جمہوریہ چیک: چند سیاستدانوں نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی ایجنٹس نے انھیں زہر دے کر ہلاک کرنے کا مبینہ خفیہ منصوبہ بنا رکھا ہے


جمہوریہ چیک میں ایک سیاستدان روپوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ روس نے انھیں قتل کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کو (روس کی جانب سے) درپیش خطرات حقیقی ہیں اور انھیں اپنی جان کا خوف ہے۔

جمہوریہ چیک کے ہی تین دوسرے سیاستدان دارالحکومت پراگ میں مسلسل 24 گھنٹے پولیس کی نگرانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ انھیں اندیشہ ہے کہ روس کی جانب سے انھیں خفیہ طریقے سے زہر دے کر ہلاک کیے جانے کا مبینہ منصوبہ بن چکا ہے۔

روس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

پراگ کی سکستھ ڈسٹرکٹ کے میئر اوڈریج کولر نے ایک نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت مشکل ہے۔‘ پراگ کے میئر جس نامعلوم مقام پر موجود تھے وہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روسی ایجنٹ پر حملہ: روس کو وضاحت کے لیے ڈیڈ لائن

روس کا 23 برطانوی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان

جاسوس کو کیمیائی زہر دینے پر امریکہ کی روس پر پابندیاں

بذریعہ سکائپ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ میں نے طویل عرصے سے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا نہ ہی وہ مجھے دیکھ پائے ہیں۔ حتی کہ میرا خاندان یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس وقت کہاں موجود ہوں۔

اب وہ بیرونی دنیا سے صرف سکائپ کے ذریعے ہی رابطہ قائم کرتے ہیں۔

علامتی مجسمے کو ہٹا دیا گیا

پراگ

میں میئر اوڈریج کولر کے بارے میں بہت کم ہی جانتا ہوں۔ ہم کسی زمانے میں پراگ کی نیویارک یونیورسٹی میں اکھٹے کام کرتے تھے۔

سکائپ پر گفتگو کے دوران ان کی پشت پر موجود نیلے رنگ کی الماری پر لکھا ہوا تھا ’پراگ، 6 میونسپل ڈسٹرکٹ‘۔ اس سے مجھے کچھ یاد آیا۔

پھر مجھے یاد آیا کہ آخری بار ہماری مختصر ملاقات پراگ کی سکستھ ڈسٹرکٹ کونسل میں ووٹنگ سے پہلے ہوئی تھی۔ اس ووٹنگ کا مقصد سنہ 1980 میں تنصیب کیے گئے روسی مارشل ایون کونوف کے مجسمے کو پراگ سے ہٹانا تھا۔

ایون کونوف دوسری جنگِ عظیم کے کمانڈر تھے جنھوں نے یقیناً چیکوسلواکیا کے بڑے حصے کو نازیوں سے آزاد کروایا، لیکن تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ وہ نہیں تھے۔

وہ ایک متنازع شخصیت تھے جھنوں نے ہنگری میں سنہ 1956 میں سوویت یونین کی ظالمانہ اقدامات کی نگرانی کی اور پراگ میں سنہ 1968 میں اٹھنے والی عوامی تحریک کو بھی کچلا۔

جب ان کے مجسمے کو پراگ سے ہٹایا گیا تو روسی حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ روس نے جمہوریہ چیک قانونی کارروائی کی بھی دھمکی دی۔

روس

میئر کولر کونسل کی میٹنگ میں تھے سو مجھے انتظار کرنا پڑا۔ میں مرکزی دروازے کی داخلی جگہ، جسے اینٹی چیمپر کہتے ہیں، پر موجود تھا۔ میں اس کی نیلی روشن سکرین کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ اسے بظاہر انھوں نے اپنے نامعلوم خفیہ ٹھکانے پر رکھا ہوا تھا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن پر میں تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن جو میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ چیک پولیس اور خفیہ ایجنسی دونوں کے پاس کچھ خفیہ معلومات ہیں کہ شاید روس کی جانب سے براہ راست کوئی خطرہ ہے۔

جاسوسی ناول کی گونج

اس خطرے کی نوعیت کو ابتدا میں جمہوریہ چیک کے ایک ہفتہ وار شائع ہونے والے میگزین ’ریسپکٹ‘ میں مختصر مگر ھماکہ خیز انداز میں پیش کیا گیا۔ یہ مضمون ایسے لکھا گیا تھا جیسا کہ اسے کسی جاسوسی ناول سے اخد کیا گیا ہو۔

تین ہفتے پہلے اس مضمون میں نامعلوم انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ روس سے سفارتی پاسپورٹ پر پراگ ایئر پورٹ پر آنے والے ایک شخص کے پاس ایک سوٹ کیس ہے جس میں جان لیوا زہر ’رائسن‘ موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق سفارتی پاسپورٹ پر سفر کرنے والے روسی شخص کو ایئرپورٹ سے ایک کار لینے آئی جس پر روسی سفارتی نمبر پلیٹ لگی تھی۔ وہ کار انھیں روسی سفارت خانے لے گئی جو پراگ کے میئر کے آفس سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔

روس

ریسپکٹ کا دعویٰ ہے کہ چیک خفیہ ایجنسی کی نظر میں یہ شخص دو شہروں کے سیاستدانوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے جنھوں نے حالیہ مہینوں میں ماسکو کو اشتعال دلایا تھا۔ ان سیاست دانوں میں اوڈریج کولر اور زڈینیک ہریب شامل ہیں۔

میئر ہرب نے حال ہی میں روسی سفارت خانے کے سامنے واقع علاقے کا نام تبدیل کر کے ’بوریس نیمٹسوف سکوائر‘ رکھنے کی منظوری دی ہے۔ بوریس نیمٹسوف روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے مخالف ہیں جنھیں سنہ 2015 میں قتل کیا گیا تھا۔

اگلے ہی روز ایک اور شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ ماسکو کے تیسرے نقاد اور جمہوریہ چیک کے سیاستدان میئر پاویل نووٹنی بھی روس کی جانب سے درپیش خطرے کے باعث پولیس کی تحویل میں جا چکے ہیں۔

حکام کی خاموشی

ان الزامات کی روس نے انتہائی سخت اور واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ روس نے کہا ہے کہ یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔

صدر پوتن کے ترجمان درمتی پسکو نے میگزین میں شائع ہونے والے مضمون کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب جمہوریہ چیک کی حکومت بھی اس معاملے پر چپ سادھے بیٹھی ہے اور کوئی تصدیقی یا تبصرہ نہیں کر رہی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ میڈیا میں شائع ہونے والی خفیہ معلومات پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

پراگ

میئر ہرب کا کہنا ہے کہ اب وہ 24 گھنٹے پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہوتے ہیں

اگرچہ انھوں نے یہ تصدیق کی کہ روسی سفارتکار ایئر پورٹ پر آئے تھے اور شاید وہ ان چند فلائٹس میں سے کسی ایک پر تھے جو کورونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن کے باوجود آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جب پوری دنیا کے سامنے یہ حیرت انگیز الزامات سامنے آئے تو غم و غصہ، عدم اعتماد اور تضحیک پر مبنی ملے جلے جذبات کو ترغیب ملی۔ صحافیوں اور سفارت کاروں نے اپنے فون پر رابطے کرنا شروع کیے۔ ہر شخص شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

کسی یورپی دارالحکومت کے میئر کا قتل جنگی اقدام کے مترادف ہو گا۔ یہ روس کے لیے منفی اثرات کا حامل ہو گا یہ باکل پاگل پن ہے۔

جمہوریہ چیک کے اندر موجود ایک مخالف انٹیلیجنس ذریعے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابھی اصل حقائق کی تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن تردید سے بہت دور میڈیا رپورٹس اورایک ذریعے نے مجھے بتایا ہے کہ وہ حقائق سے متعلق معلومات کو بنیاد بنا رہے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں وڈریج کولر نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں روسی خفیہ ایجنسی اور اس کے ایجنٹ نے مسٹر سکریپل کو اعصاب شکن زہریلے مواد سے نشانہ بنایا تھا۔‘

سنہ 2018 میں سرگئے سکرپیل اور ان کی بیٹی کو برطانیہ کے علاقے ولیٹ شائر میں زہریلے اور اعصاب شکن مواد سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا تھا۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے وہاں روسی انٹیلیجنس نے اپنے ایجینٹس بھجوائے تھے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب ان (روس) میں برطانیہ میں یہ سب کرنے کی جرات ہے تو وہ پراگ میں ایسا کیوں نہیں کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp