موسیقار شوکت علی دہلوی المعروف ناشاد



” میرے دو دادا ترکستان سے کسی مہم میں لشکریوں کے ساتھ آئے پھر یہیں کے ہو رہے۔ جب ہی ہمارے خاندان میں ہاشمی سلسلہ چلتا ہے۔ میرے ابا نے بھی بعض فلموں میں شوکت علی ہاشمی کے نام سے موسیقی دی۔ موسیقی میں ہمار ا دہلی گھرانہ ہے۔ ہمارا رستم پارک، لاہور والا مکان جب بنا تو اُس وقت اُس اسٹریٹ پر یہ اکیلا گھر تھا لہٰذا اس اسٹریٹ کا نام میرے والد نے ہاشمی اسٹریٹ لکھوایا۔ ہم لوگ پہلے چوبرجی والے مکان میں رہتے تھے پھر والد صاحب نے رُستم پارک، نزد موڑ سمن آباد میں 4 کنال کا مکان بنوانا شروع کیا۔

وہ میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ جب تک مکان کی تعمیر مکمل نہ ہو جائے روزانہ مزدوروں کو دوپہر کا کھانا کھلوانا ہے۔ جو والدہ خود پکواتی تھیں۔ اس کے علاوہ مزدور دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر قیلولہ کرتے پھر دوبارہ کام شروع ہو جاتا۔ یہ مکان آج بھی قائم ہے۔ اسی طرح دہلی میں ہماری خاندانی حویلی آج بھی قائم ہے، وہاں میرے چچا انعام علی خان، طبلہ نواز رہتے تھے۔ یہ ستار نواز پنڈت روی شنکر کے ساتھ سنگت کرتے رہے ہیں۔

اب اُن کے بیٹے وہاں ہوتے ہیں۔ ہمارے ابا جب گھر پر ہوتے تو ہمیں مال روڈ سیر کرانے لے جایا کرتے تھے۔ ہمارے پاس ماشاء اللہ 2 گاڑیاں تھیں۔ ایک کے ڈرائیور اشرف مُکیش تھے۔ یہ گلوکار مکیش کے گانے گانے میں مشہور تھے“ ۔ یہ الفاظ امیر علی ناشاد کے ہیں جو ناشاد صاحب کے بیٹے ہیں۔ پچھلے دنوں ان سے ایک تفصیلی نشست رہی۔ اس کی چیدہ چیدہ باتیں پڑھنے والوں کے لئے حاضر ہیں۔ لیکن پہلے کچھ شوکت علی دہلوی المعروف ناشاد کے بارے میں گفتگو ہو جائے۔

11 جولائی 1923 کو دہلی میں پیدا ہونے والے شوکت علی ہاشمی جو بعد میں شوکت دہلوی کہلائے 1940 کے اوائل میں بمبئی آ گئے۔ مجھے پاکستانی فلمی صنعت کی ایک معتبر شخصیت جناب علی سفیان آفاقیؔ نے بتایا کہ شوکت علی بہت اچھے سارنگی نواز تھے اور ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ سارنگی بجا تے تھے۔ انہیں موسیقار بننے کا خیال آیا لیکن کبھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا البتہ ان کے ساتھ کام کرنے والے سازندوں کو ان کی اس دبی خواہش کا علم تھا اور وہ اُن کی موسیقار بننے کی صلاحیتیوں کو بھی جانتے تھے۔

انہیں موسیقار بنانے کا سہرا فلمساز و اداکار شیخ مختار کے سر جاتا ہے جب انہوں نے بمبئی میں اپنی فلم ”ٹوٹے تارے“ ( 1948 ) بنانے کا سوچا۔ انہوں نے اس کے لئے موسیقار شوکت علی کا انتخاب کیا۔ اِن کا پہلا فلمی گیت گلوکارہ راجکماری کی آواز میں بہادر شاہ ظفر کا کلام : ”نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں۔“ ہے۔ شیخ مختار نے اپنی دوسری فلم ”دادا“ ( 1949 ) کے لئے بھی شوکت علی ہی کوموسیقار رکھا۔ شوکت علی دہلوی کی قسمت کا تارہ چمکانے والے گیت نگار اور فلمساز نخشبؔ جارچوی ( 1925۔ 1967 ) تھے اور اِس کا سبب اُن کی فلم

” نغمہ“ ( 1953 ) تھی۔ یہ فلم شوکت دہلوی کے لئے بہت اہم ہے کیوں کہ اسی فلم سے اُن کا فلمی نام ’ناشاد‘ مشہور ہوا۔ یہ نام اِن کے لئے خوش بختی لایا حالاں کہ ’ناشاد‘ کا لفظی معنی ’افسردہ دل‘ ہے۔ مذکورہ فلم نے شوکت دہلوی کے ناشاد بننے میں کیا کردار ادا کیا؟ یہ مجھے آفاقیؔ صاحب نے بتایا :

” جب فلمساز نخشب ؔ بمبئی میں اپنی فلم“ نغمہ ’‘ بنانے آئے تو دھنوں کے لئے مشہور موسیقار ”نوشاد علی“ سے رابطہ کیا۔ وہ ایک وقت میں ایک ہی فلم کی موسیقی دیا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے مصروفیت کی بِنا پر معذرت کر لی۔ نخشبؔ صاحب میں خود پسندی بہت تھی۔ اِس انکار نے اُنہیں غصہ دلا دیا۔ انہیں گمان تھا کہ ان کے لکھے ہوئے گیت سے کوئی بھی موسیقار مقبول ہو سکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس خود پسندی اور غصہ کی عادت کی وجہ سے کسی بھی موسیقار سے ان کی بنتی نہیں تھی۔

نئے موسیقاروں میں ان کی نظرِ انتخاب شوکت دہلوی پر پڑی۔ موسیقار نوشاد علی کی طرح شوکت دہلوی بھی طرزیں موزوں کرتے ہوئے راگ راگنیوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نخشب ؔصاحب نے اِن کو اپنی فلم کا موسیقارچُن لیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ شوکت دہلوی کا نیا فلمی نام ”ناشاد“ رکھ دیا۔ اول تو وہ نوشاد کو نیچا دکھانا چاہتے تھے دوسرے یہ کہ وہ نوشاد اور ناشاد کے معمولی فرق سے فائدہ اُٹھا نا چاہتے تھے۔ انہوں نے تو اپنے فائدے کے لئے شوکت علی دہلوی کو استعمال کرنے کا سوچا تھا مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ عنقریب ناشاد خود اپنی پہچان بن جائیں گے اور بہت نام پیدا کریں گے ”۔

بیشک یہ سب مواقع، قدرت نے موسیقار ناشاد کی مقبولیت اور ترقیوں کے لئے میسر کیے ۔ نخشبؔ تو وسیلہ بنے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فلم ”نغمہ“ ( 1953 ) کے گیتوں پر موسیقار ناشاد نے اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کر دیں۔ نخشبؔ جارچوی نے بھی اپنی پوری قوتِ تخیلہ سے کام لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذکورہ فلم سُپر ہِٹ ثابت ہوئی۔ فلم کے گیت ہر خاص و عام نے بہت پسند کیے۔ گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں یہ گیت:

بڑی مشکل سے دل کی بیقراری کو قرار آیا
کہ جس ظالم نے تڑپایا اسی پر ہم کو پیار آیا

آج بھی آپ یہ گیت سنیں تو کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے کیوں کہ ایک سادا دھن اور کم سازوں کے استعمال نے بولوں کے اثر کو نمایاں کیا۔ یہ ناشاد صاحب کی پہلی زبردست کامیابی تھی۔ ان کا یہ فلمی نام ’ناشاد‘ بے حد خوش قسمت ثابت ہوا۔ آفاقی ؔصاحب کے بقول:

” نخشبؔ صاحب موسیقار نوشاد کو نیچا تو نہیں دکھا سکے مگر انہوں نے ناشاد کی مدد سے ثابت کر دیا کہ وہ نوشاد صاحب کی موسیقی کے محتاج نہیں“ ۔

پھر ناشاد صاحب نے 1955 میں ایک فلم ”بارہ دری“ کی موسیقی دی۔ اِس کے تمام ہی گیت ہِٹ ہوئے۔ جیسے :

’ بھلا نہیں دیناجی بھلا نہیں دینا، زمانہ خراب ہے دغا نہیں دینا‘ گیت خُمارؔ بارہ بنکوی، آوازیں محمد رفیع اور لتا، ’محبت کی بس اتنی داستاں ہے، بہاریں چار دن کی پھر خزاں ہے‘ آواز لتا، ’چلی وہ نصیب کی آندھیاں کہ محل وفا کے اجڑ گئے، گھڑی بھر کو جو نہ ہوئے جدا وہ سداکو آج بچھڑ گئے‘ ، آواز خود ناشاد صاحب کی، ’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی، اک خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی‘ ، آواز طلعت محمود۔

اس کے بعد فلمساز و ہدایتکار امرناتھ جیلا رام کھیتر پل المعروف کے امرناتھ کی فلم ”بڑا بھائی“ ( 1957 ) میں بھی اِن کی موسیقی بہت پسند کی گئی۔ اس کے گیت نگار راجہ مہدی علی خان، پریم سکسینا اور ا حسن رضوی اور گلوکار طلعت محمود، محمد رفیع اور آشا بھوسلے تھے۔ اس کے بعد نخشبؔ ؔصاحب کی فلم ”زندگی یا طوفان“ تھی۔ علی سفیان آفاقی ؔصاحب کہتے ہیں :

” اِس فلم نے ناشاد کو بھارت کے موسیقاروں میں مستحکم کر دیا۔ بمبئی میں اس وقت بڑے بڑے موسیقار موجود تھے۔ ایک نوجوان موسیقار کا اپنا سکہ جما دینا ہی بہت بڑ ا کارنامہ تھا۔ پھر ناشاد بمبئی کی فلمی صنعت میں معتبر ہو گئے“ ۔

نخشبؔ صاحب بہت اثر و رسوخ والے آدمی تھے۔ انہوں نے کہہ سن کر اپنی فلم ”زندگی یا طوفان“ 1958 میں پاکستان میں بھی ریلیز کر دی۔ یہاں فلم نے ریکارڈ بزنس کیا اور نخشبؔ صاحب نے پاکستان میں فلم ”فانوس“ بنانے کا اعلان کیا۔ بمبئی کے دوست رشید عطرے کو موسیقار منتخب کیا لیکن اپنی طبیعت اور مزاج کی بنا پر عطرے صاحب نے کچھ ہی گیت بنا کر معذرت کر لی۔ باقی گیت موسیقار سیف چغتائی نے ترتیب دیے۔ ”فانوس“ کے بعد نخشبؔ صاحب کو ناشاد یاد آئے۔

نخشبؔ صاحب بڑے بڑوں کو ایک منٹ میں شیشے میں اتار لیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہی حربہ موسیقار ناشاد پر آزمایا۔ ناشاد بے چارے سیدھے سادھے شریف النفس بھلا کہاں تک انکار کرتے۔ وہ اُس وقت اپنی شہرت کی بلندی پر تھے۔ لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔ پہلے بھی نخشبؔ صاحب نے اپنے مطلب کے لئے ناشاد صاحب کو استعمال کیا تھا۔ وہ کہاں تک کامیاب رہے؟ یہ الگ بات ہے، البتہ ناشاد صاحب کی قسمت کا تارہ ضرور چمکا دیا۔

اب کی مرتبہ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ کئی لوگوں نے ناشاد صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ بھی دیا، دیکھا جائے تو وہ منطق کے لحاظ سے درست تھا لیکن ناشاد صاحب کے لئے پاکستان میں ایک زبردست کامیابی انتظار کر رہی تھی۔ ناشاد صاحب فلمساز نخشبؔ جارچوی کی نئی فلم ”میخانہ“ کے لئے پاکستان آ گئے۔ مذکورہ فلم بھی نخشبؔ صاحب کے مزاج کے بھینٹ چڑھ گئی البتہ اِس کے گیتوں نے چہار جانب دھومیں مچا دیں۔ موسیقارناشاد نے 1947 سے 1962 تک بھارت میں 30 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے تقریباً 66 فلموں میں 400 سے زائد گیتوں کی موسیقی دی۔

پاکستان میں اُن کی پہلی فلم ”میخانہ“ ( 1964 ) ’جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے، آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے‘ گیت نخشبؔ جارچوی، آواز سلیم رضا، ’میں دیوانہ مجھے نہ چھیڑو چھیڑ کے تم پچھتاؤ گے، پاگل پن سے کھیل نرالے تم پاگل ہو جاؤ گے‘ آواز مہدی حسن، ’اک اپنا اک بیگانہ سُن لو دل کا افسانہ‘ ، آواز ناہید نیازی اور ساتھی۔ فلم ”جلوہ“ ( 1966 ) ’وہ نقابِ رُخ اُلٹ کر ابھی سامنے نہ آئیں، کوئی جا کہ اُن سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں‘ گیت کلیمؔ عثمانی، آواز مجیب عالم۔ واضح ہو کہ یہ مجیب عالم کا پہلا فلمی گیت تھا۔

’ لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں، دیپ جلیں سُر کے ساگر میں جب میں گیت سناؤں‘ ، آواز مہدی حسن۔ اِس گیت کو ناشاد صاحب نے صبح کے راگ ’آہیر بھیرو‘ میں کمپوز کیا۔ اِس راگ میں التجا اور پاکیزگی کا عنصر پایا جاتا ہے جو اِس گیت میں بدرجہ اتم موجود ہے اور سننے والے کو مبہوت کر دیتا ہے۔ فلم ”ہم دونوں“ ( 1966 ) ’اُن کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا، دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا‘ گیت کلیمؔ عثمانی، آواز رونا لیلیٰ۔

یہ رونا کا پہلا فلمی گیت تھا۔ فلم ”پھر صبح ہو گی“ ( 1967 ) ’دیا رے دیارے کانٹا چبھا او مو رے کانٹا چبھا پاؤں میں، کانٹا نکال بلم پیپل کی چھاؤں میں‘ ، گیت فیاضؔ ہاشمی آواز رونا لیلیٰ اور چوہدری رفیق انور، ’پھر صبح ہو گی اندھیرے نہیں رُکنے والے، اُن اندھیروں سے اجالے ہیں ابھرنے والے‘ گیت صہباؔ اختر، آواز مسعود رانا۔ فلم ”رشتہ ہے پیار کا“ ( 7 196 ) ، ’زخمِ دل چھپا کے روئیں گے، تجھ کو آزما کے روئیں گے‘ گیت فیاضؔ ہاشمی آواز نسیم بیگم، ’معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے، نظروں سے ملیں نظریں کیا ہو گا خدا جانے‘ گیت فیاض ؔہاشمی آوازیں احمد رشدی اور رونا لیلیٰ۔

فلم ”ناہید“ ( 1968 ) ’سجنا میں نے تجھ سے پیار کیا، کہتا ہے زمانہ دل نہ لگانا، دل نے تیرا اعتبار کیا‘ آواز نورجہاں۔ سید شوکت حسین رضوی کی فلم ”عاشق“ ( 1968 ) میں موسیقار ناشاد کی دل پذیر موسیقی میں رونا لیلیٰ اور مہدی حسن کی آوازوں میں تسلیم ؔ فاضلی کا یہ گیت۔ : ’اے گُلِ نو بہار جھوم، اے دلِ بے قرار جھوم۔ ”بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کی خاص بات یہ ہے کہ ایک ہی دھن میں رونا لیلیٰ کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح خوشی کا تاثر چھلکتا ہے جب کہ اُسی دھن میں مہدی حسن کی آواز اور گیت کے بولوں میں واضح غم ہے۔ اس قسم کا کام میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ البتہ بعد میں 1980 کی دہائی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ جانا ہوا تو وہاں‘ ایسٹر ’کے تہوار پر ایک چرچ میں ایک ایسا گیت سُنا کہ جس کی دھن میں غم کے ساتھ خوشی کا تاثر تھا۔ کیوں

کہ ایسٹر آدھا خوشی آدھا غم کا تہوار ہے۔

فلم ”تم ملے پیار ملا ’‘ ( 1969 ) ’آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں، آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں‘ گیت نگارتسلیمؔ فاضلی آوازیں مہدی حسن اور نورجہاں۔ یہ ناشاد صاحب اور تسلیمؔ فاضلی کی بے مثال تخلیق ہے۔ فلم“ سزا ” ( 1969 ) ’تو نے بار بار بار کیا مجھے بیقرار، جا رے سانورے پیا تیرا دیکھ لیا پیار‘ گیت قتیلؔ شفائی اور آواز مالا، ’جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘ آواز مہدی حسن۔

کہانی نگار اورفلمساز علی سفیان آفاقیؔ کی اِس فلم کے ہیرو بھارتی اداکاراؤں تبّو اور فرح کے والد جمال المعروف جمیل تھے۔ جِن کی پاکستان میں یہ پہلی فلم تھی۔ فلم“ سالگرہ ” ( 1969 ) ’لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے، یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘ گیت شیونؔ رضوی آواز نور جہاں، ’میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ، میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ‘ آواز نورجہاں۔ فلم“ افسانہ ”

( 1970 ) ’یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اب ہوش میں آنا مشکل ہے، جب آنکھ ملانا مشکل تھا اب آنکھ بچانا مشکل ہے‘ گیت حضرت تنویرؔ نقوی آواز مجیب عالم۔ فلم ”چاند سورج“ ( 1970 ) ’نگاہ نیچے کیے سر جھکائے بیٹھے ہیں، یہی تو ہیں جو میرا دل چرائے بیٹھے ہیں‘ ۔ اس گیت کو نورجہاں اور مہدی حسن نے علیحدہ علیحدہ ریکارڈ کروایا۔ آواز مہدی حسن، ’مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے، یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے‘ غزل معین احسن جذبیؔ آواز حبیب ولی محمد۔

فلم ’‘ رِم جھِم ” ( 1971 ) ’میں نے اک آشیاں بنایا تھا اب بھی شاید وہ جل رہا ہو گا، تنکے سب خاک ہو چکے ہوں گے اک دھواں سا نکل رہا ہو گا‘ آواز نورجہاں۔ انٹر نیٹ پر یہ گیت دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا دل آویز میلوڈی ہے۔ گیت کی استھائی سے پہلے غمزدہ سولو وائلن واقعی سننے کے لائق ہے۔ فلم“ افشاں ” ( 1971 ) ’خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے، کسی کا نام لوں لب پر تمہارا نام آئے‘ ۔ تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو مہدی حسن اور نورجہاں نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔

یہ گیت پاکستان کی سرحدیں عبور کر کے ایک جہاں میں پسند کیا جاتا ہے۔ جہاں جہاں غزل اور گیت سُنا جاتا ہے وہاں وہاں ملکی، بنگلہ دیشی اور بھارتی گلوکاروں سے فرمائش کر کے سُناجاتا ہے۔ ایک دو نہیں میں نے کئی ایک مرتبہ خود ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں یہ ہوتے دیکھا ہے کہ جہاں کہیں غزل کا فنکار نظر آیا کسی نہ کسی نے فوراً اس غزل کی فرمائش کر دی۔

فلم ”اک سپیرا“ ( 1971 ) ’وعدے کر کے صنم تو نہ آئے، پیار کے خوب وعدے نبھائے‘ گیت تسلیمؔ فاضلی آواز رونا لیلیٰ۔ فلم ”خاک اور خون“ ( 1971 ) ’زندگی اپنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ۔ ‘ نورجہاں کے ساتھ رجب علی کا دوگانا ہے۔ یہ گیت سُپر ہِٹ ثابت ہوا۔ یہ اعزاز بھی موسیقار ناشاد کو جاتا ہے کہ انہوں نے مجیب عالم، رونا لیلیٰ اور رجب علی کو فلمی دنیا میں متعارف کروایا۔ مجیب عالم کی کیا بات ہے یہ صحیح معنوں میں پیدا ئشی پلے بیک سنگر تھے۔ کمال کے آدمی تھے، کبھی اِن پر بھی بات ہو گی۔

فلم ”ہل اسٹیشن“ ( 1972 ) ’میرا دل نہ جانے کب سے تیرا پیار ڈھونڈتا ہے، جو خزاں میں کھو چکی ہے وہ بہار ڈھونڈتا ہے‘ گیت تسلیمؔ فاضلی آواز ڈھاکہ فلمی صنعت کے گلوکار بشیر احمد۔ فلم ”الزام“ ( 1972 ) ’ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی، نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی‘ گیت مسرورؔ انور آواز نورجہاں، ’محبت کرنے والو ہم محبت اس کو کہتے ہیں۔ ‘ غلام فرید مقبول صابری قوال اور ہمنوا۔ فلم ”ایک رات“ ( 1972 ) کا ایک گیت زبان زدِ عام ہو گیا تھا جس کو تسلیم ؔفاضلی نے لکھا۔ اِسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا:

پھر آ کے چلے جانا
اک بار چلے آؤ
صورت تو دکھا جاؤ

اِس التجائی شاعری اور دھن پر ستار نواز، موسیقار اور ارینجر جاویدبھائی المعروف جناب جاوید اللہ دتّہ کی بجائی ہوئی المیہ ستار سُننے سے تعلق رکھتی ہے۔ 3 منٹ میں یہ گیت ختم بھی ہوجاتا ہے اور سُننے والا محسوس کرتا ہے کہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔ اس تاثر کو ستار نے قائم کیے رکھا۔

ناشاد صاحب کی اگلی فلم ”بہارو پھول برساؤ“ ( 1972 ) ’میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا، مجھے اپنے رب سے آس کہ میرا پیار ملے گا‘ گیت شیونؔ رضوی آواز مسعود رانا۔ فلم ”سہرے کے پھول ’‘ ( 1973 ) ’آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو، جس کی تصویر نگاہوں میں لئے پھرتا ہوں‘ آواز مہدی حسن۔ ’اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی، سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی‘ آواز نورجہاں۔ فلم ’‘ عظمت“ ( 1973 ) ’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، میں تو مر کر میری جان تجھے چاہوں گا‘ گیت قتیلؔ شفائی آواز مہدی حسن، ’وہ میرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں، اُس کو حق ہے وہ جسے چاہے اسے پیار کرے‘ آواز نورجہاں۔

فلم ”تم سلامت رہو“ ( 1974 ) ’محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو، تم ہی ہو بندگی میری تم ہی میری عبادت ہو‘ مسرورؔ انور کے اس گیت کو نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ ریکارڈ کروایا، ’کرتے ہیں محبت سب ہی مگر ہر دل کو صلہ کب ملتا ہے، آتی ہیں بہاریں گلشن میں ہر پھول مگر کب کھِلتا ہے‘ آواز غلام علی۔

فلم ”زینت“ ( 1975 ) ’رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے، پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے‘ ، گیت نگار تسلیمؔ فاضلی اور گلوکار مہدی حسن کی یہ کاوش امر ہے، ’دیکھو دیکھو صنم مہرباں ہو گیا، کل تک تھا جو انجانا آج میری جان ہو گیا‘ ناہید اختر کی آواز میں پنجابی لوک گیت ’بلّے بلّے نی ٹور پنجابن دی‘ کو سامنے رکھ کر موسیقی ترتیب دی گئی۔ فلم ”نیکی بدی“ ( 1975 ) ’دل میں طوفاں چھپائے بیٹھا ہوں یہ نہ سمجھو کہ مجھ کو پیار نہیں، تم جو آئے ہو میری دنیا میں اب کسی کا بھی انتظار نہیں‘ آواز مہدی حسن۔ فلم ”وقت“ ( 1976 ) ’دل توڑ کے مت جیّو برسات کا موسم ہے، منہ پھیر کے مت جیؤ برسات کا موسم ہے۔ ‘ ۔ فلم ”آشیانہ“ ( 1976 ) ’مسکراتا رہے آشیانہ، کروٹیں لاکھ بدلے زمانہ‘ گیت نگار تسلیمؔ فاضلی آواز اخلاق احمد۔ فلم

” محبت مر نہیں سکتی ’‘ ( 1977 ) ’تو میری زندگی ہے تو میری ہر خوشی ہے، تو ہی میری پہلی خواہش تو ہی آخری ہے‘ تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ صدابند کروایا۔ فلم“ ملن ” ( 1978 ) ’یہ ساتھ کبھی نہ چھوٹے گا، جو مر کر بھی نہ ٹوٹے گا‘ گیت نگار مسرورؔ انور۔ اس کو مہدی حسن اور ناہید اختر نے الگ الگ ریکارڈ کروایا۔ فلم“ آپ سے کیا پردہ ” ( 1979 ) ’تا تاتا تھیا، ناچے گا تیرا بھیا۔

‘ مختلف انداز میں مہدی حسن سے یہ گیت ریکارڈ کروایا گیا۔ فلم“ ضمیر ” ( 1980 ) ’سُن ری پَوَن اے ری سُن گھَٹا، کیا دن یہ سہانے آئے رے‘ ، تسلیمؔ فاضلی کے اس گیت کو ناہید اختر اور ناشاد صاحب کے بیٹے عمران علی ناشاد نے دوگانے کے انداز میں ریکارڈ کروایا۔ موسیقار ناشاد کی آخری فلم“ بدنام ” ( 1980 ) ہے۔ اس کے ہدایتکار اقبال یوسف تھے۔ افسوس ہے کہ اِس کی تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔

میری کبھی ناشاد صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ستار نواز، موسیقار اور ارینجر جاوید اللہ دتہ، بانسری کے اُستاد سلامت بھائی المعروف سلامت حسین صاحب اور علی سفیان آ فاقیؔ صاحبان سے مجھے ناشاد صاحب پر کافی معلومات ملیں۔ البتہ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں ناشاد صاحب کے صاحبزادے شاہد علی ناشاد سے بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ اِن سے ایک طویل عرصے میرا رابطہ بھی رہا۔ میرے پروگراموں میں موسیقار کریم شہاب الدین اکثر اِن کا نام لے کر اپنی ریکارڈنگ میں بلوایا کرتے تھے۔ شاہد علی بیس گِٹار بجا تا تھا۔ اپنے والد کی طرح دراز قدتھا اور دہلی کا ٹکسالی محاورہ بولا کرتا۔ کبھی موڈ میں ہوتا تو گیتوں کی دھنیں بھی بنایا کرتا۔ ناشاد صاحب کے ایک دوسرے صاحبزادے عمران سے بعد میں میری شناسائی ہوئی۔ کسی ہوٹل میں ایک تقریب میں اِن کی آواز میں روبن گھوش کی موسیقی میں فلم

” آئینہ“ کا سرورؔ بارہ بنکوی کا گیت ’کبھی میں سوچتا ہوں کچھ نہ کچھ کہوں، پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں‘ سُنا۔ یقین مانیے میں خود حیران رہ گیا۔ سُروں پر کیا اچھی گرفت تھی۔ میری دلی خواہش تھی کہ اتنی اچھی آواز کو اپنے ٹی وی پروگراموں میں استعمال کروں لیکن۔ ناشاد صاحب نے عمران سے اپنی موسیقی میں کچھ فلمی گیت ریکارڈ کروائے تھے لیکن نہ جانے کیوں یہ گلوکار نہ بن سکا۔ البتہ ناشاد صاحب کے بیٹے امیر علی ناشاد ( جن کی بات چیت میں لکھ رہا ہوں ) نے فلم ”چوڑیاں“ ( 1998 ) میں ایک گیت گایا : ’کراں میں نظارہ جدوں او دی تصویر دا۔ ‘ جو بہت زیادہ مقبول ہوا۔

ناشاد صاحب کے دھن بنانے کے بارے میں آفاقیؔ صاحب نے مجھے بتایا:

” وہ ہارمونیم لے کر بیٹھ جاتے۔ کوئی سُر چھیڑتے اور گنگنانے لگتے دیکھتے ہی دیکھتے مکھڑا تیار ہو جاتا۔ ہم نے انہیں دس منٹ میں بھی طرز بناتے ہوئے دیکھا جو سُپر ہِٹ ہوئی۔ کبھی کبھی وہ خود بھی مکھڑے کا شعر کہہ لیتے۔ ہم نے ان جیسا کوئی اور دیکھا نا سنا جسے یہ کمال حاصل تھا“ ۔ آفاقی صاحب کے بقول: ”ناشاد صاحب بہت سریلے تھے۔ ان کی آواز میں سوز اور مٹھاس تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جو طرز وہ گا کر سناتے بڑے سے بڑے گلوکار ویسا نہیں سنا سکتا تھا“ ۔

آپ بھی بھارتی فلم ”بارہ دری ’‘ ( 1955 ) میں اِن کی آواز میں خمارؔ بارہ بنکوی کا یہ گیت ’چلی وہ نصیب کی آندھیاں کہ محل وفا کے اجڑ گئے، گھڑی بھر کو جو نہ ہوئے جدا وہ سداکو آج بچھڑ گئے ’سنیں تو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا۔

آفاقی صاحب نے ایک دلچسپ بات بتلائی:

” میری فلم“ سزا ” ( مصنف اور فلمساز علی سفیان آفاقیؔ، ہدایتکار ہمایوں مرزا) ( 1969 ) کے لئے قتیلؔ شفائی کا گیت ’ جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ۔ ‘ ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ مہدی حسن ناشاد صاحب کی بنائی ہوئی جگہیں صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تھے۔ وہ ریکارڈنگ پینل سے ا ٹھ کر مہدی حسن کے پاس آئے اور کہا :

” کچھ کام کی طرف بھی دھیان دیا کرو اور وہ جگہیں خود گا کر بتلائیں اور کہا میاں کچھ پروڈیوسر کا بھی خیال کر لیا کرو اس کا مال پانی ہو رہا ہے“ ۔

ایک دفعہ ناشاد صاحب سے متعلق کہنے لگے :

” یہ بالکل بھی وہمی نہیں تھے۔ اگر پہلے ہی ٹیک سے مطمئن ہوتے تو فوراً او کے کہہ دیتے ورنہ کئی موسیقار تو کسی طرح مطمئن ہی نہ ہوتے تھے“ ۔

موسیقار ناشاد صاحب کو دو مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے : پہلا فلمساز اور ہدایتکار نخشب ؔجارچوی کی فلم ”میخانہ“ ( 1964 ) میں سال کے بہترین موسیقار کا۔ اور دوسرا فلمساز قمر زیدی اور بیگم نجمہ حسن اور ہدایتکار قمر زیدی کی گولڈن جوبلی فلم ”سالگرہ“

( 1969 ) میں بہترین موسیقار کا۔ اِن کی موسیقی میں اسی سال بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ نورجہاں کو ’لے آئی پھر کہاں سے۔ ‘ پر ملا۔

میرے خیال سے ناشاد صاحب کے تمام گیتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ راگوں پر مبنی بہت آسان اور سادا دھنیں ہیں جنہیں گانا دشوار نہیں۔ ان کی طرزوں میں میلوڈی کی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔ موسیقار ناشاد نے 1940 اور 1950 کی دہائی میں بھارتی فلمی دنیا کی موسیقی میں اپنانام پیدا کیا۔ انہوں نے پاکستان آنے سے پہلے شوکت حیدری، شوکت ہاشمی اور شوکت دہلوی کے نام سے بھی موسیقی ترتیب دی۔ پھریہ 1964 میں پاکستان منتقل ہو گئے۔

ایک سوال کے جواب میں امیر علی نے بتایا: ”والد صاحب گھر ہی میں گلوکاروں کو ریہرسلیں کرواتے۔ یہ ریہرسل کے معاملے میں گرم طبیعت واقع ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ ابا نے فلم ’زینت‘ میں تسلیمؔ فاضلی صاحب کا گیت ’رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا سامان ہو گئے۔ ‘ بنا یا۔ چونکہ یہ گیت الف تا ے میرے سامنے بنا تھا لہٰذا میں نے بھی یاد کر لیا۔ جب مہدی حسن ریہرسل کو آئے تو والد صاحب سو رہے تھے۔ وہ اور بہت سے فلمی لوگ ابّا کو چچا کہتے تھے۔ وہ مجھ سے کہنے لگے :“ چچا نے کیا دھن بنائی ہے؟ ”۔ میں نے سُنائی تو وہ باجے پر ریہرسل کرنے لگے۔ کچھ باجے کی آواز کچھ مہدی حسن صاحب کی آواز۔ والد صاحب جاگ گئے اور کمرے میں آ کر مہدی حسن سے کہنے لگے :“ اِس بچے سے سُن سُن کر گا رہے ہو وہ بھی غلط! ”۔

ڈائمنڈ جوبلی فلم ”چوڑیاں“ ( 1998 ) کے مشہورِ عالم گیت ’کراں میں نظارہ جدوں اودی تصویر دا۔ ‘ کے پس منظر کے بارے میں انہوں نے کہا: ”میرے اِس گیت کی صدابندی بھٹی اسٹوڈیو میں ہونا تھی۔ میں وقتِ مقررہ پر جب پہنچا تووہاں سید نور صاحب، صائمہ جی اور خرم ادریس بھٹی موجود تھے۔ صائمہ جی کو نورصاحب نے سامنے بٹھا دیا اور کہا کہ اِن کو دیکھ کر گاؤ۔ گیت کے موسیقار ذوالفقار علی تھے۔ مزے دار بات یہ ہے کہ یہ گیت ایک ہی ٹیک میں او کے ہو گیا ’‘ ۔ اِس گیت پر امیر علی کو 1998 کی پنجابی فلموں کے بہترین مردانہ پلے بیک سنگر کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔

ایک سوال کے جواب میں امیر علی نے بتایا : ”ہدایتکارہ شمیم آراء کی گولڈن جوبلی فلم“ ہاتھی میرے ساتھی ” ( 1993 ) میری پہلی فلم ہے۔ فلم کا ٹائٹل سانگ میں نے گایا تھا۔ اس فلم میں حمیرہ چنا کے ساتھ میں نے 4 گانے گائے تھے۔ اِس کے علاوہ سید نور صاحب کی فلم“ عقابوں کا نشیمن ” ( 1997 ) میں میرے بڑے بھائی واجد علی ناشاد کی موسیقی میں میرا ایک گیت مقبول ہوا :

” تیرے سر کی قسم، تو ملا جو صنم۔“ خاصا مقبول ہوا ”۔

پاکستان ٹیلی وژن پر گلوکار ی کے بارے میں انہوں نے بتایا : ”میں نے پی ٹی وی سے ڈرامہ“ پائل ” ( 2013۔ 14 ) میں تھیم سانگ کمپوز کیا اور شبنم مجید کے ساتھ اپنی آواز میں ریکاڑد کروایا“ ۔

امیر علی نے 350 اردو اور پنجابی گیت ریکارڈ کروائے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے بھائی واجد علی ناشاد کی زندگی میں کافی ٹی وی ڈراموں کے ٹائٹل سانگ ریکارڈ کیے۔ ٹی وی وَن سے نشر ہونے والا ڈرامہ ”وفا لازم تو نہیں“ میں ان کا گایا ہوا تھیم سانگ تھا۔ اس کے مو سیقار طاہر علی بگا تھے۔ امیر علی آج کل کمپوزیشن پر پوری توجہ دے ر ہے ہیں۔ اِن کا کہنا ہے : ”میرے تجربہ کے مطابق گلوکار کے مقابلے میں موسیقار کی عوام میں مقبولیت دیر پا ہے اور میڈیا میں موجودگی زیادہ دیر تک رہتی ہے“ ۔

کرکٹ کے حوالے سے امیر علی نے انکشاف کیا: ”میرے ایک بھائی احمد علی ناشاد کا 1982 / 84 میں پاکستان کی بی ٹیم میں چُناؤ ہوا۔ اِن کے بارے میں مشہور ہے کہ قذافی اسٹیڈیم مین جہاں قومی ٹیم پریکٹس کرتی ہے وہاں آسٹریلیا کی ٹیم سے ایک دوستانہ میچ کے دوران اُ نہوں نے ڈینس لِلی کی بال پر جو چھکا مارا تو گیند ہاکی اسٹیڈیم میں جا گری۔ میرے بھائی ریڈیو پاکستان لاہور کی ٹیم میں شامِل تھے۔ حسن جلیل بھی ریڈیو کی طرف سے کھیلتے تھے۔ اب ماشاء اللہ میرا بیٹا درود عباس ویلنشیا کلب کی طرف سے کھیل رہا ہے۔ یہ آل راؤنڈر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مکمل گٹارسٹ اور کمپوزر ہے۔ درود عباس 12 سال کی عمر سے گٹار بجا رہا ہے“ ۔

ناشاد صاحب کا لتا منگیشکر کو فلموں میں متعارف کرانا:

” برِ صغیر میں فلمی موسیقی کے جدِ امجدوں میں ایک بڑا نام ماسٹر غلام حیدر کا ہے۔ میرے والد صاحب اُن کے معاون تھے۔ لتا منگیشکر کو میرے والد صاحب نے سُنا اور ماسٹر جی (ماسٹر غلام حیدر) کو بتایا کہ ایک سریلی لڑکی ہے۔ ماسٹر جی نے لتا کو سُن کر کہا سریلی تو ہے لیکن چھوٹی آواز ہے۔ میرے والد صاحب نے ماسٹر جی سے کہا کہ میرے کہنے پر اسے گوائیں۔ تب ایک بھجن ٹائپ گیت تیار کیا گیا۔ یوں وہ پلے بیک سنگر کی صف میں شامل ہو گئیں“ ۔

” جب میرے والد صاحب پاکستان آنے لگے تب سب سے زیادہ انہیں روکنے والی یہ لتا منگیشکر ہی تھیں ’‘ ۔ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا:“ میرے بڑے بھائی ارشاد علی المعروف ’جِمی‘ شکاگو میں رہتے ہیں۔ وہ جب 2001 میں نیو یارک میں تھے تو لتا منگیشکر کا وہاں ایک کنسرٹ ہوا۔ میرے بھائی بھی دیکھنے گئے۔ وقفے کے دوران یہ بمبئی سے آئے ہوئے میوزیشنوں سے ملنے بیک اسٹیج پر گئے۔ کسی طرح لتا جی کو علم ہوا کہ ماسٹرجی ( میرے ابا کو وہ ماسٹر جی کہتی تھیں ) کا بیٹا آیا ہوا ہے تو اپنے معتمد کو بھیج کر میرے بھائی کو اپنے پاس بلوایا اور بہت خوش ہوئیں کہ ماسٹر جی کے گھرانے کے کسی فرد سے ملاقات ہو رہی ہے۔ بہت افسوس کرنے لگیں کہ ماسٹر جی پاکستان کیوں چلے گئے۔ میری اماں جی کے بارے میں بھی پوچھا ”۔

اُستاد سلامت حسین اور موسیقار ناشاد:
بانسری کے اُستاد محترم سلامت حسین سے موسیقار ناشاد صاحب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا:
” اُن کی فلم ’میخانہ‘ ( 1964 ) میں سلیم رضا کی آواز میں نخشب ؔصاحب کے لکھے گیت:
جان کہہ کر جو بلایا تو بُرا مان گئے
آ ئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے
میں، میں نے بانسری بجا ئی ”۔ ناشاد صاحب کے ذکر پر انہوں نے دلچسپ بات بتائی:
” جب فلم ’جلے نہ کیوں پروانہ‘ ( 1970 ) میں اداکار ندیم کی آواز میں یہ گیت ریکارڈ ہو ا:
محبتوں کے قدرداں نہ شہر میں نہ گاؤں میں
حقیقتوں کے پاسباں نہ شہر میں نہ گاؤں میں

تو ریکارڈنگ کے بعد ناشاد صاحب نے خوش ہو کر مجھے 100 / روپے انعام دیا۔ ساتھ ہی تمام میوزشنوں کو بُلا کر کہا کہ غلط تو نہیں دے رہا ہوں۔ اِس گیت میں میری بانسری کے بہت سارے پیس تھے ”۔

میں نے یہ گیت انٹر نیٹ پر بغور سُنا۔ واقعی ناشاد صاحب نے یہ انعام بالکل صحیح دیا۔ گیت کا آغاز راگ ایمن کے ماحول میں بانسری سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وائلن وغیرہ کا پیس۔ پھر استھائی کے بولوں سے بالکل پہلے پُر اثر بانسری کا ایک التجائی پیس آتا ہے۔ استھائی اور انتروں میں بہت سی جگہوں میں بانسری کے استعمال سے ’عرصے‘ کو پورا کیا گیا ہے۔ دوسرے انترے کے انٹرول میوزک میں بانسری کو ناشاد صاحب نے خالص اپنے انگ میں استعمال کرایا ہے۔

لکشمی کانت پیارے لال اور فلم زندگی یا طوفان:
امیر علی ناشاد نے اپنے والد کے ساتھ بمبئی کے دورے کے بارے میں بتایا:

” میں 1978 میں ابا کے ساتھ انڈیا گیا۔ بمبئی میں ’فیمَس اسٹوڈیو‘ میں ابا کسی سے ملنے گئے۔ اتفاق سے اسی اسٹوڈیو میں اندر کہیں لکشمی کانت پیارے لال کوئی گیت ریکارڈ کروا رہے تھے۔ جوں ہی انہیں خبر ملی کہ ابا آئے ہیں وہ دونوں اپنا کام وام چھوڑ احتراماً ننگے پیر ابا سے ملنے اور پاؤں چھونے آئے۔ مجھے ابا بتایا کرتے تھے کہ انڈیا میں فلم“ زندگی یا طوفان ” ( 1958 ) کے گیت

’ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے، ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے‘ کے انتروں سے پہلے انٹرول میوزک میں، میں نے لکشمی کانت سے منڈولین بجوایا تھا۔ ابا یہ بھی بتایا کرتے کہ پیارے لال بہت اچھے وائلنسٹ تھے۔ یہ فلم ”بارہ دری“ ( 1955 ) میں ابا کے اسسٹنٹ تھے ”۔ مذکورہ فلم سے متعلق امیر علی ناشاد نے ایک دلچسپ بات بتائی:“ فلم ”بارہ دری“ کی پس منظر موسیقی ایک جرمن کمپوزر نے مرتب کی ”۔

امیر علی نے ایک سوال کے جواب میں کہا : ”عوام 30 سال پہلے دیسی انڈے اور گھی کھاتے تھے۔ اب برائلر کا زمانہ ہے۔ بالکل اسی طرح اب پہلے والے کام کے قدردان نہیں رہے۔ پھر صحیح کام کرنے والوں کی متعلقہ شعبے میں پہنچ بھی نہیں۔ میڈیا والے ایسے لوگوں کو لاتے ہیں نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے“ ۔ واقعی خوبصورتی تو اِس میں ہے کہ نئے لوگوں کے ساتھ پرانے کام کرنے والے بھی نظر آئیں۔

موسیقار ناشاد 14 جنوری 1981 کو 57 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے 60 سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ افسوس کہ نئی نسل میں راگوں پر مبنی آسان دھنیں بنانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ ان کی طرزوں میں کوئی میلوڈی نہیں ہوتی، صرف سازوں کا شور ہوتا ہے۔ اب ناشاد صاحب جیسا پیدا ہونا مشکل ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments