ایک حسینہ اور ایک کمینہ


ہچکی لگی ہوئی تھی، دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اک بولا کوئی یاد کرتا ہونا۔ مراد اس کی یہی تھی کہ خدانخواستہ کوئی حسین نہ ہو کوئی تازہ خان ہی ہو۔ بات پرانی ہے۔ اپنا سیل فون دیکھا تو میسج آیا ہوا تھا “کمینے”، پڑھا ان کو بھی دلاسا دیا کہ وہ منحوس ٹھیک سمجھے تھے۔ پر کہانی پرانی یاد آ گئی۔ جب تمھیں ہچکی لگے، کوئی پیاری سی گالی دے برا بھلا بولے تو مجھے یاد کرنا۔

تو اسے ہی یاد کرنے لگا۔ پاگل پن کے دور سے گزر رہا تھا۔ اک بریک اپ کے بعد۔ آن لائین بیٹھے رہنا، سائٹ پر نیوز لگانی جو وقفوں سے آتی تھیں۔ زیادہ دیر چیٹ رومز میں گپ مارنی۔ کسی سے گپ لگ جانی تو اک رات کی گپ لگا کہ سویرے بلاک کر کے نئے سرے سے یہی کوشش شروع کر دینی۔

تب اپن باقاعدہ مشرقی سگھڑ شرمیلی دلہن کی طرح حرکتیں بھی کرتا تھا۔ فوٹو نہیں لگاتا تھا نہ دکھاتا تھا۔

بیزار سا بیٹھا تھا جب اس سے بات ہوئی۔ اسی نے چھیڑا تھا کہ آج کیوں سوجے بیٹھے ہو، چیٹ روم میں بک بک دیکھی ہو گی شاید ۔
تم ماسی لگتی ہو؟
اس کا جواب تھا کہ نہیں میں تو بہت حسین لگتی ہوں۔
جتنی بھی حسین ہو بھاڑ میں جاؤ۔

اس نے کہا وہیں سے لائیو ہوں۔ پر یہ ٹھنڈا تندور ہے۔ کینیڈا بیٹھی ہوں۔ گھر والوں نے بیاہ کے یہاں ٹور دیا ہے۔ آج میری آف ہے، گھر والوں سے بات کرنے کو بیٹھی ہوں ان کا نیٹ نہیں چل رہا پتی کام پر گیا ہوا۔

گھر والوں نے جان چھڑا لی ہے، پتی تمھاری حسین صورت دیکھ کر بھاگا ہوا، اور تم میرے دوالے ہو رہی، اپنا کام کرو۔
اس کے بعد اس نے کہا او۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹوں ٹوں کی۔ میں نے اک چپیڑ لگائی نہ تو وہ جا کر گرو گے ڈنگر جیا۔

ڈنگر سن کے کھیت، پنڈ، پہاڑ، بھا اور گاں سب یاد آ گئے، وہ بزرگ بھی جو ہم بچوں کو ڈنگر ہی کہا کرتے تھے۔

اسے کہا چل چلیں۔
اس نے کہا چل پر کدھر۔
تو اسے بتایا کہ کھیت، پہاڑ، درخت، دریا، ریت جدھر جو پہلے آ گیا۔ وہاں چل کے ناچتے۔
اس نے پوچھا ناچنا آتا؟
تو اسے بتایا کہ نہیں۔
دریا پر جانا ہے تو تیرنا آتا؟
کہا نہیں۔
درخت پر چڑھ سکتے ہو؟
اسے بولا ہاں پر اترتا اکثر سیدھا ہی ہوں گر کر۔

اس نے کہا شرم کر لے میرا ویاہ ہوا وا۔ تو اسے کہا اپنا بھی بریک اپ ہوا وا۔ تم نے جتنا دل کرتا شرمانا ہے شرما، بھاگ جا بات ہی کیوں کر رہی۔ اور جتنی بھی بات کرو اپن نے آج کے بعد تم سے بات تو کرنی نہیں۔

ہیں کیوں؟

اب دل اپن خود توڑتا ہے۔ کسی سے نہیں تڑواتا۔
ہائے ہائے ظالما، پتہ نہیں مذاق اڑا رہی تھی ہنس رہی تھی یا واقعی ہائے ہائے کر رہی تھی۔ اس نے کہا بوتھی دکھا۔

پھر کیم آن کیا۔ اسے دیکھ کر تو پتہ نہیں کیا لگا۔ اپن کا دل دھک سے رہ گیا۔
بیٹھی برگر کھا چکی تھی کافی کھینچ رہی تھی۔ اب اس نے پوچھا کہ سنا کیسی لگی۔ اب بھاگے گا سویرے۔
تھوڑا ٹھہر کر جواب دیا پکا بھاگوں گا۔
اس نے پوچھا اکیلے مجھے ساتھ نہیں لے جانا؟
کہا نہیں لے جانا اکیلے ہی بھاگنا۔

پھر رات ہم گپ مارتے رہے۔ وہ سب وے میں کام کرتی تھی۔ تب پشاور میں اک سب وے کھلا تھا۔ اس نے کہا وہاں جا کر کھانا برگر، بل میرے نام کا بنانا، یہ پیسے ادھار رہے۔ دن گیارہ بجے سے بک بک شروع کی، رات ہوئی۔ سویر تک باتاں کرتے رہے دنیا جہان کی اپنی اس کی اور پتہ نہیں کس کس کی۔ ابے تو کیوں دوبارہ بات نہیں کرے گا۔ دل توڑے گا؟ آج نہ ٹوٹا تو پھر دوبارہ ٹرائی کر لینا نہ اگلی بار، پھر ملیں گے، ایسے اک دن میں ہی بھاگے گا تو دل تھوڑی ٹوٹے گا۔

ہم ہنستے اک دوسرے کا مذاق اڑاتے رہے۔

پر سویر ہوئی تو اپن اس کہانی سے بھی نکل گیا۔ دفتر بند کر کے پیدل گھر چلا گیا۔ گیارہ کلومیٹر چلتا گیا خود کو سمجھاتا رہا کہ دیکھ، لیکن دل میں نے توڑنا ہے۔

کئی رات، کئی دن کئی ہفتے اس کی میل آتی رہی، کمینے، کتے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹوں ٹوں کرتی رہی۔ پھر میل آئی اب میں تجھے میل نہیں کروں گی، جب بھی تجھے ہچکی آئے کوئی گالی دے، کوئی مندا بولے تو مجھے یاد کرنا، بہت ہی برے ہو تم۔

کچھ ہفتے بعد اک آفریدی دوست دفتر آیا، سب وے پہ مینیجر لگا تھا۔ اس نے کہا کمینو شرم کرو یہ چلتا ہی نہیں ہے۔ ادھر آ کر کچھ رش تو لگاؤ، کچھ کھاؤ کیوں بند کرانا ہے۔

کچھ دن بعد سب وے گیا، کافی لمبا چوڑا آرڈر کیا، جب بل مانگا تو ویٹر نے کہا سر یہ بند ہو رہا ہے آج فری ہے کوئی بل نہیں۔
کئی مہینے بعد اسے خود میل کی، یار کھانا بھی کھا لیا کوئی ادھار باقی ہی نہی رہا تیرا میرا۔
اس کا جواب آیا
کمینے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments