وبا اور ہماری فنٹاسی کا قتل



جوانی شہروں کی دُھول چاٹتے گزرتی جا رہی ہے۔ پہلے تو تعلیم کے پیچھے بھاگتے رہے پھر روزگاز کی فِکر نے لتاڑا۔ ہر انسان کی اپنی فنٹاسی ہوتی ہے۔ ہر ایک کے ذہن میں پر سکون زندگی کا ایک خاکہ ہوتا ہے۔ ہماری فنٹاسی کی تشکیل ہمارے والدین نے کی۔ ہمارے سامنے مثالی زندگی کا ایک خاکہ رکھا۔ ہمارے بڑوں کی فنٹاسی یہ تھی کہ ہم شہر جائیں۔ پڑھیں۔ نوکری کریں اور گھر بنائیں۔ ایک گاڑی ہو۔ اور گاڑی بس چلتی جائے۔

زندگی اچھائی اور برائی کا ایک پیکج ہے۔ ہم نے اپنی اس فنٹاسی کے کچھ اجزا پا لیے ہیں۔ کچھ پا لیں گے۔ کچھ کی خواہش لیے یہاں سے چلے جائیں گے۔

وبا کے دن ہیں۔ زندگی رکی ہوئی ہے۔ خبر نہیں کہ یہ کب تک ایسا رہے گا۔ وبا کے اثرات دنیا پہ کیا ہوں گے؟ عالمی سطح پہ کیا تدیلیاں آئیں گی؟ کیا سیاست اور معیشت کے بنیادی اصول بدلیں گے؟ کیا ہتھیاروں کی بجائے انسانوں پہ خرچ ہو گا؟ ان سب سوالوں کے جواب اہلِ قلم دیتے رہیں گے۔ مجھے تو یہ پتہ ہے کہ اس وبا نے ہماری یا ہمارے بڑوں کی فنٹاسی کے اس کینوس میں جابجا سوراخ کر دیے ہیں۔ مثالی زندگی کے اس نقشے میں داغوں کو نمایاں کر دیا یے۔

اس سے پہلے ہمارا گاؤں ہمارے بچپن کا ہی ایک پرتو ہوتا تھا۔ یوں سمجھیے کہ دیہات اور بچپن ایک ہی شے کے دو نام ہوتے تھے۔ ہمیں ہمیشہ یہ بتایا گیا تھا کہ یہ گاؤں ہمارا عارضی ٹھکانہ ہے۔ یہاں کی گندم اور دودھ تو تم کھا سکتے ہو لیکن یہاں اپنی زندگی گزارنے کا سوچنا بھی مت۔

لاک ڈاؤن کی خبر ملی تو شہر سے گاؤں آنا پڑا۔ ارادہ تو کچھ دنوں کا تھا۔ پہلے خبر ملی کہ یونیورسٹی تاحکمِ ثانی بند کر دی گئی ہے۔ پھر اعلان ہوا کہ چھٹیاں ہو گئیں۔ اور اب تو پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہے۔ اب گاؤں میں رہنا مجبوری بن گیا۔ ہم پہ بتوں نے ایسی خدائیاں کر لی ہیں کہ اب سزا میں اپنی منشا شامل کر کے سزا سے بھی لطف کشید کرنے لگے ہیں۔

اب گاؤں میں رہنا پڑا تومحسوس ہوا کہ بچپن میگنفائی ہو کر برابر آ کھڑا ہوا ہے۔ گاؤں سے شہر جانے کی جو گاڑی پکڑی اب واپس گاؤں آ کے رک گئی ہے۔ ایک غلطی البتہ ہوئی کہ گاڑی تو پکڑ لی تھی لیکن بہت سا سامان اڈے پہ ہی چھوڑ آئے تھے۔ اب بیچ سفر میں ہیں۔ منزل کہیں ملتی نہیں اور سامان جو کہیں رہ گیا تھا ہاتھ آ گیا ہے

کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ شہر کی بے ہنگم روٹین سے رہائی ملی ہے۔ لیکن باہر نکلنے پہ پابندی ہے۔ پہلے تو سارا دن گھر میں پڑے رہے۔ ہھر ذرا ہمت کر کے شام کو باہر نکلنے کی عادت ڈالی۔ ماسک پہن کے گلیوں سے ہوتا گاؤں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ یہ دنیا ہی الگ ہے۔ شاید وہ سامان جو کہیں کھو گیا تھا ہاتھ آنے لگا تھا۔

بہار اپنے عروج پر ہے۔ چاروں طرف ہریالی کی آمریت مستحکم ہو چکی ہے۔ بادلوں کی اوٹ سے سورج غروب ہو رہا ہے لیکن غروب ہونے سے پہلے افق پر ایک لالی سی بکھیر گیا ہے۔

دیہات کی شام اب محض درسی کتابوں کا کیری کیچر نہیں رہی بلکہ میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے چلتی ہے۔ کسان دن بھر کے کام کاج سے تھکا دودھ کی گاگر سر پہ رکھے واپس لوٹتا ہے۔ ہاں مگر اب اس کے رستے میں دو تین فیکٹریاں بھی پڑتی ہیں۔ اس کے پاس سے اب ریڑھیاں تو گزرتی ہیں لیکن ساتھ گاہے گاہے کسی چھوٹے دیہاتی سیٹھ کی کرولا دھول جھونگتی گزر جاتی ہیں۔ راہ چلتے کسان ہر تیز گاڑی کو رستہ دینے کے لیے رک جاتے ہیں۔ اور دودھ کی گاگر میں سڑک کی

دھول بھی پڑ جاتی ہے
پرندے دن بھر کی اڑانوں کے بعد اپنے ٹھکانوں کو لوٹتے ہیں۔

ٹھکانے اگرچہ پہلے جتنے نہیں ہیں۔ ہماری سب سے بڑی ضد یہ ہے کہ میں بدلتا ہوں تو بدل جاؤں لیکن زمانہ بالکل بھی نہ بدلے۔ جو جیسا تھا وہیں رُک جائے۔

بدلتے حالات سے سمجھوتہ نہ کر پانے والے لوگ نوسٹیلجیا کا شکار ہوجاتے ہیں اور نوسٹیلجیا بہت بری بیماری ہے۔ دیکھا جائے تو ماضی ان لوگوں کو زیادہ یاد آتا ہے جن کا حال اور مستقبل کوئی اتنا اچھا نہ ہو۔ یہی حال قوموں کا بھی ہے۔ سوچیے تو وہی قومیں اپنی ماضی کو بار بار یاد کرتی ہیں جن کا حال اچھا نہ ہو اور مستقبل اچھا ہونے کے امکان کم ہوں۔

سچ تو ہے کہ اسیری کے ان دنوں میں اپنا ماضی اور بھی حسِین لگنے لگا ہے۔ لیکن وہ ماضی جس کو ہم ڈھونڈنا چاہتے ہیں اپنی خالص حالت میں مِل نہیں سکتا۔ دراصل وقت کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرنا ہی سب سے بڑی غلطی ہے۔ بہتی ندی کے پانی کو روک کہ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پہ ختم۔

سنا ہے کرونا نے سب کو اپنی زندگیاں نئے سرے سے ترتیب دینے کا موقع دیا ہے۔ اگرموقع ہاتھ آ ہی گیا تو کیوں نہ ہم سب اپنی مثالی زندگی کے اس ٹوٹے کینوس کو پیوند لگانا شروع کر دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments