگ افواہیں پھیلا پھیلا کر بھی تھک چکے ہیں۔ علاج بتا بتا کر بھی عاجز آچکے ہیں۔ اس بیماری کو خدا کا عذاب اور اس کی وجہ بے حیائی بتانے والے بھی تائب ہو چکے ہیں۔

خوب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ یہ ایک خوفناک وبا ہے اور اپنے وقت پہ، اپنی بھینٹ لے کر ہی ٹلے گی۔ ایسے میں ایک امید کی کرن نمودار ہوئی ہے۔ شائد ریڈیمیسور نامی دوا اس بیماری کا علاج ثابت ہو۔ مگر کون جانتا ہے؟

اب کسی کا فون آئے تو بس دبے لفظوں میں یہ ہی پوچھتا ہے، ’کیا عید تک لاک ڈاون ختم ہو جائے گا؟ کیا ہم عید مل سکیں گے؟ ‘ ایسٹر بھی ایسے ہی گزر گیا، کچھ خبر نہیں کہ عید بھی ایسے ہی گزر جائے مگر ایک بات تو طے ہے کہ جب تک ویکسین نہیں آتی، آدم کی بقا آدم بے زاری ہی میں ہے۔

ویسے سب سازشی تھیوریاں غلط بھی نہیں ہوتیں اور مجھ جیسے خوش عقیدہ لوگ تو جنوں،بھوتوں، پریوں چڑیلوں، بونوں، بھتنوں، بن سروں، چھلاوں، دیووں، بد روحوں اور خلائی مخلوق کے وجود کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

کورونا کے بعد کی دنیا ایک اور دنیا ہو گی۔ جانے کیا کیا حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں گی۔ ابھی دیکھیے، آپا فردوس عاشق اعوان کی جگہ جناب عاصم باجوہ صاحب آگئے۔ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).