کورونا: مفروضے اور حقائق


کورونا کے خوف نے جتنی تیزی اور شدت سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر جکڑ لیا ہے اس نے دنیا، انسان اور زمین کے مستقبل پر کئی طرح کے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ پوری دنیا سازشی تھیوریز کی زد میں ہے۔ فائیو جی، بل گیٹس اور انسانوں کے جسموں میں نصب ہونے والی چپ کے ہر سو چرچے ہیں تو امریکہ اور چین جیسے ہاتھیوں کی عالمی جنگ کا ذکر بھی زبان زد عام ہے اور یہ سازشی تھیوریز سچی ہیں یا جھوٹی، ایک بات سچ ہے کہ ان کی آواز ایشیا، عرب، یورپ اور امریکہ تک سنی جا رہی ہے۔ اور یقینی طور پر اس کی بنیاد وہ زمینی حقائق ہیں جو پوری طرح سے ایک نا سمجھ میں آنے والی صورتحال کو جنم دیتے ہیں۔ کورونا کے تماتر حقائق کو زمینی صورتحال کے مقابل رکھیں تو خاصا مشکوک منظرنامہ سامنے آتا ہے

اگر ہم پچھلے دو سے تین ماہ میں نظر ڈالیں تو دنیا کی اکثریت لاک ڈاؤن کا شکار رہی ہے یا ابھی بھی ہے۔ ٹریفک، فلائٹس، گھروں سے نکلنا دنیا کے تقریباً ہر کونے میں جامد ہو کر رہ گیا ہے۔ آسمان پر جہاز نہیں اڑ رہے، لوگ سرحدوں سے پار آ جا نہیں پا رہے، اور جہاں جہاں موجود ہیں وہاں وہاں کمروں کے اندر، گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ آخر دنیا میں، آسمانوں میں، ذمینوں پر ایسا کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کے لئے ساری دنیا کو اندر دھکیلنا یا نظر بند کرنا بہت ضروری تھا۔ آج کے زمانے، سمارٹ ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے کسی بھی انسان کے لئے یہ حالات شک و شبہ سے بالاتر نہیں۔

کورونا وائرس کے وجود، اس کی اہمیت، علامتوں، علاج اور نتائج پر غور کریں تو کورونا سے وابستہ علامات میں زکام، کھانسی بخار شامل ہیں اور یہ وہ علامات ہیں جن سے موجودہ دور پہلے سے ہی بے تحاشا بھرا ہوا ہے۔ ایک عام انسان جس کا میڈیکل سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں یا جس کی تعلیم بھی کمتر یا نہ ہونے کے برابر ہے کے زکام کھانسی کو کسی بھی وقت نیا نام دے کر جس مرضی نئی بیماری کو جنم دے دیا جائے۔ یعنی بیماری وہی رہے، علاج بھی وہی بس اعصابی تناؤ میں اس خطرناک نام اور اس کے نتائج کا خوف شامل ہو جائے۔

اگر یہ ایک بڑی سازش ہے تو بڑی ہی کامیاب سازش ہے اور اگر یہ وائرس جنگی ہتھیار ہے تو شاید یہ وائرس بھی نفسیاتی دباؤ کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔ کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے تقریباً ہر کوئی اکثر و بیشتر ان وائرل بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔ اس لئے ان علامات اور اس کے خوف کو دنوں میں پوری دنیا کے عوام میں پھیلانا بہت آسان ہو گیا۔ اگر جو کوئی کینسر یا ایڈز جیسی بیماری کا نام لیا جاتا تو ہر جگہ اس کی علامات دکھانا ایک مشکل امر تھا۔

مگر اب یہ حالات ہیں کہ ادھر کسی کو چھینک آئی نہیں اور ادھر سے اس کو کورونا کا خوف لاحق ہو گیا۔ آج کی دنیا میں کون سا ایسا شخص ہے جسے روزانہ کسی نہ کسی وقت چھینک نہیں آتی؟ اور کہا جاتا ہے کہ اکثر اس کا علاج ایک آئبوپروفین سے ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی کو زکام کھانسی کے ساتھ بخار ہو اور وہ ایک دو گولی کھا کر صحت مند ہو جائے تو اسے یہ کہنا کسقدر آسان ہے کہ آپ کو کورونا تھا۔ اتنا غیر معمولی وائرس اور اتنی عام علامات؟

میڈیا کا اہم کردارجو صبح و شام اس خوف کو حقیقت بنا کر ہم پر طاری کر رہا ہے۔ میڈیا جو ایک کمرے میں بیٹھ کر ٹائٹینک کو ڈبوتا دکھا سکتا ہے، قیامت کا منظر پیش کر سکتا ہے اس کے جادو سے کس کو انکار ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے پوری دنیا کو امریکہ ڈوبتا ہوا، زلزلے سے ٹوٹتا ہوا، بجلیاں گرنے سے جلتا ہوا یا ہزاروں لاشیں دفناتا ہوا دکھایا جا سکتا ہے۔ ہالی وڈ کے کھلاڑیوں سے کوئی بھی ڈرامہ دنیا کی سٹیج پر پیش کر دینا سمجھ سے بالاتر نہیں۔

اور ایک بڑی دنیا کے پاس سچ جھوٹ کو جانچنے کے کوئی بہتر ریسورسز موجود نہیں۔ جو لوگ مر رہے وہ کس چیز سے مر رہے ہیں؟ جو لاشیں دفنائی جا رہیں، کیا اصلی لاشیں ہیں؟ ، کیا دفن ہونے والے واقعتاً کورونا نامی سے بیماری سے مر رہے ہیں؟ یہ جانچ پڑتال محض چند بڑی طاقتوں کے اور کسی کے بس میں نہیں۔ ہمارے تماتر ریسورسز انٹرنیٹ پر چھپنے والے اخبارات، رسالے اور ویب سائٹس کے ذریعے مہیا کیا گیا مواد ہے۔ کون جانے زمین پر اس کا وجود ہے بھی یا نہیں، انٹرنیٹ بڑے ہاتھیوں کا، ویب سائٹس ان کی، رپورٹس ان کی، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ آپ کالے کو گورا اور گورے کو کالا لکھ دئیں آپ کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ اور وہ طاقتیں کیا کر رہی یا کیا کرنا چاہ رہی ہیں، یقیناً اس کے لئے غریب، حقیر، اور مسکین دنیا کے سامنے جوابدہ نہیں۔

یہ سچ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، چین یا چند مزید ترقی یافتہ ممالک کے سوا کسی ملک کے پاس ایسے سیٹلائیٹس نہیں جو دنیا بھر کی نقل و حمل کو اپنے گھر بیٹھے جانچ سکے اور سچ جھوٹ میں فرق معلوم کر سکیں۔ اس لئے دنیا بھر کا میڈیا معلومات کے لئے اس وقت چند بڑے انٹرنیشنل چینلز پر توکل کر رہا ہے۔ کمروں میں بیٹھے انٹرنیٹ اور کالز پر معلومات اکٹھی کی جا رہی ہے جو ان کے رپورٹر دوسرے ملک کے لاک ڈاؤن میں بیٹھے رپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ٹیکنالوجی میں کمال رکھنے والی قوتیں کیا کیا کارنامے دکھا سکتی ہیں یا دکھا رہی ہیں یہ یقیناً ہماری سوچ ہے۔ اور آج کی دنیا چونکہ بہت تیزی سے پہلو بدل رہی ہے تو اس پینڈمک میں کیا کھیل کھیلا گیا بہت جلد چند ہی سالوں میں عوام الناس کے سامنے آ جائے گا کہ زمانہ کون سی چال قیامت کی چل گیا۔

اس پینڈمک سے ایک سب سے بڑا اثر جو عالمی سطح پر ہوا کہ یک لخت ساری دنیا کا کاروبار انٹرنیٹ پر شفٹ ہو گیا۔ کیا یہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے لئے اللہ کی امداد تھی یا واقعتاً یہ رحمت بل گیٹس کی دولت اور سرمایہ داری نظام کی مدد سے طاقت کے کھیل میں ڈھائی گئی ہے، اس کا جواب بھی بہت جلد ہمارے سامنے کھل کر آ جائے گا۔ کیونکہ مستقبل کے منظر نامے میں واضح طور پر ایکڑوں پر بنے مالز کباڑ بنتے اور بینکوں اور اداروں کے بلندو بالا عمارتیں زمیں بوس ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔

پچھلے چند ماہ میں بڑی کامیابی سے پورا کا پورا نظام انٹرنیٹ پر شفٹ ہو چکا ہے۔ آن لائن بزنس اور تعلیمی اداروں کا انبار لگ چکا اور عمارتیں اور رقبے ویران ہو گئے۔ اگلے چند سالوں میں کیا جدید دنیا میں سکول، کالج، بینک، سپر مارکیٹس، شاپنگ سنٹرز، مالز کا وجود دنیا پر ہو گا یا یہ سب کچھ صرف آن لائن ہی ملے گا۔ حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ شاید دوسری آپشن حقیقت کے قریب ترین ہے۔ خصوصاً ایسے ممالک میں جہاں پہلے سے ہی عام عوام تک انٹرنیٹ کی تیز ترین سہولت آسانی سے دستیاب ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک شاید اس وقت تک اس نعمت یا زحمت سے محروم رہیں جب تک کہ انٹرنیٹ کی سستی رسائی ہر فرد تک مہیا نہ ہو جائے۔ یہ صورتحال اس وائرس سے فائیو جی کو ملنے والی برکت کا کھلے عام منظر پیش کرتی ہے اور اس وائرس کی حقیقت پر سوال بھی کھڑا کرتی ہے۔

وائرس کی ویکسین کا موجود نہ ہونا بھی ایک ایسی متھ ہے جس کا کوئی سرا سمجھ نہیں آتا۔ ایک مصور کو رنگ اس قدر یاد ہوتے ہیں کہ وہ جب چاہے منٹ سیکنڈ میں چار رنگ جوڑ کر پانچواں نیا رنگ تخلیق دے سکتا ہے ”ایک کک کو مصالحوں سے اس قدر آشنائی ہوتی ہے کہ جب چاہے جیسا چاہے ذائقہ اور رنگ پیش کر دے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ اعضا کی پیوندکاری کر لینے والی، کینسر اور ایڈز کے علاج میں طاق میڈیکل سائنس ایک ذرا سے وائرس کا علاج ڈھونڈنے سے کئی ماہ سے قاصر ہے بعید از قیاس بات ہے۔

تیسری دنیا میں تو میڈیکل ریسرچ نہ ہونے کے رابر ہے مگر وہ جو اپنی لیبارٹریز میں وائرس بنا سکتے ہیں، یقین نہیں آتا کہ ویکسین نہیں بنا سکے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ واقعی یہ سارا کھیل فائیو جی اور ویکسین بیچنے کے لئے چلایا گیا ہو؟ کہیں واقعتاً کسی دوا کے ذریعے انسانی جسموں پر کنٹرول کرنے کی تیاری تو نہیں؟ کہیں یہ سب ایک ہی کھیل کا حصہ تو نہیں؟ سننتے ہیں کہ امریکہ کے پاس ایسا وائرس تک موجود ہے جو چلتے پھرتے انسانوں کو زومبی میں بدل سکتا ہے۔

اگر کیمیکلز انسانی جسم میں داخل کر کے ان کے سسٹم کو کنٹرول کر لیا گیا تو ایسا یقیناً ممکن ہے کہ جب چاہے جسے چاہے اس کا چارجر آف کر کے اسے زومبی میں بدل دیا جائے۔ کیا آئندہ گولی، توپ اور بم سے لڑائی صرف پسماندہ ممالک اور معاشرے لڑیں گے ترقی یافتہ صرف جراثیمی جنگ لڑا کریں گی؟ جس انساں کا چاہا بٹن دبا دیا، جسے چاہے آف کر دیا۔ سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تیز ترین رفتار وقتی پسپائی دکھانے کے بعد کس طرح پوری قوت سے حملہ آور ہو سکتی ہے اس کے مومینٹم کا اندازہ بہت جلد انسانی تاریخ کو ہو جائے گا، کہ اب زمانے زمانوں میں نہیں بدلتے، منٹوں سیکنڈوں میں بدل جاتے ہیں۔

یہ تمام تر سازشی تھیوریز محض مفروضے ہیں مگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ سب مفروضے یا تو صحیح ہیں یا حقائق ان مفروضوں سے بھی بالاتر ہیں۔ ایک اور نگاہ سے دیکھا جائے تو کورونا کی وبا بھی ایک مفروضہ یا من گھڑت کہانی دکھائی دیتی ہے جسے صرف نفسیاتی طور پر تیار اور استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر حقائق یہ ہیں کہ ایک بڑی دنیا کے پاس ان میں سے کسی نہ کسی مفروضے پر یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ جو اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے موجد و ماہر ہیں انہوں نے اتنی کامیابی سے یہ ٹیکنالوجی دوسری قوموں میں منتقل نہیں کی اور نہ ہی ایک بڑی دنیا نے ایسے ہنر میں کاملیت پر توجہ دی۔ سو اب ساری دنیا خموش تماشائی بنی یہ دیکھنے پر مجبور ہے کہ کون سا مفروضہ بلآخر ٹھیک اور کون سا غلط ثابت ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments