وبا کی نفسیات کے بارے میں ایک مکالمہ



ڈیر ڈاکٹر رضوان علی اور محترمہ نصرت زہرا صاحبہ!

میں سب سے پہلے آپ کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وبا کے دنوں میں یو ٹیوب پر ادیبوں ’شاعروں‘ دانشوروں اور ڈاکٹروں کے ساتھ مکالمے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ میں آپ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے بھی اپنے مہمانوں کی فہرست میں شامل کیا۔ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔

آپ نے مجھ سے پہلا سوال یہ پوچھا ہے کہ کرونا وبا کے دنوں میں میرا ذاتی اور پیشہ ورانہ ردِ عمل کیا ہے؟

میرا ایک شعر ہے
عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں
میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں

درویش اپنی کٹیا میں اکیلا رہتا ہے وہ کرونا وبا سے پہلے بھی آرام اور آشتی سے تھا اور اب بھی شانتی اور سکون سے ہے۔

جب میرے کینیڈین مریض مجھ سے میرا حال پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں
I live on my peaceful green island in the troubled red sea
میری کوشش ہوتی ہے کہ کنول بن کر رہوں جو دلدل میں رہ کر بھی دلدل سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔

مجھے مارچ 2020 میں اپنی دو کتابوں کی بک لونچ کے لیے لاہور اور اسلام آباد جانا تھا۔ کرونا کی وبا کی وجہ سے میں نے سوچا کہ میں پاکستان نہ جاؤں بلکہ کینیڈا میں رہ کر ہی اپنے مریضوں کی خدمت کرتا رہوں۔ میرے چند مریضوں کو تو ڈراؤنے خواب آنے لگے تھے کہ میں پاکستان گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔

میری پیشہ ورانہ زندگی میں یہ فرق آیا ہے کہ اب میں پچاس فیصد مریضوں کی تھراپی فون پر اور پچاس فیصد کی تھراپی ٹیلی میڈیسن سے انٹرنیٹ پرکرتا ہوں۔ میں نے اور میرے مریضوں نے جدید ٹکنالوجی کو گلے لگا لیا ہے۔

میرے مریضوں کی اینزائٹی اور ڈیپریشن اور بعض خاندانوں میں شدت پسندی غصہ اور جارحانہ ردِعمل بڑھ گئے ہیں کیونکہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ اتنا زیادہ وقت گزارنے کی عادت نہیں۔ بعض بیویوں اور بیٹیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کرونا وبا کے ختم ہوتے ہی علیحدہ رہنا شروع کر دیں گی۔ ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ہے۔

آپ نے دوسرا سوال یہ پوچھا ہے کہ میرا کرونا وبا کے عالمی ردِ عمل کے بارے میں کیا ردِ عمل ہے؟

میں نہ تو کوئی سیاسی لیڈر ہوں نہ ہی مذہبی رہنما لیکن مجھے ان لیڈروں کے بیانات سن کر بہت دکھ ہوا جنہوں نے کہا ہے کہ یہ وبا خدا کی طرف سے گناہوں کی سزا ہے کیونکہ لوگ بدکار ہو گئے ہیں۔ یہ عوام کو مزید بددل کرنے والی بات ہے۔ کرونا وبا کا تعلق ایک وائرس اور صحت کے اصولوں سے ہے نہ کہ کسی کے بدکار ہونے سے۔ بعض لیڈر اکیسویں صدی میں بھی دورِ جہالیت میں رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں جدید سائنس طب اور نفسیات سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور انہیں برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو سائنس کا احسان فراموش سمجھتا ہوں۔

میں پاکستان کے وزیرِ اعظم اور امریکہ کے صدر سے جتنا مایوس ہوا کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹرودو سے اتنا ہی خوش ہوا۔ کینیڈا کی حکومت نے سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کو پانچ سو ڈالر فی ہفتہ دے کر ان ک مالی مشکلات میں مدد کی جس سے عوام کو قدرے تسلی ہوئی۔

آپ کا تیسرا سوال یہ ہے کہ کرونا وبا کے بعد دنیا کا نقشہ کیسے بدلے گا؟

میرا خیال ہے ہے دنیا کی تمام ذمہ دار مملکتیں اپنی خود احتسابی کریں گی اور اپنے سائنسدانوں کی تحقیق سے وائرس کی ویکسین بنائیں گی۔ امید ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہوگا کہ سب شہریوں کو مفت علاج کا حق ہے۔ کرونا وائرس نے معاشرے کے سب حصوں کو متاثر کیا ہے۔ چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔ عورتیں ہوں یا مرد۔ کالے ہوں یا گورے۔ بچے ہوں یا بزرگ۔ جو لوگ میری طرح سوشلسٹ ہیں وہ تو ویسے ہی universal health careکے حق میں ہیں۔

مجھے امید ہے کہ اب کیپیٹلزم کے حق میں مرد اور عورتیں بھی اپنے موقف پر نظرِ ثانی کریں گے۔ انہیں چاہیے کہ وہ غریبوں کو علاج کی سہولتیں مہیا کریں اگر ہمدردی کی وجہ سے نہیں تو خود غرضانہ وجہ سے ہی۔ اگر غریب بیمار ہوں گے تو ان کے ساتھ امیر بھی بیمار ہوں گے کیونکہ سب انسان ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں اور ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ انسانیت کی کشتی ڈوبے گی تو ہم سب اس میں ڈوبیں گے۔ کرونا کی وبا سے متاثر ہونے والوں میں سب برابر ہیں ۔ کینیڈا میں کرونا وبا کے بعد نرسنگ ہوم اور سینیر سٹیزنز ہوم بھی اپنے نظام پر نظرِ ثانی کریں گے کیونکہ کرونا وائرس سے مرنے والے پچاس فیصد انسان ان نرسنگ ہومز کے سینیر سیٹیزن تھے۔ ان سینیر سٹیزنز کے گھروں کے بارے میں میرا ایک شعر ہے

کیا تم نے کبھی اپنا مقدر نہیں دیکھا
ہر گھر میں جو بستا ہے یہاں ڈر نہیں دیکھا
آپ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کرونا وبا نے مجھ پر نفسیاتی اور تخلیقی طور پر کیا اثر کیا ہے؟

عرض ہے کہ میں نے اپنی زندگی اور اپنے دل کے رشتوں پر نظرِ ثانی کی اور مجھے اندازہ ہوا کہ کرونا وبا کی وجہ سے میرا موت اور محبت کے بارے میں رویہ بدلا ہے۔ ایک چیز کم اور ایک چیز زیادہ ہوئی ہے۔ موت کا خوف کم اور دوستوں کی محبت کا احساس بڑھ گیا ہے۔

میں اپنے مریضوں کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور اگر اس خدمت میں مجھے موت بھی ملنے آتی ہے تو میں اس سے بھی بڑے سکون سے ملوں گا کیونکہ میں نے اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزاری ہے۔

میں نے کرونا وبا کے دنوں میں اپنے ساتھ زیادہ وقت گزارا اور از سرِ نو جانا کہ خاموشی تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں۔ میں نے کئی پرانی کتابوں کو دوبارہ پڑھا۔ جو پروجیکٹ ایک عرصے سے نامکمل تھا اسے مکمل کیا اور ایک کتابچہ تیار کیا جس کا عنوان ہے۔ انسانی ارتقا کے مختلف نظریات۔ اس کتابچے میں میں نے انسانی ارتقا کے حوالے سے دس فلاسفروں اور دانشوروں کے خیالات و نظریات یکجا کیے تا کہ ایک کتابچے میں لوگوں کو پچاس کتابوں کا خلاصہ مل جائے۔ اگر کرونا وبا کے یہ فارغ دن رات نہ ہوتے تو شاید میں یہ تحقیقی اور تخلیقی کام اتنی جلد اور اتنی یکسوئی سے نہ کر سکتا۔ میں نے کرونا وبا اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ’ہم سب‘ کے لیے چند نفسیاتی کالم بھی لکھے۔

مجھے کرونا وبا کے دنوں میں یہ احساس بھی ہوا کہ میں اپنا اچھا دوست ہوں اور اپنے ساتھ خوبصورت شامیں گزار کر محظوظ ہوسکتا ہوں۔ فرانسیسی وجودیت پسند فلاسفر ژاں پال سارتر کا ایک قول ہے

If you are alone and feel lonely you are in bad company
آخر میں آپ نے ایک غزل سننے کی فرمائش کی ہے تو ایک غزل کے چار اشعار حاضرِ خدمت ہیں
شاخِ تنہائی پہ ڈر ڈر کے کھلے ہیں چپ ہیں
ہم کہ حالات کے دھاگے سے بندھے ہیں چپ ہیں
ہم نے شیشے کا مکاں مل کے بنایا لیکن
جب سے جانا ہے کہ پتھر سے بنے ہیں چپ ہیں
ہم کو ہر رشتے سے جنت کی تھی امید پر اب
خاندانوں کی جہنم میں جلے ہیں چپ ہیں
زیست کی آگ میں جل جل کے فغاں کرتے رہے
اور اس آگ میں کندن جو بنے ہیں چپ ہیں

شکریہ۔ آپ کی کوششوں کا مداح۔ خالد سہیل
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments