امریکی دباؤ پر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی تنازع حل ہونے کے قریب


عبداللہ عبداللہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ افغانستان کے سیاسی تنازع کے حل کے لیے اصل اتفاق رائے پر پہنچ چکے ہیں اور جزئیات پر کام جاری ہے۔ جلد ہی ایک متفقہ اتحادی حکومت میں سب یکجا ہوں گے۔

افغان حکومت نے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا مگر افغان صدر کے نائب سیکرٹری سرور دانش نے کل اقوام متحدہ کے نمائندہ خاص برائے افغانستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان اختلافات بہت جلد حل ہوجائیں۔ آئندہ چند دنوں میں دونوں ایک متفقہ معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ اور عبداللہ عبداللہ ہائی پیس کونسل کے سربراہ ہوجائیں گے۔

اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اتحاد افغان سیاست میں بہت بڑی تبدیلی اور ایک کی بجائے دو بڑے بحرانوں کے خاتمے کی خبر ہے۔ پہلا بحران خود افغانستان میں موجود دو متوازی سربراہان مملکت کی حکومت ہے۔ جو اب ایک متفق اور ہمہ شمول حکومت ہوگی۔ جبکہ دوسرا بحران طالبان کے ساتھ بین الافغانی مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں جو اس متفقہ حکومت کی تشکیل کے بعد آسان ہوں گے۔

نو مارچ 2020 کو افغان صدارتی تقریب حلف برداری کے دن دو ایسی تقاریب کا انعقاد ہوا تھا جس میں افغان صدر کی حیثیت سے اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ نے الگ الگ بالترتیب ارگ (صدارتی محل) اور سپیدار محل میں حلف اٹھایا۔

اس تنازع کا پس منظر یہ ہے کہ 28 ستمبر 2019 کو افغان صدارتی الیکشن کے بعد نتائج کے اعلان کے بعد اپوزیشن نے تین بڑے الزامات کی بنیاد پر اس الیکشن کو کالعدم قرار دے کر ایک قومی حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔

پہلا: نتائج میں تاخیر اور غیر معقولی حد تک رد وبدل
دوسرا: ووٹوں کی انتہائی کم تعداد میں کاسٹنگ
تیسرا: الیکشن سے قبل اشرف غنی کا سرکاری وسائل، تقریبات اور فنڈ کو اپنے الیکشن مہم میں استعمال کرنا

گزشتہ دوماہ سے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو، زلمے خلیل زاد، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور افغان سیاسی رہنماؤں کی جانب سے دونوں فریق پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ مصالحت سے کام لیں اور ایک متفقہ حکومت کی تشکیل کی راہ ہموار کریں۔

12 مارچ کو زلمے خلیل زاد کی میڈیا سے ہونے والی گفتگو میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ صدارتی حلف سے پہلے بھی انہوں نے یکجہتی کے لیے کوشش کی اور اب بھی کررہے ہیں۔

25 مارچ کو پومپیو نے افغانستان کا اچانک دورہ کیا اور اشرف غنی اور عبداللہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی۔ یہ ملاقات بظاہر بے نتیجہ رہی کیوں کہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مائک پومپیو ثالثی کرنے نہیں بلکہ ہدایت دینے آئے تھے کہ متوازی راستہ چھوڑ کر اشرف غنی کے ساتھ حکومت میں شامل ہوجائیں۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ پومپیو ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام پہنچانے آئے تھے کہ کابل سے مذاکرات کے لیے طالبان کے پاس ایک ہی وفد جانا چاہیے۔

5 اپریل کو امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے افغانستان کو دی جانی والی عالمی امداد کو قومی حکومت کے قیام سے مشروط کردیا۔

6 اپریل امریکی میڈیا نے بتایا کہ قومی حکومت کے قائم نہ ہوئی تو افغانستان کی امداد میں سے 1 ارب ڈالر کی کمی کی جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس افغان سیاسی تنازع کے خاتمے میں براہ راست دلچسپی لیتے رہے اسی لیے انہوں نے اپنے معاونین پر دباؤ بڑھایا کہ وہ افغان سیاسی تنازع کو ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کریں۔ امریکی ٹی وی این بی سی کے مطابق ٹرمپ افغان امن کا وعدہ مکمل کرکے امن کا نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے تھے۔

7 اپریل کو مائک پومپیو نے افغان رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد از جلد اپنے آپسی اختلافات مٹا کر مل کر کام کریں ورنہ امریکہ اپنی فوجیں نکال لے گا۔

28 اپریل کو امریکی ٹی وی این بی سی نے امریکی حکام کے حوالے سے رپورٹ جاری کی کہ کرونا وائرس کے باعث امریکی صدر طالبان کے ساتھ معاہدے میں طے پانے والے 14 ماہ کی مدت سے پہلے ہی اپنی فوج افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔

آج ڈاکٹر عبداللہ کے فیس بک سٹیٹس اور سرور دانش کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قومی حکومت کی تشکیل کی جانب تیزی سے سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے مزید جزئیات بتانے سے احتراز کیا ہے مگر میڈیا نے بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتحاد کے لیے فارمولا طے پا گیا ہے۔ جس کے مطابق ہائی پیس کونسل جو طالبان سے مذاکرات کرے گا۔ جس میں سرکاری و غیر سرکاری افغان نمائندے شامل ہوں گے۔ اس کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کریں گے۔ انہیں نائب صدر کا پروٹوکول بھی دیا جائے گا۔ سیاسی، عسکری اور انتظامی عہدوں پر تقرری میں اشرف غنی ان کی مشاورت لیں گے۔ بعض ذرائع کے مطابق ان تقرریوں میں ڈاکٹر عبداللہ کو 50 فیصد حصہ دیا جائے گا۔ یاد رہے یہ پیش کش صدارتی حلف سے پہلے ہی اشرف غنی عبداللہ عبداللہ کو کرچکے تھے مگر تب انہوں نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔

افغان مبصرین کے مطابق درحقیقت یہ گزشتہ حکومت کی طرح ایک حکومت ہوگی جس کی ہیئت بظاہر تھوڑی سی الگ نظر آتی ہے۔ اس میں عملاً دو سربراہان مملکت ہوں گے۔ اختیارات اور عہدوں پر ماضی کی طرح جنگ رہے گی جس سے امن اور ترقی کی راہ میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ البتہ اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوگا کیوں کہ اس کی تشکیل کے بعد طالبان سے بین الافغانی مذاکرات ہوں گے اور ایک نئے نظام اور نئی حکومت کی تشکیل ہوگی جس میں طالبان بھی شامل ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments