میسور کی جنگ سے جنگ آزادی تک


ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کہ اس مقصد کی راہ میں شہید ہو گیا۔ ٹیپو سلطان کی عظمت سے متعلق یہ تاریخی فقرے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس وقت کہے جب وہ ٹیپوسلطان کے مزار میں تین گھنٹے گزارنے کے بعد جب باہر نکلے تو ان کی آنکھیں شدت جذبات سے سرخ تھیں۔ سلطان فتح علی ٹیپو کے والد کا نام سلطان حیدر علی تھا۔ سلطان حیدر علی کا شمار جنوبی ہندوستان کے طاقتور حکمرانوں میں ہوتاتھا سلطان حیدر علی نے کم وبیش 50 سال تک انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا ناکام بناتے ہوئے ان کے حملوں کو روکے رکھا۔

اسی کے فرزند سلطان فتح علی ٹیپو 20 نومبر 1750 میں دیوانہالی، بنگلور میں پیدا ہوئے۔ 17 سال کی عمر میں والد کی طرف سے سفارت کاری اور فوجی امور پر آزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت دے دی۔ سلطان حیدر علی کے بعدمملکت خداداد میسور کے سلطان بنے اور 1799 میں جنوبی ہندوستان کا یہ بیدار مغز بہادر حکمران اپنوں کی سازشوں سے شکست کھاکر میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگا پٹم میں لڑی جارہی تھی میں انگریزوں کے ہاتھوں 4 مئی 1799 کو 49 سال کی عمر میں شہید کردیا گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے سوچا کہ ٹیپو سلطان کے بعد ان کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے ان کی یہ بات کسی حدتک درست بھی تھی۔ اس وقت ہندوستان کی اشرافیہ کی سب سے بڑی خواہش کمپنی سرکار سے بہتر تعلقات قائم کرنا تھی۔ بعض اوقات جنگ میں ہار یا جیت معنی نہیں رکھتی بلکہ بے خوفی سے لڑتے ہوئے جان دے دینا بھی لوگوں کے لئے مشعل راہ بن جاتا ہے۔ یہی کچھ میسور کی جنگ میں سلطان فتح علی ٹیپو کی شہادت کے بعد ہوا۔ ہندوستان کے متوسط طبقے اور مذہبی عناصر چاہے وہ مسلمان تھے یا ہندو میں انگریزوں کے خلاف نفرت اب عملی طورپر بغاوت میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی تھی۔

1799 سے 1857 تک اگر ہندوستان کے عمومی حالات کا جائزہ لیا جائے تو انگریزوں کے خلاف عوامی سطح پر مذاحمت کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھتی گئی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں بغاوتیں جنم لیتی رہیں اور انگریز ان پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ بغاوتیں کیوں کامیاب ناہوسکیں تو اس کی بنیادی طورپر دووجوہات تھیں ایک تو محلاتی سازشوں کی وجہ سے مغل بادشاہوں کا کمزور اقتدار اور دوسرا ان انفرادی بغاوتوں کا ایک قومی سطح کی جدوجہد میں تبدیل نا ہوناہے۔

ٹیپوسلطان کی بغاوت کے محض ایک سال بعد 1800 میں ڈھونڈیا واگ کی بغاوت ہوئی، 1801 میں ضلع گنجام میں شورش ہوئی، 1802 میں مالابار، ویلور (مدراس) میں شروع ہونے والی بغاوت 14 سال تک جاری رہی۔ 1803 تا 1805 میں بندھیل کھنڈ میں مختلف بغاوتوں نے جنم لیا۔ 1812 میں بریلی میں بغاوت ہوئی اور 1813 میں سہارنپورکے گوجروں نے بغاوت کی۔ 1817 میں اڑیسہ پائکوں کی بغاوت، 1824 کو بیجا پور میں بغاوت ہوئی۔ 1830 تا 1839 تک آسام میں مختلف بغاوتیں ہوئی۔

1832 تا 1836 تک ساونت وادی کی بغاوتیں اور 1842 میں ساگر کی بغاوت جبکہ 1844 میں کولہاپور کی بغاوت نے جنم لیا۔ 1849 میں ناگاؤں کی بغاوت اور 1855 میں سنتھالوں کی بغاوت رونما ہوئی مگر ان تمام بغاوتوں میں سے کوئی بغاوت اس لئے کامیاب نا ہوسکی کہ ایک تو ان میں مرکزیت میں کمی تھی اور علاقائی سطح پر ہونے والی بغاوتوں میں جذبہ حب الوطنی تو تھا مگر منظم دشمن کے خلاف لڑنے کا کوئی لائحہ عمل نہیں تھا۔ تاہم انگریز مورخوں نے بھی ان بغاوتوں اورہندوستانیوں کے جذبے کی تعریف کی۔ اور ان بغاوتوں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شعوری طورپر انگریزوں کے تسلط کے خلاف ایک نفرت کا بیج بو دیا گیا۔

ہندوستان کم وبیش پچاس سے زائد مدت تک محتلف بغاوتوں کے زیر اثر انتشار کا شکار رہا۔ عوام معاشی بدحالی کا شکار ہوتے گئے۔ انگریزوں کے خلاف مل کرجدوجہد کرنے و الے ہندو اور مسلمانوں میں انگریزوں نے نفرت کا بیج بودیا۔ ہندوستانیوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کے فارمولے نے انگریزوں کے تخت دہلی پر قبضے کی راہ ہموار کردی۔ تاہم بدترین انتشار، معاشی مشکلات اور محلاتی سازشوں کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد تخت دہلی کی کامیابی کے لئے عملی طورپر جدوجہد کررہی تھی۔

عوام اپنے بادشاہ کے ساتھ تھے ایسا پہلی بار تھاکہ کسی بادشاہ کو اپنا تخت بچانے کی جدوجہد خود نہیں کرنی پڑرہی تھی بلکہ عوام بادشاہ کا تخت بچانا چاہتی تھی۔ مگر حکمران کمزور اور نا اہل ثابت ہوئے۔ 1857 میں جب انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز ہوا تو مغلوں کے پاس ایک لاکھ سے زائد جمع ہونے والے مجاہدین کو دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ غربت، افلاس اور بھوک سے تنگ آکر مجاہدین جنگ کو چھوڑنے لگے اور سقوط دہلی کے وقت یہ تعدادکم ہوکر محض دس ہزار ہو چکی تھی۔

1857 کی جنگ آزادی ناکام ہوگئی اوراس کے بعد ہندوستان میں وہی کچھ ہوا جو ایک فاتح اپنے مفتوحہ علاقوں کے ساتھ کرتا ہے۔ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرلیا گیا۔ شہزادوں کے سرقلم کرکے بادشاہ کے سامنے پیش کیے گئے۔ دلی ایک بارپھر اجڑ گئی اور لکھنو کے بازار اور گلیاں خون سے سرخ ہوگئے۔ چھوٹے بڑے شہروں میں پھانسی گھاٹ لگائے گئے اور لوگوں کو بے دردی سے پھانسیاں دے دی گئیں۔ دہلی کے راج گھاٹ میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ گوڑگاؤں، جھجر، بلب گڑھ، کرنال، کانپور، جھانسی، مراد آباد، بریلی اور شمالی ہندوستان میں ظلم وبربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔

آزاد ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کی غلامی میں چلا گیا۔ اپنی قوم اور مٹی سے غداری کرنے والے نوازے جانے لگے ان کو خطابات دے دیے گے مگر تاریخ میں آج بھی ٹیپو سلطان، اودھ اور روہیل کھنڈ کے جانباز، بہارکے 80 سالہ بوڑھے کنور سنگھ، رانی جھانسی، حضرت محل، دیوان منی رام دت، بریلی کے خان بہادر خان، عظیم اللہ خان، جنرل بخت خان اور دہلی کی جون آف آرک ایک بڑھیا جو آخر وقت تک جہاد کرتے ہوئے زخمی ہوکر گرفتار ہوگئی ہماری شاندار تاریخ کے وہ عظیم کردار ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments