ایک غیر معروف بندے کی آپ بیتی (حصہ سوئم)۔


ویسے ہی ایک دن ہم سخت فارغ بیٹھے تھے، کافی دنوں سے کچھ نہیں لکھا تھا تو کچھ اپنے بارے میں لکھنے بیٹھ گئے۔ لکھا اور ہم سب کو بھیج دیا، انہوں نے بھی کمال مہربانی کرتے ہوئے چھاپ دیا اور بہت سوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اسی چکر میں ہم نے اپنی آپ بیتی کا حصہ دوئم بھی لکھ دیا اور کافی دوستوں نے کہا کہ پہلی قسط زیادہ مزے کی تھی، ہم اتنا ہی کہہ سکے کہ فارم ایک جیسی تھوڑی رہتی ہے، مگر بات دل میں بیٹھ گئی اور پھر کچھ لکھ نہ سکا۔ آخر کار سوچا کہ اگر کچھ نہ لکھا تو تاریخ کا ایک بہت اہم پہلو ہمارے ساتھ ہی مر کر مٹی میں رل جائے گا اس لئے ہم قوم پر اس احسان عظیم کرنے کے لئے پھر سے حاضر خدمت ہیں۔

ہم تین بھائی تھے، بہن کوئی تھی نہیں اس لئے ہمارا گھر ہمارے دوستوں کی آماجگاہ تھی۔ اماں بھی منع نہیں کرتی تھیں کہ چلو گھر ہی بیٹھے ہیں کہیں باہر لفنٹریاں نہیں کر رہے۔ خالہ کی چار بیٹیاں ہی تھیں، ان کا بیٹا نہیں تھا تو جب وہ ہمارے گھر آتی تھیں تو ہمارے گھر کے اندر ہمارے دوستوں کا آنا جانا منع ہو جاتا تھا اور انہیں بھی پتا چل جاتا تھا کہ کوئی مہمان آئے ہیں۔ ہم دو بھائی اور دو کزن کا گروپ بن جاتا اور باقی سب چھوٹوں کو ہم کمپیوٹر وغیرہ پر لگا کر خود کچھ نہ کچھ اٹکھیلیاں کرتے رہتے۔

ایک رات ہم سب ڈرائنگ روم میں نیچے بستر بچھا کر جاگتے گپیں ہانکتے رہے اور صبح فجر کی اذان ہو گئی۔ جیسے ہی ابا کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ہم نے لائٹ بند کی اور سب جلدی جلدی لیٹ گئے۔ ابا نے ڈرائنگ روم سے گزرتے ہوئے آواز دی او دلیو، سوندے کیوں نیئں (ایک بے ضرر سی گالی دے کر کہا کہ سوتے کیوں نہیں ہو) ۔ ہم چار کا گروپ تو چپ کیے سانس روکے لیٹا رہا مگر چھوٹے تین جو ہمارے گروپ سے نالاں رہتے تھے انہوں نے موقع غنیمت جانا اور ہمارے ہی چھوٹے بھائی کی آواز گونجی کہ پاپا یہ دلے ان دلیوں کی وجہ سے نہیں سو رہے، اور ہم سب جو سونے کا ڈرامہ کر رہے تھے وہ اپنے قہقوں پر قابو نہ پا سکے۔

بچپن میں ہمارے پاس سرخ رنگ کی مہران تھی۔ ہم دونوں بڑے بھائیوں نے روز کے حساب سے باریاں لگائی ہوئیں تھیں کہ ابا کے آفس جانے سے پہلے گاڑی صاف کرنی ہے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ایک دن میں بونٹ اور دائیں سائیڈ صاف کروں گا اور مجھ سے چھوٹا بھائی مہران کی پچھلی اور بائیں سائیڈصاف کرے گا اور اگلے دن باریاں بدل لیں گے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو جائے۔ جب سب سے چھوٹا بھائی اتنا بڑا ہو گیا کہ ہمارے ساتھ کام بٹا سکے تو ہم اب اس کو کام نہ دے کر اپنے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتے تھے تو ہم دونوں نے یہ کیا کہ خود بونٹ بانٹ لیا اور پچھلی سائیڈ اسے دے دی۔ گاڑی کا صفائی کے معاملے میں جو کاک ٹیل بنا ہوتا تھا وہ ہمارے انصاف کی ایک روشن مثال تھا۔

میٹرک سے پہلے کی بات ہے جب ہم نالائق ہوا کرتے تھے۔ لائق تو ہم اب بھی نہیں ہیں مگر ساتھ والے بہت ہی نالائق ہیں تو ہم اندھوں میں کانے راجے ہیں۔ خالہ نے ایک دفعہ کہہ دیا کہ میٹرک میں اچھے نمبر لو تو اچھا سا تحفہ دوں گی۔ اس وقت خیر سے احساس نہیں ہوا مگر اب پتا ہے کہ انہوں نے یہ اسی لئے کہا تھا کہ انہیں ہماری صلاحیتوں پر پورا یقین تھا۔ یہ نہیں ہوا تھا کہ ہم نے کسی مادی تحفے کے لالچ میں کچھ فالتو پڑھا ہو، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

مر مر کے میٹرک میں پہلی ڈویژن آئی، تو ایک خط خالہ کو لکھ مارا جس میں فرسٹ ڈویژن کے فضائل پر سیر حاصل گفتگو کی، اسے حاصل کرنے میں جن پل صراط کو پار کیا ان کا تذکرہ کیا، اپنے اس وقت دور دور تک تاریک مستقبل کے روشن پہلو اجاگر کیے ، اور پھر انہیں ان کا تحفے کا وعدہ یاد کرایا، خط کا جواب نہ آنا تھا نہ آیا جس کی ہمیں بڑی تکلیف تھی کہ خالہ نے فرسٹ ڈویژن کو سیریس ہی نہیں لیا مگر کوئی بارہ سال بعد ہمیں اچھا کماؤ پوت سمجھتے ہوئے اپنی بیٹی ہمارے نکاح میں دے کر ہمارا گلہ دھو دیا۔

یہ وہی خالہ ہیں جن کے پیر کا ناخن ایک دفعہ میٹرک سے بہت پہلے ہم نے اپنے بوٹ کے نیچے دے کر توڑ دیا تھا تو انہوں نے درد کی ٹیس اٹھنے کے دوران کہا تھا کہ اللہ کرے تیری سس مرے (اللہ کرے تمہاری ساس فوت ہو) ، ہم ابھی تک دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہیں پر شاید دعا میں وہ سوز نہ تھا کہ قبولیت کا شرف پاتی یا شاید اپنے زہر کا اثر خود پر نہیں ہوتا۔

اس آخری پیرا لکھنے کے بعد اگر ہم اپنی بیگم کے ہاتھوں بچ رہے تو حصہ چہارم لئے ضرور حاضر خدمت ہوں گے ورنہ حصہ سوئم کو ہی آخری قسط سمجھا اور پڑھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments