کورونا وائرس: پلازمہ تھراپی کیا ہے اور پاکستان میں اس طریقے سے کووڈ 19 کے مریضوں کا علاج کیسے ہو رہا ہے؟


کورونا وائرس: پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے علاج کیسے ہو رہا ہے؟

حیدر آباد کے ایک عمر رسیدہ شخص میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد ان کی حالت مسلسل خراب ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں نے انھیں وینٹیلیٹر پر منتقل کیا تاکہ وہ باآسانی سانس لے سکیں۔

اس دوران ان کی ڈاکٹر بیٹی نے ہسپتال کے حکام سے گزارش کی کہ ان کے والد کا علاج ’پلازمہ تھراپی’ کے ذریعے کیا جائے۔ ڈاکٹروں نے ان کی درخواست قبول کر لی اور اب وہ پاکستان میں کووڈ 19 کے پہلے ایسے مریض بن گئے ہیں جن کے علاج کے لیے پلازمہ تھراپی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔

حیدر آباد کے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال میں کورونا وائرس سے متعلق فوکل پرسن ڈاکٹر آفتاب نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ 53 سالہ اس مریض کو ایسے شخص کے خون کا پلازمہ منتقل کیا گیا ہے جو کورونا وائرس سے صحتیاب ہو چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مریض کے اہلخانہ نے ’رضاکارانہ طور پر خود کو اس تجربے کے لیے پیش کیا ہے۔‘

کورونا بینر

کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟


پیسِو امیونائزیشن کے اسی طریقہ علاج کو ’پلازمہ تھراپی‘ یا کونوالیسنٹ پلازمہ کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے یہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے جس کی کامیابی سے متعلق تاحال کوئی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

ڈاکٹر آفتاب کہتے ہیں کہ مریض کو اس تھراپی سے کوئی فرق آیا ہے یا نہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

’عام حالات میں بھی اس سے بہتری کا عمل بہت سست ہوتا ہے۔ امید ہے کہ چند روز میں کچھ سمجھ آئے گی، ابھی ان کی مسلسل مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔‘

پاکستان میں پلازمہ تھراپی کی اجازت

سندہ حکومت نے تین دن قبل صوبے کے تین ہسپتالوں کو اجازت دی تھی کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں میں اسی بیماری سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ منتقل کریں تاکہ اس طریقے کے علاج کا جائزہ لیا جا سکے۔

ایسا صرف ان مریضوں میں کرنے کی اجازت دی گئی ہے جن کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

اس سے قبل مارچ میں ملک میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے پہلے مریض نے صحتیابی کے بعد اپنے خون کا پلازمہ عطیہ کیا تھا تاکہ پیسو امیونائزیشن یا پلازمہ تھراپی کے ذریعے تشویشناک حالت میں موجود افراد کا علاج کیا جا سکے۔

کورونا وائرس: پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے علاج کیسے ہو رہا ہے؟

وفاقی حکومت نے اپریل کے پہلے ہفتے میں پلازمہ تھراپی کے کلینیکل ٹرائلز کی منظوری دی تھی۔ وفاق کی ہدایت پر وزارت صحت نے ادویات کی نگرانی کے ادارے ڈریپ نے پلازمہ تھراپی کی اجازت دی تھی۔

اس کے بعد حکومت سندھ نے صوبے کے تین ہسپتالوں کو اس کے ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔

سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا تھا جس میں کراچی کے دو ہسپتالوں میں سے ایک سرکاری ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال اور ایک نجی شعبے کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈزیز (این آئی بی ڈی) کو اجازت دی گئی ہے۔

جبکہ ایک حیدر آباد کے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال کو کورونا کی پیسو امیونائزیشن کے کونوالیسنٹ پلازمہ کے تجرباتی استعمال کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق تینوں نامزد کیے گئے ہسپتالوں میں ماہرین کی ایک ٹیم، جس میں ایک فزیشن، بلڈ ٹرانسفیوژن ماہر، متعدی امراض کے ماہر، ایک انتہائی نگہداشت یونٹ کے ماہر، ایک کنسلٹنٹ ہیومیٹولوجسٹ اور سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے نمائندے شامل ہوں گے۔

پلازمہ تھراپی یا کونوالیسنٹ پلازمہ کیا ہے؟

پلازمہ تھراپی میں کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے شخص سے خون حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس میں سے علیحدہ کیے گئے پلازمہ کو تشویشناک حالت کے مریض میں منتقل کیا جاتا ہے۔

پلازمہ دراصل خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔ پلازمہ میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں۔

کورونا وائرس: پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے علاج کیسے ہو رہا ہے؟

اینٹی باڈیز کے حامل پلازمہ کی منتقلی سے بیمار شخص کو مرض سے لڑنے کے لیے ‘غیر فعال مدافعت’ فراہم کی جاتی ہے۔ اس عمل کے مؤثر ہونے میں چند ہفتے، یہاں تک کہ مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ خون میں 55 فیصد پلازمہ ہوتا ہے۔ پلازمہ کا نوے فیصد حصہ پانی ہوتا ہے۔ یعنی اس میں صرف دس فیصد اینٹی باڈی ہوتی ہیں۔

علاج کا یہ تصور نیا نہیں ہے بلکہ 1890 سے وجود رکھتا ہے۔ امریکہ میں مائیو کلینک کے پروفیسر مائیکل جوائنر کے مطابق میڈیسن کے شعبے میں صحت مند ہونے والے مریضوں کے خون سے علاج کا یہ کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ: ’یہ ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے ہسپانوی فلُو کی وبا کی روک تھام کے لیے بھی استعمال کیا گیا تھا اور حال ہی میں ایبولا اور سارس کی وباؤں سے متاثرین کا علاج بھی اس طریقے سے کیا جا چکا ہے۔‘

ابھی تک چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی تحقیق سے اس کی افادیت پر غور کیا گیا ہے اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ طریقہ علاج کورونا وائرس کے علاج کے لیے کتنا مؤثر ہے۔

ان کا تجربہ کن مریضوں پر ہو رہا ہے؟

اب تک دنیا میں زیادہ تر پلازمہ تھراپی سے کورونا کے علاج کا تجربہ شدید بیمار مریضوں پر کیا گیا ہے۔

اس کی وجہ، طبی ماہرین کے مطابق، یہ ہے کہ ان مریضوں کے جسم میں ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر کے سبب وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار نہیں ہو رہی ہوتی ہیں۔

کون پلازمہ عطیہ کر سکتا ہے؟

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اس طریقہ کار کے کامیاب ہونے سے متعلق فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور یہ ابھی تجرباتی بنیادوں پر کیا جار ہا ہے۔

صرف وہ افراد پلازمہ عطیہ کر سکتے ہیں جو کورونا وائرس سے مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں۔ کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد وقفوں سے کیے گئے ان کے دو ٹیسٹ منفی آئے ہوں جبکہ آخری ٹیسٹ منفی آنے کے بعد بھی وہ 14 دن قرنطینہ میں گزار چکے ہوں۔

کورونا وائرس: پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے علاج کیسے ہو رہا ہے؟

مگر اس کے ساتھ کچھ دیگر شرائط اور پروٹوکول بھی موجود ہیں۔

اہم شرط یہ ہے کہ متاثرہ شخص اور پلازمہ عطیہ کرنے والے صحتیاب مریض دونوں رضا مند ہوں۔

طبی ماہرین کے مطابق پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کے کچھ ٹیسٹ ہونا ضروری ہے۔ ان میں پلازمہ عطیہ کرتے وقت کورونا وائرس کا ٹیسٹ، سانس کے دیگر وائرس کے ٹیسٹ، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، ایچ آئی وی اور بعض دیگر ٹیسٹ منفی آنا لازمی ہے۔

انڈیا میں لکھنؤ کے ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر توصیف خان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’کورونا سے متاثرہ افراد کے دو ٹیسٹ منفی آنا ضروری ہے۔ اس کے بعد انھیں 14 دن کے قرنطینہ میں بھیجا جاتا ہے۔ اگر وہ پلازمہ دینا چاہتے ہیں تو انھیں آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کروانے کے لیے ہسپتال جانا پڑے گا۔ اگر نتیجہ منفی آتا ہے تو وہ پلازمہ دے سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر توصیف انڈیا میں پلازمہ عطیہ کرنے والے پہلے شخص ہیں۔ وہ مارچ میں کسی متاثرہ مریض کا علاج کرتے ہوئے اس انفیکشن کی زد میں آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس مریض کو انھوں نے پلازمہ دیا اس کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق یہ ضروری ہے کہ پلازمہ عطیہ کرنے والوں میں کم از کم 10 دنوں تک کورونا وائرس کی مخصوص اینٹی باڈیز کی وافر مقدار ہو اور اس کے ساتھ وہ ہر طرح سے صحت مند ہوں۔

اس طریقے سے اور کہاں علاج ہو رہا ہے؟

دنیا بھر میں پلازمہ کو علاج کے لیے استعمال کرنے سے متعلق تجربات ہو رہے ہیں۔

امریکہ نے پہلے ہی 1500 سے زائد ہسپتالوں میں اس بڑے تحقیقاتی منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکہ میں سائنسدانوں نے ملک بھر میں ایک منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت اس وقت 600 مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔

کورونا وائرس: پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے علاج کیسے ہو رہا ہے؟

چین میں اسے استعمال کیا گیا جبکہ برطانیہ نے بھی تقریباً تین ہفتے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ انتہائی تشویشناک حالت میں زیرِعلاج مریضوں پر پلازمہ تھراپی کریں گے۔

برطانیہ میں محکمہ صحت کے بلڈ ٹرانسپلانٹ کے ادارے نے گذشتہ ماہ کے وسط میں کووڈ 19 سے شفایاب ہونے والوں سے خون کا عطیہ کرنے کا کہا تھا تاکہ وہ آزمائش کر کے اندازہ لگا سکیں کہ یہ کس حد تک فائدہ مند ہے۔

امریکہ میں مائیو کلینک کے پروفیسر مائیکل جوائنر اس منصوبے کی سربراہی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہفتے کے دوران جو چیز ہم نے سیکھی وہ یہ ہے کہ حفاظتی اعتبار سے اور اس کے ٹیکے لگانے سے تاحال منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں بہتری کے ساتھ مریضوں کی صحت میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

ان کے مطابق پلازمہ کے بارے میں ابھی بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اور نتائج کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلازمہ کوئی جادوئی علاج نہیں ہے کہ اس سے مریض ہر صورت صحتیاب ہوجائے گا۔ تاہم چونکہ اس وائرس کے علاج کے دیگر طریقے اتنے محدود ہیں اس لیے ویکسین کی دریافت تک ایسے ہی علاج کی امید لگائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp