محمد بن قاسم اور لڑکی کا خط


ہم نے تاریخ وغیرہ کی الگ سے تو کوئی کتابیں نہیں پڑھیں، لیکن معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان میں اتنی تاریخ بہرحال ہم نے پڑھی ہے کہ ہمیں علم ہے محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیوں کیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ سراندیپ میں مسلمان اور عرب تاجر رہتے تھے۔ سراندیپ کے راجہ نے حجاج کے پاس بہت سے ہیرے جواہرات، حبشی غلام اور خوبصورت لونڈیاں تحفے میں بھیجیں۔ انہیں جہازوں پر کچھ مسلمان عورتیں بھی سوار ہو گئیں کہ چلو ہم مکہ مدینہ بھی دیکھ لیں گے اور دارالخلافہ دمشق بھی۔ جہاز طوفان میں پھنسے تو انہیں قزاقوں نے لوٹ لیا۔ مال تو کہیں بیچ کھایا ہو گا، مگر مردوں، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا اور کہا کہ تمہارا کوئی والی وارث ہے تو اس کے توسط سے خود کو خرید لو۔

اب یہ قزاق کچھ کنفیوز سے تھے، بجائے کہ ان قیدیوں کو غلام بنا کر بیچ ڈالتے اور دام کھرے کرتے، قزاقوں نے انہیں راجہ داہر کی سرکاری جیل میں ڈال دیا اور انتظار کرنے لگے کہ شاید کوئی انہیں پیسہ دے کر خرید لے۔ یعنی بجائے اس کے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق انہیں اچھی طرح رکھ کر موٹا تازہ کرتے، بچوں اور لڑکیوں کو مختلف ہنروں میں طاق کرتے، وہ غلاموں کی تجارت سے پیسہ بناتے، انہیں جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا کہ سڑو یہاں اور سرکار پر کھانے پینے کا بوجھ بنو۔

بہرحال جو بھی ہو، یہ تو ظاہر ہے کہ سندھ میں ان کا کوئی دوست یار نہیں تھا۔ اس زمانے میں قید خانے آج کل کی طرح نہیں ہوتے تھے، کال کوٹھڑیاں ہوتی تھیں جن میں قیدی کو ڈال کر بھول جاتے تھے۔ لیکن کیونکہ سندھ میں عرب لشکر پہنچنا مقدر ہو چکا تھا اس لیے ادھر بھی ایک قیدی لڑکی کو کاغذ قلم مل گیا اور اس نے نا صرف ایک خط لکھا بلکہ اسے اوورسیز میل کے ذریعے عراق میں بنو امیہ کے مشہور گورنر حجاج بن یوسف کو بھجوا بھی دیا۔ چچ نامہ کی روایت میں خط کا ذکر نہیں بلکہ لکھا ہے کہ ایک عورت نے چیخ کر کہا کہ ”اے حجاج، اے حجاج! میری مدد کو پہنچ“ ۔ یہ سنتے ہی حجاج نے کہا ”لبیک، لبیک“ ۔ یعنی میں آیا میں آیا۔

حجاج بن یوسف ایک نہایت قابل منتظم اور جرنیل تھا۔ اس نے پہلے تو بنو امیہ کے عرب مخالفین کو چن چن کر تہ تیغ کیا، جن میں عبداللہ بن زبیر جیسے طاقتور مخالف کا خاتمہ بھی شامل تھا۔ اس فتح کے حصول کے لیے حجاج نے خانہ کعبہ پر بھی منجنیق سے پتھر پھینکے۔ اس کے بعد اس نے سینٹرل ایشیا میں چین تک فتوحات حاصل کیں اور ان علاقوں کو مسلم سلطنت میں شامل کیا۔

بہرحال اسے جب لڑکی کا خط ملا یا چیخ سنی، تو اس نے لشکر بھیجے۔ شروع کے چند لشکروں کو تو شکست ہوئی لیکن پھر اس کا بھتیجا محمد بن قاسم، دیبل فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں اس نے قیدیوں کو رہا کیا۔ مندر میں سات سو خوبصورت دیوداسیاں موجود تھیں جنہوں نے اس قدر زیور پہن رکھا تھا کہ محمد بن قاسم کے چار ہزار فوجیوں کو ان کا زیور اتارنا پڑا۔ بعض روایات کے مطابق چار ہزار بندے نہیں تھے، چار سو تھے۔ مال غنیمت میں دیبل کے راجہ کی دو لڑکیاں بھی شامل تھیں جنہیں محمد بن قاسم نے غالباً یہ سوچ کر حجاج کو بھیج دیا کہ کہیں انہوں نے بھی مدد کی درخواست نا بھیج رکھی ہو۔

سندھ کے راجہ داہر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ صرف راؤڑ کے قلعے کی فتح کے بعد اس نے تیس ہزار غلاموں اور کنیزوں کو خلیفہ کے پاس بھیجا، جن میں تیس راجاؤں کی بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ غالباً یہی سوچ کر بھیجا ہو گا کہ خلیفہ خود تحقیق کر لے کہ ان میں سے کس لڑکی نے خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ اس کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ دوسری کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کیونکہ ہماری پڑھی ہوئی تاریخ کے مطابق محمد بن قاسم کسی لڑکی کی آزادی چھنتے دیکھ کر بے قرار ہو جاتا تھا۔ بہرحال خلیفہ ولید کچھ تحقیق نہیں کر پایا ہو گا اس لیے اس نے ان شہزادیوں کو مارکیٹ میں فروخت کر دیا اور بعض کو انعام میں بخش دیا گیا۔

ایک روایت کے مطابق راجہ داہر کی دو بیٹیوں کو بھی کنیز بنا کر خلیفہ ولید کو بھیجا گیا تھا جنہوں نے محمد بن قاسم پر جھوٹا الزام لگوا کر اسے خلیفہ سے قتل کروا دیا۔

اس معاملے کا حال چچ نامہ نامی تاریخ میں مذکور ہے۔ روایات کے مطابق یہ کتاب قاضی محمد اسماعیل بن علی کی تالیف ہے، جن کے دادا موسیٰ بن یعقوب ثقفی کو سندھ کی فتح کے بعد محمد بن قاسم کی طرف سے اروڑ کے قاضی مقرر کیے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کتاب میں ویسے ہی دلیری سے سرکاری موقف بیان کیا گیا ہو گا جیسے آج کل بھی وزیر اطلاعات کرتے ہیں۔ بہرحال چچ نامہ اس فتح کے بیان کا واحد تاریخی ماخذ ہے۔

یہ تو خیر ہم خوب اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم نے ایک لڑکی کے خط کے جواب میں مجبوراً حملہ کر کے اسے بنو امیہ کی سلطنت میں شامل کیا تھا۔ سپین کا معاملہ بھی ایک لڑکی کا ہی بتایا جاتا ہے کہ ادھر کاؤنٹ جولین نامی ایک نواب کی لڑکی کو سپین کے بادشاہ راڈرک نے کچھ کر دیا تھا۔ لیکن ہم کنفیوز بیٹھے ہیں کہ موجودہ افغانستان، تاجکستان، خراسان، ازبکستان اور نا جانے وسطی ایشیا کے کس کس ستان پر حجاج بن یوسف نے کیوں حملہ کیا تھا؟

کیا ادھر بھی لڑکیاں حجاج کو کچھ پیام بھیج رہی تھیں یا کسی اور مظلوم نے خط لکھ کر حجاج کو بلایا تھا؟ یا ممکن ہے کہ سندھ، ماورا النہر، افریقہ اور سپین پر امویوں کے حملے کی کوئی دوسری وجہ ہو، خط کا قصہ محض ایک داستان ہو۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments