امی نے دادی سے حکومت کب اپنے ہاتھ میں لی؟



بسمہ کی راتیں پھر سے تصورات میں گزرنے لگیں۔ بس یہ ہوتا کہ تصورات میں بھی وہ تھوڑا فوٹو شاپ کی مدد لے ہی لیتی۔ اسے ابھی تک باسط کی رنگت پہ تسلی نہیں ہوئی تھی۔

گھر والوں کا رویہ بدلنے کے ساتھ ہی اسے یاد آیا کہ فائزہ سے بات ہوئی تھی اس کی امی سے مشورہ کرنے کی۔ جب تک سب اچھا چل رہا تھا وہ بھولی بیٹھی تھی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ وہ دونوں ہی مسئلوں پہ بات کر لے گی۔ گھر والوں کا رویہ بھی اور باسط کی رنگت بھی۔ ایک دو دفعہ اس نے باسط کو مشورہ بھی دیا کہ وہ وائیٹننگ فیشل کروا لیا کرے یا پھر کوئی فئیرنیس کریم یوز کرنی شروع کردے۔ کبھی باسط مذاق میں بات ٹال جاتا اور کبھی کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتا۔ پھر وہ صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کرتی کہ اسے مسئلہ نہیں بس لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اسے اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی باسط کا مذاق اڑائے۔

کئی دفعہ سوچا کہ اسے نہیں ٹوکے گی مگر پھر کسی گورے ہیرو کو دیکھ لیتی یا گھر پہ کالوں کا مذاق اڑتا دیکھتی تو شدت سے خواہش ہوتی کہ کاش باسط کا رنگ تھوڑا صاف ہوتا۔ پہلے شاید گھر والوں نے لحاظ رکھا ہو مگر اب سب گھما پھرا کر باسط کی رنگت پہ کچھ نا کچھ بولنے ہی لگے تھے۔ اس پہ اسے اور غصہ آتا کہ دیکھ کر بھی خود وہی لوگ آئے تھے اب اسے ایسے سناتے ہیں جیسے اس نے کالے دولہا کے لیے ضد کی تھی۔ اس پہ قنوطیت سی طاری رہنے لگی تھی اسے لگنے لگا ہر بری چیز جان بوجھ کے اس کے حصے میں رکھی جاتی ہے۔

ویسے بھی گھر والوں کو اس کی کوئی خاص پروا تھی نہیں کم از کم یہ ایک چیز تو ڈھنگ کی دے دیتے اسے۔ اب اسے پکا یقین ہونے لگا تھا کہ وہ گھر میں اضافی ہے اور اسے بوجھ سمجھ کے سر سے اتارا جا رہا ہے۔ وہی اسد جو منگنی سے پہلے باسط کی ہر چیز کی تعریفیں کرتا تھا اب بار بار اس کے رنگت کا مذاق اڑاتا۔ ایک دن وہ واقعی کافی چڑ گئی جب اسد اسے بلا وجہ چڑائے جا رہا تھا۔

”تمہارے کالو صاحب کو چمکیلے رنگ پہننے کا اتنا شوق ہے فل ٹائم کنٹراس مار کے آتے ہیں“
سب اس کی بے تکی باتوں پہ ہنس رہے تھے جس پہ بسمہ کو اور غصہ آرہا تھا۔
”اوپر سے پتا نہیں کس چیز سے منہ دھو کے آتے ہیں یہ لش پش منہ چمک رہا ہوتا ہے باٹا کے جوتوں کی طرح“
”آئے ہاں کبھی کبھی تو واقعی بہت چمک رہا ہوتا ہے اس کا منہ کالا کالا۔“ دادی بھی حمایت میں بول پڑیں۔

”تو نہیں پسند کرنا تھا نا یہ کالا کالا۔ بھگتنا تو مجھے پڑے گا ساری زندگی اس کا رنگ بھی اور آپ لوگوں کا طنز بھی۔“

”ارے ارے دیکھو ذرا اس کی گز بھر کی زبان اب ماں باپ کے فیصلوں پہ اعتراض ہوگا۔ بی بی اتنا اعتراض تھا تو خود کوئی شہزادہ ڈھونڈ لیا ہوتا۔ ماں باپ شکل نہیں دیکھتے یہ دیکھتے ہیں کہ بیٹی خوش کہاں رہے گی۔“

”تو مذاق بھی تو آپ لوگ ہی اڑا رہے ہیں“ وہ روہانسی ہوگئی۔

”ارے بھائی ہے چھوٹا دو باتیں مذاق میں کرلیں تو ٹسوے بہانے لگیں محترمہ، ارے سسرال میں کیا کیا برا بھلا سننا پڑتا ہے وہ کیسے سہو گی“

” دادی ضروری ہے کہ ایسی سسرال دھونڈی جائے جو کچھ برا بھلاضرور کہے؟“
آج پتا نہیں اسے کیا ہوگیا تھا وہ منہ در منہ جواب دینے کو تیار بیٹھی تھی۔

”لاحول ولا پگلا گئی ہو کیا؟ کوئی جان بوجھ کے ایسی سسرال نہیں ڈھونڈتا اولاد کے لئے مگر سسرال جگہ ہی ایسی ہے بیٹیوں کو بڑا دل مضبوط کر کے اپنا گھر چھوڑنا ہوتا ہے۔“

”دادی جو لوگ اپنی بیٹی کو محبت دے سکتے ہیں وہ بہو کو کیوں نہیں؟“
”کیونکہ بہو سگا خون نہیں ہوتی“

” نہیں دادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں محبت دینے کی عادت ہی نہیں، چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو مجھے کون سا پیار دے دیا آپ لوگوں نے؟ ہاں بس یہ ہے کہ ایسا رویہ بڑے بھیا یا اسد کی بیوی کے ساتھ ہوگا تو وہ چپ کرکے نہیں سہے گی کیونکہ وہ سگا خون نہیں اپنے سگے رشتوں کی شکایت کرتے ہوئے اپنی ہی انا مجروح ہوتی ہے“

وہ صرف سوچ کے رہ گئی ایک آنسو گال تک آگیا اگلا نکلنے سے پہلے پہلے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ تکیے میں منہ دیے کافی دیر روتی رہی۔ ہر بار روتے ہوئے اسے امید ہوتی کہ کوئی تو چپ کرانے آئے گا۔ مگر سب ایسے اپنے کاموں میں لگے رہتے کہ اسے لگتا شاید اس کو رلانا ہی مقصد تھا، تبھی کسی کو اس کے رونے پہ ترس نہیں آتا تھا۔ نہ کوئی منانے کی کوشش کرتا نہ اپنے غلط رویئے پہ معافی مانگتا۔ آج بھی وہ روئے جارہی تھی کہ موبائل کی ٹون بجی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ کس کا میسج ہے مگر اس وقت وہ اس سے بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سارا غصہ ہی اس سے شروع ہوا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے میسج کھول لیا۔

”میری زندگی کی روشنی کہاں گم ہے؟“
”جائیں آپ مجھے ابھی بات نہیں کرنی“ وہ خود کو جواب دینے سے نہیں روک پائی مگر جواب میں واضح سختی تھی۔
”ارے کیوں بھئی اتنا غصہ کیوں جناب؟“
کچھ نہیں بس اسد سے تھوڑا جھگڑا ہوگیا ”
”اوہو یہ تو گڑبڑ ہوگئی۔ ہماری بسمہ کا موڈ خراب ہے اور وہ اتنی دور ہے 😭“
” پاس ہونے پہ کیا فرق پڑنا تھا“
”وہ تو آپ پاس ہوتیں تو آپ کو پتا چلتا😉“
”پھر بھی کیا ہوتا“ وہ اپنی ناراضگی بھول بھال کے باتوں میں لگ گئی۔
”ابھی بتاؤں گا تو آپ ناراض ہوجائیں گی“
”لو یہ کیا بات ہوئی۔ بتائیں نا باسط“
”نہیں بھئی ابھی بتا دوں گا تو آپ کہیں گی باسط آپ گندی گندی باتیں کرتے ہیں“
”پہلے کبھی آپ کو کہا ہے ایسا“

” پہلے نہیں کہا مگر میں جو کروں گا وہ ابھی بتا دیا تب آپ یہ ضرور کہیں گی؟“ میسج پڑھ کر بسمہ کی کان کی لوئیں تک سرخ ہوگئیں۔

”آپ بد تمیز ہیں بہت، جائیں میں واقعی بات نہیں کر رہی۔“

موبائل سائیڈ میں رکھ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ دو تین دفعہ موبائل مزید بجا پھر خاموش ہوگیا۔ بسمہ کی دھڑکن بہت بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پہ آجانے والی مسکراہٹ اب اس سے کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔

اور پھر آہستہ آہستہ باسط کے میسجز مزید شوخ ہوتے چلے گئے۔ کہیں کہیں پہ وہ صرف شوخ نہیں ہوتے بلکہ بسمہ کو لگتا کہ کافی فحش ہیں مگر وہ منع بھی کرتی تھی تو باسط مذاق میں بات اڑا دیتا۔ زیادہ سختی سے وہ کچھ کہہ بھی نہیں پاتی تھی۔ ورنہ باسط ناراض ہوجاتا تھا ایک دو دفعہ اس نے کہہ بھی دیا کہ یار تمہیں میری باتیں اتنی بری لگتی ہیں تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔ تم سے ایک بات برداشت نہیں ہوتی زندگی بھر مجھے کیسے برداشت کرو گی۔

پتا نہیں یہ دھمکی ہی ہوتی تھی یا نہیں مگر بسمہ کو دھمکی ہی لگتی تھی۔ پھر وہ بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ زیادہ عجیب تب ہوا جب ایک دو بار اسماء آپی نے بغیر پوچھے اس کا موبائل دیکھا بھی اور کچھ ایسے ویسے ٹائپ کے جوک اس سے پوچھے بغیر اپنے نمبر پہ فارورڈ بھی کر لیے۔ وہ دیکھتی رہ گئی اس کا خیال تھا کہ گھر میں کوئی ہنگامہ وغیرہ ہوگا کہ بسمہ منگیتر سے اس قسم کی باتیں کرتی ہے مگرباتوں باتوں میں اسماء آپی ایک دن کہہ گئیں

”یار بسمہ تیرے منگیتر کا سینس آف ہیومر اچھا ہے، شکر کر میرے میاں کی طرح بورنگ نہیں ہے وہ“ ۔
اس سے پتا نہیں آپی کی کیا مراد تھی مگر اسے اچھا نہیں لگا۔

اب اسے شادی شدہ خواتین کی محفل میں بیٹھنے کی بھی اجازت مل گئی تھی اور جو باتیں بڑی روانی سے یہاں کی جاتیں، باسط کے میسجز اسے ان کے مقابلے میں تمیزدار لگتے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ خود سٹپٹا کے کمرے سے نکل جاتی جتنی ذاتی باتیں بہت آرام سے زیر بحث ہوتیں۔ اور پھر وہ ان باتوں کی بھی عادی ہوتی چلی گئی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا شادی کی تاریخ بھی قریب آرہی تھی۔ باسط چاہ رہا تھا کہ شادی کا سوٹ اور کمرے کا فرنیچر پسند کرنے کے لیے وہ اور بسمہ ساتھ جائیں اور بسمہ کا خون خشک ہورہا تھا یہ سوچ سوچ کر کہ بھیا تو جائیں گے ہی ان کے سامنے وہ بول ہی کیا سکے گی۔

پہلے تو باسط ڈائریکٹ اصرار کرتا رہا پھر ایک دن اس کی بہنیں اور دونوں بھابھیاں آگئیں اجازت لینے، اس وقت تو امی نے کہا ہم گھر کے مردوں سے پوچھ کے بتائیں گے مگر ویسے سب راضی تھے بس دادی کو منانا تھا۔ دادی کی بھی سب سے مضبوط دلیل یہی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اور ہمیشہ کی طرح امی کی مرضی ہی فیصلہ ٹھہری۔ مگر نہیں ہمیشہ کی طرح نہیں بسمہ کو یاد ہے جب وہ چھوٹی تھی اور دادی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھیں، بھیا بھی اسکول میں تھے تب دادی کی کہی ہوئی بات پتھر پہ لکیر ہوتی تھی۔

امی کے لیے اس سے الگ کوئی فیصلہ کرنا تو دور کی بات اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی ممنوع تھا تب تک دادا زندہ تھے گھر دادا کے نام تھا۔ دادا کے انتقال کے بعد ابو نے تھوڑا بہت جو جو بھی دونوں بھائیوں کا حصہ بنتا تھا وہ دے کر اور بہن سے حصہ معاف کروا کر گھر اپنے نام کروالیا تھا۔ دونوں بھائی ویسے ہی کافی عرصہ پہلے الگ گھر لے چکے تھے۔ اس کے بعد سے ہی کب یہ فیصلے کا اختیار دادی سے امی کے ہاتھ میں آیا بسمہ کو پتا نہیں چلا۔

بس کبھی کبھار امی کو کہتے سنتی کہ اماں کو غنیمت سمجھنا چاہیے کہ انہیں ہم نے ساتھ رکھا ہوا ہے ورنہ نبھا کے تو انہوں نے کسی بہو سے نہیں رکھی۔ یہ بات براہ راست دادی کو کبھی نہیں کہی گئی مگر اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ وہ سن نہ لیں۔ ایک ہی کمرے میں تو وہ اور دادی رہتے تھے۔ اس نے کئی بار امی کو کہتے سنا اور دادی ساتھ بیٹھی ہوتیں۔ ان کے چہرے کی تاریکی بسمہ کو اداس کرجاتی تھی۔ مگر اسے حیرت اس بات پہ ہوتی کہ اس کے باوجود دادی کے لیے سسرال کا یہ چلن ٹھیک ہے اور ایسے ہی چلتا آیا ہے اور چلے گا۔

وہ اپنے اس چلن کو بھگت رہی تھیں مگر اپنے خیالات میں تبدیلی پہ تیار نہیں تھیں۔ سسرال میں نبھانے کے طریقے بتاتے ہوئے وہ اس کی دادی نہیں بلکہ ماں کی ساس کی حیثیت سے مشورے دیتی تھیں۔ جن میں سرفہرست سسرال میں چپ چاپ خدمت کرنے کی تلقین ہوتی۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ کہ امی اس نصیحت کی حامی تھیں۔ اور اب دادی کی اسی سوچ کو ان پہ استعمال کیا گیا کہ اسے جن لوگوں کے ساتھ جا کر گزارا کرنا ہے وہی ساتھ شاپنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم منع کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ بقول ابو کے کہ منگنی کر کے ہم نے بیٹی آدھی تو بیاہ دی۔ سسرال کے مسئلے ہیں بہت سوچ سمجھ کے چلنا پڑتا ہے۔

خیر ایک دن باسط کے گھر سے کافی بڑا لشکر آیا اس کی دونوں بہنیں دونوں بھابھیاں بہنوں اور بھائیوں کی بڑی بیٹیاں اور گود والے بچے۔ طے یہ پایا کہ خواتین کی ٹولی بسمہ کو ساتھ لے کر جائے گی اور بھیا جاکر باسط کو شاپنگ کروائیں گے۔ دلہن کے سوٹ کے لیے کئی دکانیں چھانی گئیں بسمہ خاموش بیٹھی تھی اور جو صلح مشورہ ہورہا تھا وہ باسط کے گھر والوں میں آپس میں ہی ہورہا تھا۔ بڑی دیر کے بعد ایک لمبے کرتے کے ساتھ اسٹائلش سا لہنگا سب کو پسند آیا ڈیزائن وغیرہ تو ٹھیک ہی تھا مگر رنگ بسمہ کو زیادہ پسند نہیں آیا، مگر جب فائنل کر کے اس سے پوچھا گیا تو وہ صرف ہاں میں ہی سر ہلا سکی۔

اب کیا بولتی؟ اتنے میں باسط کی دوسری نمبر کی بھابھی کے پاس باسط کی کال آگئی۔ باسط اور بھیا فرنیچر کی دکان پہ تھے۔ جو یہاں سے آدھا گھنٹہ دور دوسری مارکیٹ میں تھی فوراً سب کچھ فائنل کر کرا کے ٹیکسی کی گئی اور سب فرنیچر کی دکان پہ پہنچ گئے۔ بسمہ کچھ حواس باختہ سی ہوگئی تھی۔ باسط اور بھیا ایک ساتھ تھے۔ بھیا کافی جھنجھلائے ہوئے تھے کیونکہ اول تو دکان ہی کافی مہنگے فرنیچر کی تھی پھر یہ بات بھی بسمہ نے سن ہی لی تھی جو پچھلی مارکیٹ سے نکلنے سے پہلے باسط کو کہی گئی تھی کہ ابھی کچھ فائنل نہیں کرنا ہم بس ”پانچ منٹ“ میں آتے ہیں۔

3d rendering interior and exterior design

دکان پہ آتے ہی فرنیچر پسند کرنے کا چارج بڑی بہن اور منجلی بھابھی نے سنبھال لیا۔ بقول ان کے کہ کمرا بڑا ہے صرف بیڈ سائیڈ ٹیبلز اور ڈیوائڈر سے تو عجیب لگے گا۔ اور اب وہ کوئی ایسا سیٹ دیکھ رہی تھیں جس سے کمرہ بہتر طور پہ سج سکے۔ باسط کا دھیان اب فرنیچر کی بجائے بسمہ پہ تھا۔ ہر کچھ دیر بعد وہ بسمہ کی کسی سائیڈ پہ آجاتا اور بسمہ سٹپٹا کے ایک دو قدم آگے یا ایک دو قدم پیچھے ہوجاتی۔ ایک جگہ بسمہ کے پیچھے ہونے پہ وہ بھی رک گیا سب آگے نکل گئے۔

”کیا مسئلہ ہے یار تھوڑی دیر میرے ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کھا جاؤں گا کیا؟“ اس نے کافی دھیمی آواز میں کہا تھا مگر پھر بھی بسمہ گھبرا گئی۔

”افف آہستہ بولیں نا بھیا نہ سن لیں“

”ارے ریلیکس نا، تمہارے بھیا ابھی فرنیچر کے مسئلے میں الجھے ہیں انہیں یاد بھی نہیں ہوگا کہ تم ساتھ ہو۔“

”اتنے بے چین کیوں ہورہے ہیں ایک مہینہ ہی تو رہ گیا ہے بس۔ مل لیتے آرام سے“
”اسی لیے تو زیادہ بے چین ہوں جیسے جیسے دن قریب آرہے ہیں تمہارے بغیر رہنا مشکل لگ رہا ہے“
”اچھا نا اتنا صبر کرلیا تو اب اور کرلیں“ وہ کہہ کر جلدی سے آگے بڑھ گئی۔

آخر کار بڑی مشکل سے باسط کے گھر والوں کو ایک بیڈ روم سیٹ پسند آیا جس میں بیڈ، سائیڈ ٹیبل، ڈیوائیڈراور ڈریسنگ ٹیبل کے علاوہ ایک صوفہ، شوکیس، آئرن اسٹینڈ، بلاوجہ کا لیمپ اور اس کی ٹیبل بھی تھی۔ اور وہ بھی ان کے خیال میں بس ٹھیک تھا۔ فرنیچر کی بکنگ وغیرہ کروا کے وہ لوگ باہر نکل رہے تھے تو سامنے ہی بسمہ کو اپنی ایک کلاس فیلو نظر آگئی وہ قریب کی ایک دکان پہ شاید اپنے گھر والوں کے ساتھ دکان سے باہر رکھا سامان دیکھ رہی تھی۔ ان سے کچھ دور پانچ چھ لڑکوں کا ایک ٹولا مسلسل ان پہ آوازیں کس رہا تھا۔ لڑکوں کی عمریں پچیس سے تیس کے درمیان ہی تھیں۔ ایک دو فقرے انہوں نے اتنی زور سے اور ایسے کہے کہ سب کی ہی توجہ ان لڑکوں کی طرف گئی۔ باسط کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔

”شرم نہیں آتی لوگوں کو بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے“
بسمہ بتانے ہی والی تھی کہ یہ اس کی کلاس فیلو ہے مگر ”بچیوں“ سن کے وہ سن سی ہوگئی۔

اس نے کچھ بھی بولنے کا ارادہ بدل دیا۔ وہاں سے پھر بھیا اور باسط کسی اور طرف چلے گئے اور خواتین کا ٹولا میچنگ کے جوتے لینے نکل گیا۔ کافی ڈھنڈائی کے بعد جوتے پسند کیے گئے اور واپسی ہوئی۔ بسمہ تب چونکی جب ایک انجان گھر کے سامنے ٹیکسی رکی اور سب اترنے لگے۔ بڑی باجی اسے ہچکچاتا دیکھ کے بولیں

”آؤ نا بسمہ! کچھ چائے وغیرہ پی کے تھکن اتارتے ہیں تم اپنا کمرہ بھی دیکھ لینا۔“ اسے بہت عجیب لگا کہ اس سے ہوچھنا تو الگ بات اسے بتانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی کہ اسے سسرال والے گھر لے کے جارہے ہیں۔ کہنے کو کچھ نہیں تھا مگر اسے کافی تذلیل محسوس ہوئی کہ اس کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو جہاں لے جائے۔ بغیر پوچھے؟

سب اندر آگئے ساس اور دیور کافی خوش دلی سے ملے۔ ساس نے فوراً صدقے کے پیسے نکالے کہ بہو پہلی بار اپنے گھر آئی ہے۔ گاڑی میں محسوس ہونے والی تذلیل کا اثر کچھ کم کوتا محسوس ہوا۔ سب بسمہ کے اردگرد تھے خاص طور سے بچے چاچو کی دلہن چاچو کی دلہن کرتے ہوئے اردگرد گھوم رہے تھے۔ پھر سب اس کے اردگرد بیٹھ گئے ایک دو بچے اس سے جڑ کے بیٹھے ہوئے تھے اور ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک تو وہ بولتے میں ہی جھجھک رہی تھی ساری باتیں دوسرے ہی کر رہے تھے پھر کوئی بات کرتے کرتے ان بچوں پہ نظر پڑ جاتی تو وہ اور گڑبڑا جاتی۔

باسط کی چھوٹی بھابھی نازیہ کو شاید اندازہ ہوا کہ وہ پرسکون نہیں ہوپارہی تو اس نے اسے وہاں سے اٹھا لیا کہ چلو تمہیں گھر دکھائیں اور کمرہ بھی۔ گھر ٹھیک ہی تھا بس جیسا متوسط طبقے کے گھرانوں کا ہوتا ہے نیچے ساس سسر کا کمرہ بڑے بھائی اور بھاوج کا کمرہ اور بیچ میں تھوڑا بڑا ہال ٹائپ کمرہ جسے لاونج کے طور پہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ اوپر کے پورشن میں دو ہی کمرے بنے ہوئے تھے اور ایک کونے میں اٹیچ باتھ تھا۔

دونوں کمرے باہر سے ایک جتنے ہی لگ رہے تھے ایک نازیہ بھابھی کا کمرہ تھا دوسرا باسط کا۔ پہلے نازیہ بھابھی نے اپنا کمرہ دکھایا پھر دوسرے کمرے میں لے آئیں یہاں فرش پہ ایک سنگل میٹرس بچھا ہوا تھا اور پرانا سا کارپٹ تھا۔ ایک طرف چھوٹی میز پہ ایک لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ کمرے میں ایک ہی تھی اس کے بالکل برابر اکہرے پٹ والی الماری رکھی تھی جس کا دروازہ بھی ٹھیک سے بند نہیں تھا۔ ایک کرسی پہ باسط کے میلے کپڑے پڑے ہوئے تھے۔

ظاہر ہے اس کے دماغ میں اس کمرے کا تصور الگ تھا بالکل سیٹ سجا ہوا۔ مگر پھر خیال آیا کہ فرنیچر تو لیا ہی ابھی ہے۔ مطلب باسط کے کمرے میں پہلے سے فرنیچر ہے ہی نہیں؟ اس کے ذہن میں پہلی بار خیال آیا کہ باسط کی تنخواہ کیا اتنی کم ہے کہ وہ اپنے کمرے کے لیے تھوڑا بہت سامان بھی نہیں لے پایا؟ شادی کے بعد خرچے چل بھی پائیں گے یا نہیں۔ کمرے کو نہ بکھرا ہوا کہا جاسکتا تھا نہ سمٹا ہوا۔ نازیہ بھابھی کمرے کی حالت دیکھ کر ہنس دیں۔

”دیکھ رہی ہو اپنے منگیتر کی حالت؟ سب پھیلا کے رکھتا ہے، اب تم ہی آ کے سنبھالنا“
اور بلا وجہ ہی بسمہ کے ذہن میں ایک بات آئی

”غیر شادی شدہ فرد کیا فیملی کا حصہ نہیں ہوتا کہ اس کی ضرورتیں اس کی بیوی ہی آکے پوری کرے گی؟ یا اپنا کمرا سنبھالنا اس کی اپنی ذمہ داری نہیں؟“

”کیا سوچ رہی ہو۔ پریشان مت ہو یار سب مردوں کی یہی عادت ہے یہ بھی آفس جاتے ہوئے سب پھیلا کر جاتے ہیں کپڑے یہاں پھینکے تولیا وہاں اف۔ چلو ادھر ہی بیٹھتے ہیں میں بتا آئی تھی بھابھی کو وہ اوپر ہی لے آئیں گی چائے۔ نازیہ بھابھی نے بڑی کا نام لے کر بتایا۔

بسمہ کی کیفیت عجیب سی تھی کمرہ اجنبی بھی تھا مگر باسط کی چیزوں کا اردگر ہونا اسے بہت رومانوی احساس دلا رہا تھا۔ نازیہ بھابھی ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہیں مگر بسمہ کا دھیان ان کی باتوں پہ کم ہی تھا۔ وہ ایسے بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی

”ہمیں گھر سے بھگا کر ہماری منگیتر کو یرغمال بنایا ہوا ہے“ اسے پیچھے سے باسط کی شوخ آوازسنائی دی۔ وہ چونک کے مڑی تو دروازے میں باسط کھڑا ہوا تھا۔

”تمہارے لیے ہی یرغمال بنا کر لائے ہیں جناب“ نازیہ بھابھی نے بھی شرارتی انداز میں کہا۔ کہنے کو کافی رومانوی سچویشن تھی ایسی سچویشنز بسمہ نے کئی بار کہانیوں میں پڑھی تھیں۔ مگر وہ بالکل بھی ویسا محسوس نہیں کرپائی جتنا رومانوی وہ ان سچویشنز کو سمجھتی تھی۔ اسے شدید بے چینی اور اختلاج قسم کا احساس ہورہا تھا۔

”بھابھی ہم نیچے چلیں چائے بن گئی ہوگی۔ دیر بھی ہوگئی ہے“

”ہاں تم بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔ اپنے منگیتر سے کچھ باتیں کرلو خود بھی باؤلا ہورہا ہے اور ہمیں بھی کردے گا“ وہ بھی نازیہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی

”بھابھی میں بھی ساتھ چلتی ہوں“

”اففو منگیتر ہے تمہارا، کوئی بات نہیں دومنٹ بیٹھ کے بات کرلو، بے فکر رہو اوپر کوئی نہیں آئے گا“ وہ پریشان کمرے کے بیچ میں کھڑی رہ گئی اور نازیہ اسے چھوڑ کے نیچے چلی گئی۔

باسط دو تین قدم بڑھ کر اس کے قریب آگیا۔ بسمہ کو اس کے پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔ مگر کچھ مختلف سی تھی شاید اتنی دیر باہر گھومنے پہ پسینے کی بھی مہک تھی۔ اتنے قریب اس کے جسم کی خوشبو سے اسے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہورہے تھے۔ ایک دم ہی حلق خشک ہوگیا۔ اس کی نظریں باسط کے جوتوں پہ تھیں۔

”یار سر تو اٹھاؤ۔ نیچے جوتے ہی دیکھتی رہو گی کیا؟ بسمہ۔“ اس نے آہستہ سے بسمہ کا ہاتھ پکڑا۔ بسمہ کواس گرفت میں اور اسلم کی گرفت میں کافی فرق لگا۔ باسط کی گرفت میں استحقاق تھا جیسے اسے پتا ہو کہ بسمہ ہاتھ نہیں چھڑوائے گی۔ مگر پھر بھی بسمہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔

”اؤ یار! منگیتر ہوں میں تمہارا، کیوں اتنا شرما رہی ہو۔ ایک مہینے بعد کیا کرو گی۔ تب بھی اجازت ملے گی یا نہیں؟“

”وہ تو نکاح کے بعد ہوگا نا“
”نکاح بھی تو ساتھ جینے کا اقرار ہے وہ تو ہم پہلے ہی کرچکے۔ زندگی آپ کے نام ہے میری جان“
باسط نے آہستہ سے اپنے ہونٹوں سے اس کا گال چھوا۔
بسمہ اس اچانک پیش رفت پہ گھبرا کے پیچھے ہوئی۔ اسے پتا نہیں کیوں بہت کراہت کا احساس ہورہا تھا۔
****۔ (جاری ہے ) ۔ ****

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےہاتھ میں موبائل: قربِ قیامت کی نشانی، بے حیائی یا ماڈرنزممنگیتر سے زبردستی، رومان، ہراسانی یا گناہ؟ قسط نمبر 9۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments