بلوچ والدین اپنے بچے سکول بھیجنا بند کر دیں


کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کے بچے کی جان بچ جائے گی، کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے کالے شیشوں والی وگو اٹھا کر نہیں لے جائے گی۔

یہ نہیں کہا جا سکتا ہے وہ پہاڑوں پر چڑھ کر ریاست کو نشانہ نہیں بنائے گا اور ایسا کر کے اپنے پہاڑوں پر چڑھنے والے بھائیوں کی زندگی کے عذابوں میں اضافہ نہیں کرے گا۔

لیکن اپنی اولاد کے لیے انسان سب کچھ کرتا ہے تو کیا وہ وقت آ گیا ہے کہ بلوچ والدین اپنے بچوں خاص طور پر بیٹوں کو کالج یونیورسٹی بھیجنے سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ اس کا نتیجہ کتنا بھیانک ہو سکتا ہے۔

ایک بلوچ سیانے نے ایک دفعہ جمع تفریق کر کے بتایا تھا کہ جو بلوچ نوجوان کالج یا یونیورسٹی تک پہنچ گیا، اس کی طبعی عمر باقی پاکستانی نوجوانوں کے مقابلے میں نصف رہ جاتی ہے۔

آج سے آٹھ سال پہلے مجھے کوئٹہ کے ایک پرانے دوست اور پاکستان پرست دانشور نے کہا تھا کہ بیٹا ہائی سکول ختم کرنے والا ہے، اسے یہاں سے نکالنا ہے کیونکہ اگر وہ کالج یا یونیورسٹی بلوچستان میں گیا تو چاہے وہ کوئی سیاسی کام کرے یا نہ کرے ،امکان ہیں کہ وہ ایک دن غائب کر دیا جائے گا اور میں باقی زندگی یا تو ماما قدیر کے مسنگ پرسنز والے کیمپ میں گزاروں گا یا اسلام آباد میں اپنے پرانے دوستوں کو یہ یاد کروانے میں کہ میرا خون وطن دشمن کیسے ہو سکتا ہے۔

ایسے ہی بہت سے اور بلوچ والدین بھی ہیں جن کے پاس خوش قسمتی سے یا کچھ وسائل ہیں کہ وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بلوچستان سے باہر یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں کہ وہ علیحدگی پسندوں کی سوچ سے متاثر نہ ہو جائیں یا کچھ نہ بھی کریں کینٹین میں کسی سیاسی سوچ والے کے ساتھ بیٹھ کر چائے ہی پی لیں اور پھر والدین ساری عمر انتظار کریں کہ بیٹا کالج پڑھنے گیا تھا اتنے سال سے نہیں لوٹا۔

کوئٹہ سے سب سے زیادہ دور اور محفوظ جگہ کون سی ہے۔ اسلام آباد اور وہاں پر ایک محفوظ تر تعلیمی ادارہ کون سا ہو سکتا ہے؟ قائداعظم یونیورسٹی۔

بلوچستان سے دو طالب علم وہاں بھیجے گئے تھے۔ ایسے ہی والدین نے بھیجے ہوں گے جو اپنے بچوں کی جان بھی بچانا چاہتے تھے اور انھیں تعلیم بھی دینا چاہتے تھے۔

شہداد بلوچ اور احسان بلوچ نے اپنے ایم اے قائد اعظم یونیورسٹی سے کیے، گھر کو لوٹے، گذشتہ ہفتے قلات میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیے گئے۔

اسلام آباد کی تربیت، جینڈر سٹڈیز کی ڈگری کچھ کام نہیں آئی۔ میڈیا میں یہ پوچھنا تو دور کی بات کہ کب، کیوں اور کیسے، ان کے نام کا ذکر بھی نہیں آیا۔

ہمیں ہمیشہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ ناخواندگی ہے۔ مجھے شک سا ہو چلا ہے کہ بلوچستان کا اصل مسئلہ تعلیم ہے چاہے وہ تعلیم کسی طلبا تنظیم کے سٹڈی سرکل میں ہو۔

چاہے وہ تعلیم دین اسلام کی ہو (پروفیسر صبا دشتیاری) اسلامیات پڑھاتے تھے، ان کے قاتلوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) چاہے وہ تعلیم بلوچستان سے دور اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں حاصل کی جائے جس کا نام بھی بانی پاکستان کے نام پر رکھا گیا ہو۔ سبجیکٹ بھی کوئی پڑھ لیں۔ جینڈر سٹڈیز میں میں ایم اے کر کے پہلے کتنے پاکستانی دہشتگرد بنے ہیں؟

لیکن اب لگتا ہے کہ اگر آپ بلوچ ہیں اور تھوڑا بہت پڑھ لکھ گئے ہیں تو سمجھیں آپ کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔

گذشتہ ہفتے ہی سویڈن میں غائب ہو جانے والے ہمارے ساتھی اور دوست صحافی ساجد حسین کی لاش ایک دریا سے ملی ہے۔ یہ تو سویڈن کی پولیس ہی تحقیق کر کے بتائے گی کہ یہ ایک حادثہ تھا یا قتل لیکن مجھے ابھی سے لگ رہا ہے کہ اسکی موت کی بنیادی وجہ تعلیم تھی جو اس کے والدین نے اسے بہت شوق سے دلائی تھی۔

اور اس نے بھی اتنا دل لگا کر پڑھا کہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ کبھی کسی کتاب سے سر اٹھا کر دوسرے والدین کو نصحیت کرتا تھا کہ بچوں کو اس علیحدگی پسندی کی آگ سے بچاؤ، انھیں پڑھاؤ۔

اب ساجد حسین چونکہ خود پڑھتے پڑھتے ایک داستان سے بن گئے تو کس سے پوچھوں کہ ساجد بھائی یہ شہداد اور احسان کو تو جتنا دور پڑھا سکتے تھے پڑھا دیا تھا، اب کیا کریں۔

اور جو بلوچ کارکن میڈیا سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ انکی خبر کیوں نہیں چلاتا تو بھائیو اتنے بھولے بھی نہ بنو۔ جمیل احمد نے سنہ 50 کی دہائی میں بلوچستان میں سرکاری نوکری شروع کی، چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے اور آج سے 45 برس قبل لکھی جانے والی کتاب # دی وینڈرنگ فالکن‘ میں وہ بلوچستان اور میڈیا کے بارے میں لکھتے ہیں۔

بلوچوں کے بارے میں، ان کے مقاصد کے بارے میں، ان کی زندگی اور موت کے بارے میں مکمل خاموشی تھی۔ کوئی ایڈیٹر ان کی بات کر کے سزا نہیں پانا چاہتا تھا۔ پاکستانی صحافی اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لیے جنوبی افریقہ، فلسطین اور فلپائن میں ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں لیکن کبھی اپنے لوگوں پر ہونے والے مظالم کا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).