کورونا بحران: سرکاری حکمت عملی اور شفافیت پر سپریم کورٹ کے سوال


وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر ملک میں حالات معمول پر لانے، بتدریج لاک ڈاؤن ختم کرنے اور ان کے بقول لوگوں کے دل سے کورونا کا خوف ختم کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ آج ہی سپریم کورٹ نے کورونا وائرس کے حوالے سے سوموٹو کے تحت قائم مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ملک میں اس وقت کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کا سامنا کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بنچ نے اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے وفاق اور سندھ حکومت کو ایک ہفتہ کے اندر کوئی متفقہ اور ٹھوس پالیسی بنانے کی ہدایت کی ہے بصورت دیگر عدالت عظمیٰ نے خود کوئی حکم جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ سے کوئی حکم جاری ہونے کے بعد کیسے ملک میں کسی معاملہ پر یک جہتی پیدا ہوسکے گی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت عظمیٰ کے ججوں سے استدعا کی کہ ’وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں اور انہیں پارلیمنٹ میں طے ہونے دیں۔ حکومت معاملات کو باہمی افہام و تفہیم سے طے کرنے کی کوشش کررہی ہے‘۔ اس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو یقین دلایا کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ البتہ اس موقع پر بنچ میں شامل جسٹس قاضی محمد امین نے سوال کیا کہ ’ اگر لوگ مررہے ہوں تو کیاسوال اٹھانا عدالت کا آئینی استحقاق نہیں ہے؟‘ اگرچہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ ملک میں کورونا سے متاثرین کی دیکھ بھال اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کے لئے کافی وسائل موجود ہیں۔ تاہم عدالت نے اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ آج کی سماعت کے دوران عدالت عظمی کی طرف سے نہ صرف موجودہ بحران میں بے عملی اور کوئی واضح لائحہ عمل نہ ہونے کی شکایت کی گئی بلکہ احساس پروگرام کی شفافیت پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ اس بارے میں چیف جسٹس گزشتہ سماعت کے دوران بھی شبہات کا اظہار کرچکے ہیں۔

حکومت کے اسی احساس پروگرام کے بارے میں وزیر اعظم تقریباً روزانہ کی بنیاد پر یقین دلاتے ہیں کہ اس کے تحت حکومت نہایت ایمانداری سے مستحق لوگوں کو نقد رقوم اور دیگر سہولتیں بہم پہنچا رہی ہے۔ تاہم ججوں کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے نمائیندوں کے ذرریعے اس پروگرام کی شفافیت کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد عدالت میں پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ عمران خان اور ان کی حکومت کا سیاسی مقدمہ دیانت داری اور شفافیت پر کھڑا ہے۔ عمران خان نے سابقہ حکمرانوں کو چور اچکے قرار دیتے ہوئے ملک میں کسی بھی قسم کی سیاسی مفاہمت کا ہر راستہ رو کا ہے۔ ایک ایسی حکومت کے سب سے بڑے خیراتی پروگرام کے بارے میں سپریم کورٹ میں اٹھائے گئے سوالات خواہ ریمارکس کی صورت میں ہی سامنے آئے ہوں لیکن وہ موجودہ ’دیانت دار‘ حکومت کے دامن پر بدنما دھبے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حیرت ہے کہ ایماندار لیڈر کی قیادت میں دیانت دار معاشرہ استوار کرنے کے خواہاں عمران خان ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کی طرف سے اپنی حکومت کی شفافیت کے بارے میں شبہات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انہیں جان لینا چاہئے کہ اس حکمت عملی سے شاید سپریم کورٹ کے جج تو ریمارکس دے کر یا آڈٹ کروانے اور رپورٹیں طلب کرنے کا حکم دے کر خاموش ہوجائیں گے لیکن یہ شبہات عمران خان کی سیاسی شہرت کو داغدار کریں گے۔ بطور وزیر اعظم وہ مخالفین کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دیانت داری کا جو علم بلند کرتے ہیں، آنے والے کل میں کسی بھی سیاسی مقابلہ میں  ان کے انہی دعوؤں کو دیانتداری کی میزان پر  جانچا جائے گا۔ اور پوچھا جائے گا کہ دیانت دار وزیر اعظم اپنے زیر نگرانی کام کرنے والے نظام میں کیوں شفافیت کا اہتمام کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا تھا۔

سپریم کورٹ میں آج جو باتیں سامنے آئی ہیں، ان سطور میں اکثر ان کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ وزیر اعظم سے دست بستہ گزارش کی جاتی رہی ہے کہ وہ بحران کی موجودہ صورت حال میں بدعنوانی کا مقدمہ از سر نو زندہ کرنے کی بجائے، قومی سطح پر افہام و تفہیم اور یک جہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ آج سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی اسی بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملکی معاملات میں مصالحت اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی بجائے، ذاتی انا اور گھمنڈ حاوی دکھائی دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کوئی واضح پالیسی بنانے اور اسے نافذ کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے حکومت کو صورت حال بہتر کرنے کے لئے ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے لیکن وزیر اعظم ملکی معاملات میں جس طرح کم فہمی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور جو طرز عمل اختیار کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں باور نہیں ہوتا کہ موجودہ حالت میں کوئی مثبت تبدیلی آسکے گی۔

عمران خان کی کورونا پالیسی اس قیاس پر استوار ہے کہ دو چار ہفتے میں حالات درست ہوجائیں گے اور لوگ کورونا کو بھول کر ان باتوں کو یاد رکھیں گے جو وہ ایک ایسے وقت میں غریبوں کی ہمدردی میں کرتے رہے ہیں جب ملک میں مکمل لاک ڈاؤن، سماجی دوری نافذ کرنے اور احتیاط برتنے کے بارے میں قومی شعور پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم خود اپنی اس ناکامی کا احساس نہ کر سکے ہوں کہ انہوں نے ملک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے دوران مسلسل اس کے خلاف بات کی ہے۔ کبھی اسے اشرافیہ کا فیصلہ قرار دیا اور کبھی لاک ڈاؤن کو غریبوں کے لئے موت کا پروانہ بتایا۔ اس المیہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عمران خان کے اس جوشیلے انداز گفتگو کا نشانہ سندھ حکومت کے اقدامات اور مراد علی شاہ کی طرف سے لاک ڈاؤن سخت کرنے کی دردمندانہ اپیلیں تھیں تاکہ عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق کورونا کے پھیلاؤ کو اس کا سرکل توڑ کر روکا جا سکے۔ اس انداز گفتگو سے وزیر اعظم اور ان کے ساتھی سندھ حکومت کے مقابلے میں خود کو زیادہ عوام دوست بتانے میں تو ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن لاک ڈاؤن کی ضرورت، سماجی دوری کی اہمیت اور کورونا وائرس پھیلنے کے خطرناک طریقے کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا نہیں ہو سکی۔

اس طرز عمل اور انداز گفتگو کی سب سے بڑی وجہ وہی رہی ہے جس کی طرف آج عدالت عظمی کے ججوں نے بھی اشارہ کیا ہے کہ کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اور واضح پالیسی نہیں بنائی جا سکی اور حکومت چندہ جمع کرنے اور لوگوں میں روپے بانٹنے کو ہی کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے بڑا کارنامہ سمجھتی رہی ہے۔ کورونا بحران سے پہلے بھی تحریک انصاف کی عمومی ناقص گورننس اور سیاسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے متعدد معاشی و سیاسی مسائل موجود تھے لیکن کورونا پھیلنے کے بعد بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنا طریقہ بدلنے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لئے وزیر اعظم کبھی لوگوں کو چندہ دینے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک روپے کے بدلے حکومت کی طرف سے چار روپے جمع کروانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی عالمی اداروں اور امیر ملکوں کو غریب ممالک (یعنی پاکستان ) کی زیادہ سے زیادہ امداد کرنے کی اپیل کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے ان بیانات کی بنیاد پر وزارت خارجہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ موجودہ عالمی معاشی بحران میں وزیر اعظم کے بیانات کو عظیم سفارتی کامیابی قرار دینے کا کام کرے۔

اس بحران میں وزیر اعظم دو باتیں سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ سربراہ حکومت کا کام چندہ جمع کرنا یا امداد کی دہائی دینا نہیں ہوتا بلکہ قیادت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کورونا وائرس کوئی عبوری بحران نہیں ہے۔ دنیا کو اس وقت تک اس وبا سے خطرہ لاحق رہے گا اور اپنے لوگوں کی زندگیاں محفوظ رکھنے کے لئے کسی نہ کسی طرح احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا، جب تک کوئی ویکسین تیار ہو کر عوام کی قوت مدافعت کو مستحکم کرنے کے لئے فراہم نہیں ہو جاتی۔ ایسی ویکسین کی تیاری اور دستیابی میں ایک سے دو سال کی مدت درکار ہے۔

دنیا کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے دو سال کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور عوام کو سماجی دوری کو مستقل طور سے اختیار کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت پاکستانی حکومت اور وزیر اعظم معاشی تعطل اور غریبوں کی مشکلات کو سیاسی پوائینٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے سوال کیا ہے کہ مساجد کھولنے اور دکانوں کو بند رکھنے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ کیا حکومت صرف دباؤ ڈالنے والوں کے حق میں فیصلے کرتی ہے؟

کوئی بھی ملک کورونا جیسی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی معاشی و سماجی مشکلات کو سیاسی تقسیم اور نعرے بازی کے ذریعے حل نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں پہلے ہی افتراق اور سیاسی عدم اعتماد کا سنگین ماحول موجود تھا۔ بدقسمتی سے عمران خان کورونا بحران میں موقع ملنے کے باوجود فاصلوں کو کم کرنے کی بجائے، دوریاں بڑھانے اور نفرتوں میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ اب عام لوگوں، سیاسی کارکنوں کے علاوہ سپریم کورٹ بھی یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments