سائنس اور مذہب کا جھگڑا



سائنس کہتی ہے کہ 65 ملین سال پہلے اک سیارچہ زمین سے آ ٹکرایا جس کے نتیجے میں ڈائنو سارز کا وجود مٹ گیا اور ہماری زمین پہ سو سال کے لیے گرد چھا گئی۔ جس کی وجہ سے زمین کا ٹمپریچر گر گیا اور آئس ایج دور کا آغاز ہوا جب گرد چھٹی اور سورج کی روشنی زمین تک پہنچنا شروع ہوئی تو برف پگھلی جس سے سمندر اور دریا وجود میں آئے۔ پانی میں یک خلوی جاندار نے زندگی کا آغاز کیا۔

آج کئی ملین سال بعد زمین کو پھر ویسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ ڈائنو سارز کا خاتمہ کرنے والے سیارچے سے بھی بڑا سیارچہ زمین کے انتہائی قریب سے انیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گزرا۔

سائنس نے دو ماہ قبل ہی بتا دیا تھا کہ انتیس اپریل کے دن یہ سیارچہ زمین کے مدار کے بالکل نزدیک ہو گا اور اگر اس نے ذرا سا بھی رخ بدلا یا گریوٹی (کشش ثقل) نے اپنا کام دکھایا تو ہو سکتا ہے ہم اس پلانیٹ پہ آخری سانسیں لینے والے آخری انسان ہوں۔

انتیس اپریل کی رات جب ہم تراویح پڑھنے میں مشغول تھے یا سحری کر کے لیٹے تھے یا فجر کی عبادات میں مشغول تھے تب یہودی اور عیسائیوں کی نظروں کے حصار میں یہ سیارچہ بخیر و عافیت زمین کے قریب سے گزرتا ہوا دور نکل گیا۔

آج سائنس ہمیں دو ماہ قبل بتا دیتی ہے کہ فلاں تاریخ کو گھومتی وہئی زمین فلاں مقام پہ ہو گی فلاں سیارچہ اتنا قریب ہو گا لیکن ہم آج بھی قدآور دوربینیں چھت پہ لٹکا کے چاند کا فیصلہ کرتے ہیں اک ہی دن اک ہی ملک میں آدھے انسانوں کے لیے رمضان شروع ہو چکا ہوتا ہے آدھے انسانوں کے لیے نہیں۔ آدھے انسان عید منا رہے ہوتے ہیں آدھے روزے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کسی مجاہد نے اس پہ جہاد کرنے کا سوچا ہے کہ آخر کون ہے جو ہمیں عید کے دن بھی روزہ رکھوا کر خلاف شریعت کام کروا رہا ہے۔

ہمارے عالم دین کے نزدیک قرآن و حدیث کا مطلب صرف عبادات پہ زور دینا ہے۔ جہاں اک طرف یہودی و عیسائی قرآنی احکامات کے عین مطابق تدبر و تفکر تحقیق و تفتیش کی روشنی میں ایسی بیماریوں کا علاج ڈھونڈ چکے ہیں ماضی میں جن کی وجہ سے بڑے بڑے سورما فاتح عالم چل بسے۔ وہیں دوسری طرف ہمارے علما دین جنہوں نے ہم جیسے عام آدمیوں کو دین کی تشریح سمجھانی تھی وہ کورونا کو اعمال سے جوڑ رہے ہیں۔ دعاؤں میں علاج سمجھا رہے ہیں۔

پوری دنیا میں کعبہ و کلیسا مسجد و مندر بند ہیں کیونکہ ہمارے دین نے ہمیں بتا دیا تھا کہ علاج کرنا دین کے عین مطابق ہے سنت نبوی ہے۔ رزق و صحت ان دو معاملوں پہ ہمارے عالم دین کی رائے مجھ جیسے عام آدمی کے ذہن میں سوال پیدا کر رہی ہے۔ رزق کا وعدہ اللہ پاک کا ہے اس لیے حالات جیسے بھی ہوں لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو بطور مسلمان ہمیں اللہ تعالیٰ پہ یقین رکھنا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے نصیب کا رزق فراہم کرے گا۔ جب کہ ہمارے علما حکومتی لاک ڈاؤن کی مخالفت میں جتے ہیں۔

اب دوسرے معاملے صحت کی طرف آتے ہیں صحت کے حوالے سے دین ہمیں علاج کا حکم دیتا ہے۔ صرف دعاؤں سے علاج کا وعدہ اللہ پاک نے نہیں کیا بلکہ طب نبوی کی صورت میں ہمیں بتایا کہ علاج سنت رسول ہے۔ مگر یہاں ہمارے علما اللہ پہ یقین کا درس دیتے نظر آتے ہیں دعاؤں سے عوام کو کورونا سے بچاؤ کی گارنٹیاں دیتے نظر آتے ہیں۔

امید واثق ہے کہ وہی یہودی اور عیسائی جنہوں نے ماضی میں متعدد متعددی بیماریوں کا علاج ڈھونڈ کر انسانیت کو معدومیت کے خطرے سے باہر نکالا تھا جلد ہی اس کورونا کا علاج بھی ڈھونڈ لیں گے۔ مسجد و مندر کلیسا و کعبہ پھر عبادت گزاروں سے بھر جائیں گے لوگ سجدہ شکر بجا لائیں گے۔ مگر ہم کل بھی وہی کھڑے ہوں گے جہاں صدیوں سے کھڑے ہیں۔

میں دین کو غلط نہیں کہہ رہا میں کہہ ہی نہیں سکتا کیونکہ دین کی انسانیت کے لیے اپنی اک اہمیت ہے دین نے ہی انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھائی۔ آج بھی دین انسان کے لیے امید کا دوسرا نام ہے اگر ہم انسانوں سے یہ امید چھین لیں تو انسان کو انسانیت کے درجے سے نیچے گرنے میں ذرا بھی وقت نہیں لگے گا۔ انسان فطرتاً شر انگیز طبیعت رکھتا ہے دین نے انسان کو سیلف سینسر شپ عنایت کی ہے جس کی اہمیت ریتی دنیا تک قائم رہے گی۔ ادیان میں دین اسلام وہ دین ہے جس نے مافوق الفطرت دیو مالائی خداؤں کی داستانوں سے نکال کر انسان کو غور و فکر کرنا سکھایا۔

یہاں دین نہیں عالم دین کے کردار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ انگریز جب برصغیر پاک و ہند میں ریل کی پٹڑیاں بچھا رہے تھے ہمارے معصوم علما دین خطبات میں فرماتے کہ یہ لوہے کے پٹے باندھ کر انگریز ہماری خطہ اراضی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ جب ٹریکٹر نیا نیا آیا تو ہمارے علما کو اس میں ہماری زمینوں کو بنجر کرنے کی سازش نظر آئی۔ لاؤڈ سپیکر شیطان کا آلہ قرار پایا۔ کیمرہ آیا تو تصویر اور ویڈیو حرام قرار دی گئی۔ لیکن پھر انہی علما کو لاؤص سپیکر مسجد میں لگانا پڑا۔ اسی ریل پہ سفر کر کے دینی مجالس میں اکٹھے ہوتے۔ اسی کیمرے سے وعظ ریکارڈ کیے۔ صدیاں گزر گئیں دنیا بدل گئی مگر نہ بدلی تو ہمارے علما کی سوچ

آج پولیو کی ویکسین میں مسلمانوں کو بانجھ کرنے کی سازش کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آج کورونا کو ہمارے خلاف سازش قرار دیا جا رہا ہے یعنی یہودی و عیسائی جو خود سب سے زیادہ متاثر ہیں انہوں نے یہ خطرناک وائرس جان بوجھ کر ہوا میں چھوڑا۔ زلزلے ہوں یا سیلاب کورونا ہو یا کوئی اور قدرتی آفت ہمارے علما کو یہ عورتوں کی فحاشی کے نتیجے میں خدا کا عذاب قرار دینے کے علاوہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔

یعنی عورتوں کے گناہوں کا نتیجہ مرد بھگت رہے ہیں کیونکہ کورونا کے زیادہ شکار مرد حضرات ہیں۔ خدا کے عذاب میں مرنے والے یقیناً خطا کار ہوں گے مگر ہمارے علما ان کو شہید بھی قرار دیتے ہیں۔

اللہ پاک نے واضح طور پہ آگاہ کیا ہے کہ میں حقوق اللہ معاف کر دوں گا کیونکہ میں رحیم و کریم ہوں مگر میں حقوق العباد معاف نہیں کروں گا۔ یعنی بندوں سے بندوں کا معاملہ خدا کی نظر میں زیادہ اہم ہے نہ کہ عبادات مگر یہاں ہم سمجھتے ہیں کہ ملاوٹ کریں ناپ تول میں کمی کریں ذخیرہ اندوزی کریں ناجائز منافع خوری کریں یا منشیات بیچیں حج کر کے آئیں گے تو ایسے نئے نکور ہو جائیں گے گویا ابھی پیدا ہوئے ہوں۔

ہمارے علما کو وعظ کے موضوع کو بدلنا ہو گا. حوروں کی ٹانگوں کے درمیانی فاصلے کی اہمیت اپنی جگہ مگر تحقیق و تفکر زیادہ مفید ہے۔ عبادات سے اللہ یقنیناً خوش ہوتا ہے مگر انسانیت کی خدمت سے خدا آپ سے پیار کرتا ہے۔ وعظوں کو چاہیے کہ ہمیں اس اللہ سے ڈرانے کا کام بند کریں جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کا دعویٰ کرتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments