اینکر زدہ صحافت کو راہ راست پر لانے کا وقت ہے


جینٹ لیسلی کک اسی کے عشرے میں واشنگٹن پوسٹ سے انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ کی حیثیت سے وابستہ تھی۔ چونکا دینے والی خبروں کی تلاش میں اسے بہت مہارت حاصل تھی۔ جینٹ لیسلی کک کے قارئین بے چینی کے ساتھ اس کی سٹوری کے منتظر رہتے اور وہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی کہانی سامنے لے آتی۔ انھی دنوں واشنگٹن پوسٹ میں ”جمی ز ورلڈ“ کے نام سے جینٹ لیسلی کک کی ایک سٹوری چھپی۔ جس میں اس نے آنڈریا واشنگٹن میں مقیم ایک آٹھ سالہ بچے کے بارے میں بتایا کہ وہ ہیروئن کے نشے کا عادی ہے مزید بتایا کہ یہ بچہ (جمی ) اپنی ماں اور اس کے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتا ہے اور وہ دونوں خود بھی نشے کے عادی ہیں۔ جمی کو پانچ سال کی عمر میں اپنی ماں کے بوائے فرینڈ نے نشے پر لگایا تھا اور وہ گزشتہ تین سال سے نشے میں مبتلا ہے۔

اس سٹوری نے ایک طرف امریکہ کی سماجی اور اخلاقی زندگی کو بری طرح متاثر کیا تو دوسری طرف جینٹ لیسلی کک راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچی لیکن واشنگٹن پوسٹ میں پبلک انکوائر افسر بل گرین کو کچھ اطلاعات ملیں تو اس نے جینٹ کک کی سٹوری کے بارے میں انوسٹی گیشن شروع کی۔ چند دنوں بعد بل گرین نے اخبار انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں اس سٹوری کو مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ثابت کیا گیا تھا۔

اخبار انتظامیہ نے اسی دن جینٹ لیسلی کک کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ اسے دیے گئے تمام ایوارڈز بھی منسوخ کر دیے اور پھر وہ دن اور آج کا دن جینٹ لیسلی کک صحافت کی دنیا میں کہیں دکھائی ہی نہ دی۔

یہ طویل تمھید میں نے اس لئے باندھی کہ اُن ملکوں کی کامیابی اور ترقی کے اہم رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں صحافت سچائی، پروفیشنلزم اور شدید محنت کی بنیادوں پر کھڑی ہے جو معاشرے کو صحیح راستہ دکھانے موٹیویٹ کرنے اور خیر اور شر میں تمیز کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔ جو جھوٹ، فریب، ظلم اور نا انصافی کو اُکھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ جس سے ایک فلاحی اور مبنی بر انصاف معاشرے کا قیام وجود میں آتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں متضاد اور منفی رخ میں سفر کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہماری صحافت رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی والی صورتحال سے دو چار ہے۔ کیونکہ ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری اور ذاتی مفادات نے نہ صرف اسے جکڑ رکھا ہے بلکہ اس سے اچھے نتائج کی بجائے مسلسل منفی پروپیگنڈہ اور مخصوص ایجنڈے ٹپک رہے ہیں جو کسی طور تعمیری صحافت کے زمرے میں نہیں آتا۔

آپ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی بھی چینل کھول دیں وھاں سالہا سال سے مخصوص چہرے ”اینکر اور سینئر تجزیہ نگار“ کا سرکس سجائے دکھائی دیں گے۔

معیار کم از کم یہ تو ہرگز نہیں کہ مطالعے مشاھدے اور طرز تحریر نے مواقع فراہم کیے بلکہ معیار یہی ٹھرا کہ ”مالکان“ کے ساتھ روابط اچھے رکھیں اور پھر صبح وہ شام اول فول بکتے رہیں۔ اگر چہ نزیر لغاری سہیل وڑائچ اور جاوید چودھری جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو تصنیف و تالیف اور مطالعے کی بنیاد پر اس پیشے سے منسلک ہیں لیکن بد قسمتی سے عمومی طور پر ایسا نہیں بلکہ سچائی اور خبر کی بجائے اپنے اپنے ایجنڈے سمیت ہر کوئی ہمارے سر پر سوار ہے کیونکہ روز روز جھوٹ ثابت ہونے کے باوجود بھی کسی کو جینٹ لیسلی کک نہیں بنایا گیا۔

کسی تلخی کی طرف جانے کی بجائے وقت کے تیور اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئیے چند تجاویز کی طرف جانا ہی بہتر بات ہوگی۔

اس وقت ایک بڑا سچ یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہوتی ڈرامہ بازی کو نہ صرف عام لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ سب سے زیادہ تنگ بھی اسی سے آئے ہوئے ہیں (کسی کو اس بات میں شک ہو تو بے شک سروے کروا کر دیکھ لیں ) دوسری بات یہ کہ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ الیکٹرانک میڈیا کارکردگی کے حوالے سے بہت پیچھے رہا اور وقت کے تقاضوں (ایماندارانہ تفتیشی صحافت اور نئے آئیڈیاز کی تلاش ) کے مطابق چلنے کی بجائے چند افراد کی اہمیت کے گرد گھومنے لگا۔

ظاھر ہے کہ نیوز چینلز کو بند تو نہیں کیا جا سکتا اس لئے نئی قانون سازی ہی بہترین راستہ ہے جس کے تحت کسی بھی اینکر یا تجزیہ نگار کے لئے مہینے میں مخصوص وقت کا تعین کیا جائے یعنی سکرین پر آنے کے لئے اتنے منٹس یا گھنٹے ہوں گے جبکہ باقی وقت نوجوان صحافیوں کالم نگاروں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو دیا جائے۔ بلکہ میں تو ذاتی طور پر اس بات کی حمایت کروں گا کہ دوسرے جابز اور اداروں کی مانند یہاں بھی سخت امتحان اور ٹسٹ کا طریقہ کار لاگو کیا جائے جو تجربے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف اور انداز تحریر سے بھی منسلک ہو۔ جس کا اھتمام وزارت اطلاعات اور میڈیا ہاؤسز مشترکہ طور پر کرے۔

اس فیصلے سے ایک طرف نئے لکھنے والوں اور گمنام صحافیوں کو مواقع بھی ملیں گے اور دوسری طرف نئے آئیڈیاز کو راستہ بھی ملتا جائے گا۔ ساتھ ساتھ ریسرچ طرز تحریر پروفیشنلزم اور محنت کو بھی معیار بنایا جائے اور اس کی مناسبت سے الیکٹرانک میڈیا پر وقت کی تقسیم کی جائے۔ اس اقدام کے ساتھ سوشل میڈیا بھی غل غپاڑہ سے نکل کر راہ راست پر آتا جائے گا کیونکہ اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو سوشل میڈیا پر مچی ہوئی ہڑبونگ اصل میں الیکٹرانک میڈیا کا رد عمل ہی ہے کیونکہ عام آدمی کے پاس جھوٹ اور بہتان طرازی کا جواب دینے کے لئے صرف یہی سوشل میڈیا کا فورم ہی تو ہے۔

جب الیکٹرانک میڈیا پر نئے لوگ جدید آئیڈیاز کے ساتھ آئیں گے تو عوامی سطح پر اس کا اثر بھی حد درجہ مثبت اور تعمیری ہوگا۔

بہت دکھ کے ساتھ کہتا ہوں کہ عدنان کاکڑ اور وحید مراد کس درجے کے صحافی ہیں لیکن سکرین پر صحافیانہ اداکاری نہیں کرتے سو انہیں کتنے لوگ جانتے ہیں؟ اور شدید محنت کے باوجود کماتے کتنا ہیں؟

نعیم اختر کا طرز تحریر کس غضب کا ہے۔ مجاہد مرزا، وصی بابا، وسیم جبران اور طاھر علی خان کس معیار کا سوچتے اور لکھتے ہیں؟ ڈاکٹر طاھرہ کاظمی کا اسلوب کیسا ہے؟ اور دوسرے کئی بہترین صحافی کن صلاحیتوں کے مالک ہیں لیکن گمنامی اور بے روزگاری انہیں چاٹ رہی ہے۔ لیکن بات پھر وہی کہ پارلیمان سے اداروں اور وزیراعظم سے چپڑاسی تک رگیدنے والے سکرینوں کے ڈیڑھ درجن ٹھیکیدار راستہ چھوڑیں تو تبھی لوگ تازہ ہواؤں اور اُمڈتی ہوئی روشنی کا لطف اُٹھا سکیں۔

وزیراعظم عمران خان خود بھی کئی بار اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کر چکے ہیں بلکہ انہیں خود بھی بہت سی ان کہی کہانیوں کا علم ہے اس لئے مناسب وقت ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی طرف پیش رفت کی جائے اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو یقیناً عوام سمیت تمام طبقوں کی مضبوط تائید اور حمایت بھی حاصل ہوگی اور وہ آسانی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں گے۔

کام کوئی اتنا مشکل بھی تو نہیں قانون سازی کریں اور پیمرا کو موثر بنائیں نتائج حیران کن اور خوشگوار ہی نکلیں گے۔ البتہ لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور رعب داب ہاتھ سے نکلیں گے تو ڈیڑھ درجن افراد کی چیخیں آسمان سر پر اُٹھالے گی لیکن کیا فرق پڑتا ہے جب جینوئن لوگوں کو حق بھی ملے اور پورے ملک کے عوام سکھ کا سانس بھی لیں گے تو وزیراعظم عمران خان اور حکومت بلا شبہ مضبوط عوامی حمایت کی پوزیشن میں ہوں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ شخصیت پرستی اور صحافت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ یہ ملک ایسے آگے نہیں بڑھے گا۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments