انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جھڑپ: برہان وانی کے ’جانشین‘ ریاض نائیکوں ساتھی سمیت ہلاک ہو گئے


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

اعلیٰ پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لوگوں کی شمولیت سے مسلح تشدد کا رجحان بڑھ جاتا تھا اور نوجوان تشدد کی طرف مائل ہو جاتے تھے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بدھ کی صبح ہوئی جھڑپ میں پولیس ذرائع اور مقامی لوگوں کے مطابق مسلح تنظیم حزب المجاہدین کے مطلوب ترین کمانڈر ریاض نائیکوں ساتھی سمیت ہلاک ہو گئے ہیں تاہم پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

چالیس برس کے ریاض نائیکوں، کئی سال قبل مارے گئے مقبول رہنما برہان وانی کے جانشین تھے۔ پولیس نے اُن کے سر پر بارہ لاکھ روپے کا انعام رکھا تھا۔ پولیس کے مطابق وہ فورسز پر حملوں، قتل اور اغوا کاری کے کئی معاملات میں پولیس کو طویل عرصے سے مطلوب تھے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے چالیس روز سے سخت لاک ڈاوٴن جاری ہے اور اس مدت کے دوران مزید شدت سے شروع کیے گئے فوجی آپریشنوں میں اب تک 34 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے۔

جھڑپوں کے دوران دو اعلی فوجی افسروں اور ایک پولیس انسپکٹر سمیت 17 سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کپوارہ میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہوئی کراس فائرنگ میں جسمانی طور معذور ایک نوجوان بھی مارا گیا۔

تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حملے میں تین نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد فورسز نے ردعمل میں فائرنگ کی جس میں نوجوان ہلاک ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر: کیا کورونا کے بعد تشدد کی نئی لہر آئے گی؟

’ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم وائرس سے بچیں یا ایف آئی آر سے‘

کورونا وائرس: کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مودی کا کام آسان ہو گیا؟

رمضان کے پہلے عشرے میں 8 فورسز اہلکاروں، ایک عام شہری اور 16 عسکریت پسندوں سمیت 25 ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔

گو جنوبی کشمیر میں سخت کرفیو نافذ کردیا گیا اور موبائل انٹرنیٹ معطل کر دیا گیا لیکن پولیس نے مارے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت نہیں کی۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

کئی مبصرین کو لگتا تھا کہ کورونا کی وبائی صورتحال بدلتے ہی کشمیر میں حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح تشدد کی وارداتوں نے ان اندازوں کی تردید کر دی ہے

اس کی وجہ وہ نئی سکیورٹی پالیسی ہے جس کے تحت جھڑپوں میں مارے گئے عسکریت پسندوں یا اُن کی تنظیم کی شناخت نہیں کی جائے گی تاکہ مسلح تشدد کو بڑھاوا دینے کے رحجان کو ختم کیا جائے۔

گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران بیس سے زیادہ عسکریت پسندوں کو جھڑپوں میں ہلاک کیا گیا لیکن اُن کی لاشیں لواحقین کے سپرد کرنے کی بجائے اُنھیں شمالی کشمیر میں ایل او سی کے قریب اُوڑی قصبہ کے ایسے قبرستان میں دفن کیا گیا، جہاں اکثر پاکستانی عسکریت پسندوں کو دفنایا جاتا رہا ہے۔

اعلیٰ پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لوگوں کی شمولیت سے مسلح تشدد کا رجحان بڑھ جاتا تھا اور نوجوان تشدد کی طرف مائل ہو جاتے تھے۔

ایک ایسے وقت میں جب وادی کے تمام اضلاع میں لوگ گھروں میں بند ہیں، فوج، پولیس اور نیم فوجی عملے نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں شدت لائی ہے، جس کی وجہ سے لوگ اب کورونا سے زیادہ زمینی حالات سے خوفزدہ ہیں۔

گزشتہ ماہ کنٹرول لائن کے قریبی ضلع کپوارہ کے کیرن سیکٹر میں بھی ایک شدید جھڑپ ہوئی۔

تین روزہ جھڑپ کے بعد فوج نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے انڈین حدود میں دراندازی کرنے والے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور کراس فائرنگ میں پانچ فوجی بھی مارے گئے۔

اس ماہ کے اوائل میں بھی کپوارہ کے ہی ہندوارہ قصبے میں ایک طویل جھڑپ کے دوران ایک میجر، ایک کرنل اور پولیس انسپکٹر سمیت پانچ اہلکار مارے گئے جب کہ اگلے ہی روز عسکریت پسندوں نے تین نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

گزشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کر کے جن پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اُن میں سے بیشتر ابھی جاری ہیں

اس دوران نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات جنوبی کشمیر کے کولگام اور اننت ناگ اضلاع میں رونما ہوئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُنھیں مسلح عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا ہے۔

گزشتہ روز جنوبی کشمیر میں ایک جھڑپ میں حزب المجاہدین کے جن چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، اُن کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکت میں اُن ہی کا ہاتھ تھا۔ تاہم کسی بھی مسلح گروپ نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری تسلیم نہیں کی تھی۔

گزشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کر کے جن پابندیوں کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا اُن میں سے بیشتر ابھی جاری ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور نصف درجن سے زیادہ رہنماوں کے علاوہ سینکڑوں کشمیری نوجوان، تاجر، وکلا اور رضاکار جیلوں میں ہیں اور عالمی سطح پر مطالبات کے باوجود تیزرفتار انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو نہیں ہٹایا جا رہا۔

وادی میں تقریباً دو سال سے دلی کا براہ راست انتظامی کنٹرول ہے، اسمبلی تحلیل ہے اور انتخابات کے بارے میں نئی دہلی نے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے۔

اسی پس منظر میں پوری دُنیا کی طرح اس خطے کو بھی کورونا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران عام زندگی منجمد ہو کر رہ گئی ہے تاہم ضروری اشیا کی قلت نے ابھی بحران کی صورتحال اختیار نہیں کی۔

کئی مبصرین کو لگتا تھا کہ کورونا کی وبائی صورتحال بدلتے ہی کشمیر میں حالات بہتر ہوجائیں گے لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران مسلح تشدد کی وارداتوں نے ان اندازوں کی تردید کر دی ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے سابق سفارت کار اور کالم نویس مُنیر اکرم نے پاکستانی روزنامہ ڈان میں لکھے ایک کالم کے ذریعہ پیشگوئی کی ہے کہ کشمیر میں لوگ اب بھی انڈین کنٹرول کے خلاف مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔

اس مضمون پر یہاں کے حساس حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔

تجزیہ نگار اور کالم نویس ریاض ملک کہتے ہیں: ’اگر پاکستان پھر ایک بار کشمیر میں مسلح تحریک کا احیا چاہتا ہے تو بی جے پی کے کئی کام آسان ہو جائیں گے۔ ایک طرف پاکستان، انڈین حکومت کے جبر اور انسانی حقوق کی پامالی پر دُنیا کو حرکت میں لانے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری طرف یہاں مسلح سرگرمیوں کو انڈیا پراکسی وار کہہ کر عالمی حمایت حاصل کررہا ہے۔ دونوں ملکوں کی اس سفارتی دوڑ کے بیچ کشمیریوں پر کیا گزرتی ہے، وہ بعد میں محض اعدادوشمار بن کر رہ جاتی ہے۔‘

کئی مبصرین کہتے ہیں کہ انڈین حکومت کی طرف سے کشمیریوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانے اور یہاں اسرائیلی طرز پر ہندوں کو آباد کرنے جیسی کوششوں سے یہاں کے لوگوں میں خوف ہی نہیں بلکہ بقا کی جنگ لڑنے کی مجبوری کا احساس بھی پایا جاتا ہے، جو آئندہ دنوں میں خطرناک رُخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔

اس ضمن میں گزشتہ دو روز کے دوران مارے گئے عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لاک ڈاون اور وائرس کے خوف کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

لال چوک کے ایک تاجر عامر احمد شاہ کہتے ہیں: ’دُنیا کو کورونا کا خوف ستا رہا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کورونا تو چھوڑ دے گا، لیکن اُس کے بعد کشمیر کے میدان جنگ میں جو کچھ ہو سکتا ہے، اُس سے بچنے کی کیا صورت ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp