علّامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی


\"fateh\"ہمارے ایک قابلِ صد احترام دانشور نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں یہ کہہ کر ایک نئی غلط فکری کو جنم دے ڈالا ہے کہ قومیت کے مسئلے پر علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی، ہر دو کا موقف درست تھا۔ گویا علامہ اقبال کا جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور بھی برحق ہے مگر مولانا مدنی کی متحدہ ہندوستانی قومیت کی حمایت بھی غلط نہ تھی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیا میں مغربی استعمار کی تازہ ترین ریشہ دوانیوں کے پیشِ نظر اس سراسر غلط طرزِفکر کے انتہائی خطرناک مضمرات پر غوروفکر لازم ہے۔

انڈین نیشنل کانگرس متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کی رو سے پورے برٹش انڈیا کو ایک ملک کی شکل میں متحد رکھنے میں کوشاں تھی۔ انگریز ایک آل انڈیا فیڈریشن کی صورت میں ایک متحدہ ہندوستان کو اپنی جانشین ریاست بنانا چاہتے تھے۔ برطانوی استعمار کی اس حکمتِ عملی کو امریکی تائید و حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ ریاست برطانوی ہند کی تمام قوموں کی جداگانہ شناخت کو مٹاکر ایک متحدہ ہندوستانی قوم کے تصور کی بنیاد پر ہی قائم کی جا سکتی تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی نے اسلامیانِ ہند کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر متحدہ ہندوستانی قوم کے تصور کو ازروئے اسلام جائز قرار دے کر ہندوستان کو متحد رکھنے کا اسلامی جواز مہیا کیا تھا۔مولانا مدنی کے اس فتویٰ سے آٹھ سال پہلے علامہ اقبال جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر برصغیر میں جداگانہ ، آزاد اور خود مختار مسلمان مملکتوں کے قیام کا تصور پیش کر چکے تھے۔ وہ اسلامیانِ ہند پر یہ حقیقت روزِروشن کی طرح واضح کرچکے تھے کہ متحدہ ہندوستانی قومیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو دین کی قلم رو سے نکال باہر کریں اور دین کو فقط ایک نجی معاملہ قرار دیں۔متحدہ قومیت کا یہ تصور مسلمانوں سے اُن کی منفرد اور جداگانہ دینی شناخت سے دستبردار ہو جانے کا متقاضی ہے مگر اسلامیانِ ہند یہ راہ ہر گز نہ اختیار کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلامیانِ ہند نے کانگرسی علماءکے فتووں کو ٹھکرا کر جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور دل و جان سے اپنا لیا۔ رفتہ رفتہ یہ تصور ایک عوامی جمہوری تحریک کا سرچشمہ بن گیا۔ اس تحریکِ پاکستان نے فقط چند برس کی عوامی جدوجہد کے بعد ہندوستان کی سامراجی وحدت کو توڑ کر پاکستان قائم کر لیا۔

آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فکر و خیال جس کی قوت نے برطانوی ہند کو توڑ کر پاکستان قائم کیا وہ بھی درست ہے اور وہ فکر و خیال بھی درست ہے جو برطانوی ہند کو بھارتی ہند کی شکل میں متحدرکھنے اور یوں قیام پاکستان کوروکنے میں ناکام رہا تو دل ڈرنے لگتا ہے،یہ کیسے مان لیا جائے کہ اقبال کا تصور پاکستان بھی ٹھیک ہے اور اس تصورِپاکستان کی اسلام کے نام پر تردید بھی کچھ ایسی غلط نہیں؟

یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ مغرب کی استعماری حکومتیں آخر دم تک ہندوستان کی سامراجی وحدت کا دم بھرتی رہیں۔ پاکستان کا قیام صرف انڈین نیشنل کانگرس اور\"muhammad-iqbal-2\" انتہا پسندہندو سیاسی جماعتوں ہی کی ناکامی نہیں بلکہ برطانوی اور امریکی حکمتِ عملی کی ناکامی بھی ہے۔ چنانچہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مغربی طاقتیںہندوستان اور پاکستان کو اگر فیڈریشن نہیں تو کنفیڈریشن کی شکل میں متحد کر دینے میں کوشاں ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ ایک خارجہ پالیسی اورمتحدہ دفاع کی صورت میں یہ مجوزہ کنفیڈریشن (بعد ازاں فیڈریشن) ایشیا میں مغرب کے نو استعماری مفادات کی یکسوئی کے ساتھ حفاظت کا ”فریضہ“ سرانجام دے سکتی ہے۔

ان نو استعماری عزائم کے پیشِ نظر جب کوئی پاکستانی دانشور یہ کہتا ہے کہ اقبال تو خیر تھے ہی ٹھیک مگر مولانامدنی بھی درست تھے تو لگتا ہے کہ ہم نے نظریاتی پسپائی کی راہ اختیار کر لی ہے۔ آج تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اقبال اور مدنی دونوں ٹھیک کہتے تھے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ ہم جلد یا بدیر کہیں اُس مقام پر نہ آپہنچیں جہاں ہمیں یہ محسوس ہونے لگے کہ علامہ اقبال بے شک ہمارے بزرگ ہیں مگر بات مولانا مدنی ہی کی سچی تھی۔ گویا اسلامیانِ ہند نے پاکستان قائم کر کے ہندوستا ن کو توڑ ڈالنے کی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔ پھر کسی کوہِ ندا سے یہ آواز آنے لگے کہ لوگو! توبہ کا دروازہ ابھی تک کھلا ہے۔ تائب ہو کر عظیم تر ہندوستان کی منزل کی جانب لوٹ آﺅ۔ پیشتر اس کے کہ یہ نیا فکری مغالطہ ہمیں پسپائی کے اس مقام پر لا پھینکے ہمیں قومیت کے موضوع پر اقبال اور مدنی کے متضاد خیالات کو ایک بار پھر تاریخی تناظر میں پرکھ لینا چاہیے۔

اپنی وفات سے فقط چند ہفتے پیشتر اقبال مولانا مدنی کا یہ بیان سُن کر سناٹے میں آ گئے تھے کہ ”اقوام اوطان سے بنتی ہیں“۔ یہاں میں نے ”سُن“ کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال کی بینائی جواب دے چکی تھی۔ ایک نوجوان طالب علم میاں محمد شفیع ہر روز علی الصبح آ کر اُن کے ساتھ ناشتہ کرتا تھا اور اخبارات پڑھ کر سُناتا تھا۔ایک روز اخبارات کی سُرخیاں سُناتے وقت وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اقبال بار بار ایک ہی خبر سُنانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اُس نے یہ \"iqbal2\"خبر متعدد مرتبہ سُنائی مگر علامہ ہر مرتبہ اس خبر کو پھر سے پڑھنے کا تقاضا کر دیتے تھے۔ اس نوجوان طالب علم نے جب یہ دیکھا کہ یہ جملہ سُن کر کہ ”اقوام اوطان سے بنتی ہیں“ علامہ کا ہاتھ وہیں کا وہیں رُک گیا۔ابھی انھوں نے ایک ہی لقمہ توڑا تھا کہ یہ فقرہ کان پڑا تو انھوں نے استفسار فرمایا کہ کیا واقعی یہ مولانا حسین احمد مدنی کا قول ہے۔ جب اُس نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تو انھوں نے لقمہ واپس پلیٹ میں رکھ دیا اور چاہا کہ وہ اس پوری خبر کو بار بار پڑھے۔اقبال سُنتے رہے اور وہ اُن کے چہرے پر درد و کرب کے آثار کو نمایاں سے نمایاں تر ہوتے دیکھتا رہا۔ اُس صبح انھوں نے نہ کسی اور خبر کی طرف دھیان دیا اور نہ ہی ناشتہ کیا۔ اُٹھ کر اپنے بستر پر لیٹ گئے اور نوجوان سے فرمایا کہ تم اب کالج چلے جاﺅ۔

یہ نوجوان کالج سے جلد از جلد فارغ ہو کر دوبارہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ باقی ماندہ اخبارات بھی سنا دے مگر اُس نے انہیں انتہائی تکلیف دہ کیفیت میں پایا۔ علی بخش نے بتایا کہ اُس وقت سے لے کر اب تک نہ کچھ کھایا پیا ہے اور نہ ہی کوئی بات کی ہے۔ بیماری کی شدت کے باعث بس ایسے ہی لیٹے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی آہ یا کراہ سُنائی دے جاتی ہے۔ نوجوان گھر چلا گیا۔ شام کو پھر آیا مگر اُنھیں ویسا ہی چُپ چاپ اور گرد و پیش سے لاتعلق پایا۔ حسبِ معمول شام کو ملاقاتی آتے رہے، جاتے رہے۔ علامہ دوسروں کی باتیں سنتے رہے مگر خود کوئی بات نہیں کی۔ دوسری صبح وہ حسبِ معمول اخبار سُنانے حاضر ہوا تو دیکھا کہ علامہ سو رہے ہیں اور چہرے پر اطمینان و سکون کے آثار نمایاں ہیں۔ علی بخش نے بتایاکہ علامہ نے سحر دم کاغذ اور پنسل طلب فرمائی مگر پھر سو گئے اب انھیں جگانا مناسب نہیں۔ تم سیدھے کالج چلے جاﺅ۔ اس پرمیاں محمد شفیع نے علی بخش سے کہا کہ چپکے چپکے جاﺅ اور دیکھو کہ علامہ نے اُس کاغذ پر کچھ لکھا بھی ہے یا نہیں؟ علی بخش کاغذ لایا تو کھلا کہ اُس پر اقبال نے ”حسین احمد“ کے عنوان سے چند مصرعوں پرمشتمل ایک نظم قلمبند کر دی ہے۔ کالج سے واپسی پر اُس نے علامہ کو ہشاش بشاش پایا۔ یہ مختصر نظم دوسرے روز اُسی اخبار (روزنامہ ”احسان“لاہور) میں شائع ہو گئی جس میں ایک روز پہلے مولانا مدنی کا بیان شائع ہوا تھا۔

نوجوان محمد شفیع بعد میں ایک نامور صحافی بن گئے۔ 35برس بعد انھوں نے م۔ش کے قلمی نام سے اپنے یہ مشاہدات ہفت روزہ View Point میں \"Dr-Allama-Iqbal-on-seat1\"The Birth of a Stanza کے عنوان سے لکھ ڈالے۔ اپنے مشاہدات میں انھوں نے نظم ”حسین احمد“ کے اثر و نفوذ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس مختصر نظم کی اشاعت نے اسلامیانِ ہند میںعجب اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی۔ نتیجہ یہ کہ مولانا مدنی کو اپنے دفاع میںنِت نئے جواز تلاش کرنا پڑے۔مولانا کی تاویلات پرمشتمل ایک مدلل جوازنامہ ”احسان“ اخبار میں بھی شائع ہوا تھا جس میں مذکورہ بالا نظم کی لفظیات، محاکات اور استعارات پر تاویلات کے پھندے ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مناسب معلوم ہوا ہے کہ اس نظم کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیا جائے:

عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ

ز دیوبند، حسین احمد، ایں چہ بوالعجبی ست

سرود بر سرِ ممبر کہ ملت از وطن است

چہ بے خبر ز مقامِ محمد عربی ست

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست!

اقبال کے کرب و اضطراب کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ مولانا حسین احمد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کی دینی خدمات کی دِل سے قدر کرتے تھے۔ وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ مولانا مدنی جیسا برگزیدہ عالمِ دین اور دیوبند جیسا عظیم دارالعلوم اسلام کے سیاسی نصب العین سے اس خوفناک حد تک ناآشنا ہوگا۔ اقبال کے صدمہ کی شدت کا اندازہ اُن کے اس خیال سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر مولانا مدنی رموزِ دیں سے اس حد تک نابلد ہیں تو پھر پورے عجم میں اسلام کے سیاسی نصب العین سے عدم واقفیت کا ماتم کرنا چاہیے۔یہ گویا اقبال کی طرف سے دارالعلوم دیوبند اور مولانا مدنی کو ایک طرح کا خراجِ تحسین ہے تاہم تمام تر احترام کے باوجود اقبال نے دُنیائے عجم کو مولانا کے ارشاد میں پنہاں خطرات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔

مولانا حسین احمد مدنی، دیوبند کے عظیم الشان دارالعلوم کے سربراہ تھے اور ایک زمانے کو اُن کی دینی خدمات کااعتراف ہے، مگر اُن کی سیاسی لغزشیں بھی ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں۔ دلی عقیدت و احترام کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ مولانا حسین احمد تحریکِ پاکستان کے مخالف تھے۔ ایم۔ اے۔ ایچ اصفہانی، کل ہند مسلم لیگ کے 1936ء کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس منعقدہ لاہور کی یادیں قلم بند کرتے وقت مولانا کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:

”مجھے یاد ہے کہ پہلے روز مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے مسٹر جناح کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کو عملی سیاست کے اکھاڑے میں زیادہ فعال\"Allama-Iqbal\" حصہ لینے کی تجویز کا خیرمقدم کیا مگر آخری روز ان دو علمائے دین میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کی خاطر انتھک اور مؤثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر دیوبند کی مشینری مسلم لیگ کے لیے وقف کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لیگ اس پروپیگنڈے مہم کے اخراجات برداشت کرے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ جناح نے صاف بتا دیا کہ نہ تو اس وقت لیگ اتنے پیسے دے سکتی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے۔ اس پر ہر دو علمائے دین مایوس ہو کر ہندو کانگرس کی طرف راغب ہو گئے۔ ہندو کانگرس چونکہ مالی اعانت کا مطالبہ پورا کر سکتی تھی اس لیے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔“

                                (قائداعظم جناح، ایز آئی نیوہم، صفحات20۔21)

 اور نوبت یہاں آ پہنچی کہ:

”جن کے علم و تقویٰ پر مدینے کی مہر ثبت تھی، اُن کی بابت جواہر لال کا ایک خط شائع ہو گیا کہ حسین احمد کو اتنے روپے دے چکا ہوں، اب وہ اور مانگتے ہیں۔ نہرو نے ان کے نام کے ساتھ نہ مولانا لکھا نہ جناب نہ صاحب۔“(ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: اقبال اور مُلا، صفحات17۔18)

اب آئیے اقبال کی اس مختصر نظم کے جواب میں مولانا کے بیانات کی جانب۔ اسلام اور قومیت کے موضوع پر مولانا کے سیاسی بیانات کا دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد اقبال نے روزنامہ ”احسان“ کے 9 مارچ 1938ء کے شمارہ میں مولانا کے کانگرسی اندازِنظر میں پنہاں تباہ کن مضمرات پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ اس بیان کی اشاعت کے بعد دونوں طرف خاموشی طاری ہو گئی تھی اور یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ مولانا نے اپنے سیاسی مؤقف کی وکالت ترک کر دی ہے۔ مگر ہوا یوں کہ سن 1940ءکی قراردادِ پاکستان کے بعد مولانا حسین احمد مدنی نے ”متحدہ قومیت اور اسلام“ کے عنوان سے ایک مختصر سی کتاب تصنیف کر ڈالی۔اس کتاب میں انھوں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر اکھنڈبھارت کے کانگرسی مؤقف کے اسلامی جواز پیش کر رکھے ہیں۔ مولانا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا تصوّر اور پاکستان کی تحریک ہر دو اسلام کے منافی ہیں اس لیے اسلامیانِ ہند کو مسلم لیگ کی بجائے انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو کر اپنے وطن ہندوستان کو متحد رکھنا چاہیے۔

یہ ہماری خوش بختی ہے کہ علامہ اقبال اپنے بسترِ مرگ سے ہی علمائے ہند کے ساتھ اسلام اور قومیت کے موضوع پر اپنا آخری فکری معرکہ سر کر گئے تھے۔ اس \"madni\"موضوع پر مولانا مدنی کے جواب میں علامہ اقبال کا بیان اُن کا آخری سیاسی بیان ہے۔ اس بیان میں اقبال کا استدلال بے مثال سیاسی بصیرت اور نادر و نایاب دینی شعور کی یکجائی سے پھوٹا ہے۔ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ اگر وطن اتحادِ انسانی کی بنیاد ہوتا تو آنحضورﷺ اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہ کرتے۔ آنحضور کی ہجرت میں یہ دینی و سیاسی رمز بھی پوشیدہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا بنیادی اور اٹل اصول روحانی یگانگت ہے نہ کہ وطنی اشتراک۔ ہر چند قوم وطن سے نہیں بنتی مگر قوم کو ایک وطن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر اقبال نے جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر پہلے پاکستان کا تصور دیا اور پھر اس تصور کو ایک عوامی جمہوری تحریک میں بدلنے کا سامان کیا۔ اس تحریک نے بالآخر متحدہ قومیت اور متحدہ ہندوستان کے تصور کو رد کر کے ہماری روحانی یگانگت کو برگ و بار لانے اور پھلنے پھولنے کے لیے خطہ ¿ پاک عطا کیا جس میں بیٹھے آج ہم اس چیستان کو حل کرنے میں کوشاں ہیں کہ قومیت کے مسئلے پر اگر اقبال کا موقف بھی درست تھا اور مولانا مدنی کا فتویٰ بھی ٹھیک تھا تو کیونکر؟

نہیں صاحب! اقبال ٹھیک تھے اور مولانا مدنی غلط تھے۔ بات یہ ہے کہ مولانا مدنی بھی ان ہی علمائے کرام میں سے ایک ہیں جو تحریکِ خلافت کی ناکامی اور ترکی میں نظامِ خلافت کی تنسیخ کے بعد اسلام کے اجتماعی مقدر سے مایوس ہو کر انڈین نیشنل کانگرس کی سرپرستی میں چلے گئے تھے۔ انھی برگزیدہ علمائے دین اور ان کی سیاسی جماعتوں کی جانب زیرِ لب اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں یہ کہنا ضروری سمجھا تھا کہ:

\”To address this session of the All-India Muslim League you have selected a man who is not despaired of Islam as a living force for freeing the outlook of man from its geographical limitations, who believes that religion is a power of the utmost importance in the life of individuals as well as States, and finally who believes that Islam is itself a Destiny and will not suffer a destiny. Such a man cannot but look at matters from his own point of view.\”

یہاں اقبال کا زیرِ لب اشارہ قابل غور ہے۔یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ 1930ء میں ایک اقبال کو چھوڑ کر باقی تمام مسلمان قائدین اسلام کے اجتماعی مقدر سے عملاً مایوس تھے۔ بیشتر مذہبی سیاسی جماعتیں براہِ راست یا بالواسطہ متحدہ ہندوستان کا دم بھرنے میں مصروف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے مولانا مدنی کے سیاسی مؤقف کی تردید کرتے ہوئے اپنی آخری نثری تحریر میں یہ کہنا ضروری سمجھا تھا کہ:

”یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگِ عظیم میں کامیاب بھی ہو گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اس کے حامی نظر آتے ہیں۔ زمانے کا اُلٹ پھیر بھی عجیب ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم مغرب زدہ پڑھے لکھے مسلمان تفریح میں گرفتار تھے اب علماءاس لعنت میں گرفتار ہیں۔“\"maulana-madni\"

یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دینی پیشواﺅں میں مولانا عبیداللہ سندھی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سے جدیدیت پسند علماءبھی شامل ہیں۔ ہر دو نے قراردادِ پاکستان کے بعد اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کا ڈول ڈالا۔ مولانا سندھی نے ترکی میں اپنی جلاوطنی کے زمانے میں ہی اسلامی اتحاد کے خوابوں سے دستبرداری کا کُھلم کھلا اعلان کر دیا تھا۔ استنبول سے انھوں نے ریاست ہائے متحدہ ہندوستان کا جو خاکہ شائع کیا تھا اُس میں انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ اُن کی جلاوطن سوراجیہ ہند پارٹی، انڈین نیشنل کانگرس ہی کا ایک ذیلی گروہ ہے جو مذہب کو فقط ذاتی زندگی کے دائرے تک محدود رکھتے ہوئے لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر ہندوستان کو دس ریاستوں کے ایک وفاق کی صورت میں متحد رکھنے کا خواہاں ہے۔ اسلامیانِ ہند میں قراردادِ پاکستان کی روز افزوں مقبولیت کے زمانے میں جب انھوں نے ”جمنا،نربدا، سندھ، ساگر پارٹی“ قائم کی تب بھی ایک متحدہ ہندوستان کی بقا ہی کو اپنا سیاسی مسلک قرار دیا۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے ”مسئلہ قومیت“ کے عنوان سے اپنے کتابچہ میں جداگانہ مسلمان قومیت سمیت ہر نوع کی قومیت کو اسلام سے متصادم ٹھہرایا اور تحریکِ پاکستان کے حامیوں اور رہنماﺅں کو بھی کانگرسی مسلمانوں ہی کی مانند گردن زدنی ٹھہرایا۔ مودودی صاحب کے خیال میں اسلام اور قومیت میں بنیادی تضاد ہے۔ اپنی کتاب ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش“ کی جلد سوم میں انھوں نے ”جداگانہ مسلم قومیت (یعنی پاکستان) کے تصوّر کو ایک غیر اسلامی بلکہ اسلام دشمن تصور“ قرار دیا ہے۔ یہاں مجھے بے ساختہ اقبال کا وہ تلخ سوا ل یاد آ گیا ہے جو انھوں نے درج ذیل شعر میں اُٹھایا تھا:

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی

اس دور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی؟

مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں علامہ اقبال نے اس تلخ حقیقت کا واشگاف اعلان کیا ہے کہ ”اب علماءاس لعنت میں گرفتار ہیں“۔ چونکہ اقبال کا ہم عصر مُلّا اسلام کے لیے باعثِ ننگ و عار بن کر رہ گیا ہے اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اقبال اُس پر اسلام کی حقیقی روح کو منکشف کریں۔ فرماتے ہیں:

”جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے اُس کی رُو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ ¿ نظر کو یکسر بدل کر اُس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے…. مولانا حسین احمد عالمِ دین ہیں اور جو نظریہ انھوں نے قوم کے سامنے پیش کیا ہے اُمتِ محمدیہ کے لیے اُس کے خطرناک عواقب سے وہ بے خبر نہیں ہو سکتے….آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اس توضیح سے دو غلط اور خطرناک نظریے مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان بحیثیت قوم اور ہو سکتے ہیں اور بحیثیت ملّت اور۔ دوسرا یہ کہ ازروئے قوم چونکہ وہ ہندوستانی ہیں اس لیے مذہب کو علیحدہ چھوڑ کر انھیں باقی اقوامِ ہند کی قومیت یا ہندوستانیت میں جذب ہوجانا چاہیے….یعنی یہ کہ مذہب اور سیاست جدا جدا چیزیں ہیں۔ اس ملک میں رہنا ہے تو مذہب کو محض انفرادی اور پرائیویٹ چیز سمجھو اور اس کو افراد تک ہی محدود رکھو سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو کوئی دوسری علیحدہ قوم تصوّر نہ کرو اور اکثریت میں مدغم ہو جاﺅ۔“

ہندوستان میں دین و وطن کی اس کشمکش پر اسلام کی انقلابی تعلیمات کی روشنی ڈالتے ہوئے اقبال، مولانا مدنی کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ:

”حضور رسالت مآب کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابولہب۔ یا ابوجہل یا کفارِ مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بُت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے\"maxresdef\" ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بنا پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر حضور نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزماں کی راہ نہ ہوتی۔ نبوت محمدیہ کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہیئتِ اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الٰہی سے عطا ہوا تھا….یقین جانیے کہ دینِ اسلام ایک پوشیدہ اور غیر محسوس حیاتی اور نفسیاتی عمل ہے جو بغیر کسی تبلیغی کوششوں کے بھی عالمِ انسانی کے فکر و عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے عمل کو حال کے سیاسی مفکرین کی جدت طرازیوں سے مسخ کرنا ظلم عظیم ہے، بنی نوع انسان پر اور اس نبوت کی ہمہ گیری پر جس کے قلب و ضمیر سے اس کا آغاز ہوا۔“

اس بیان میں اقبال نے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر واضح کر دی ہے کہ حب وطن اور چیز ہے اور وطنیت اور چیز۔ وطن ایک خطہ ¿ خاک ہے جس پر انسان اپنی عارضی زندگی بسر کرتا ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ اسلام حبِ وطن کو برحق قرار دیتا ہے مگر وطنیت کے جدید فرنگی نظریے کو رد کر دیتا ہے۔ وطنیت کے اس سیاسی تصوّر کا حبِ وطن کے فطری جذبے سے کوئی تعلق نہیں:

”زمانہ  حال کے سیاسی لٹریچر میں” وطن“ کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے، اس لیے جب لفظ ”وطن“ کو ایک سیاسی تصوّرکے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہو رہا ہے۔ مولانا حسین احمد صاحب سے بہتر اس بات کو کون جانتا ہے کہ اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیئت ِ اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔“

وطنیت ایک جدید فرنگی نظریہ ہے جس کے انسان دشمن مضمرات کو اقبال نے اپنے اس آخری سیاسی بیان سے ربع صدی پیشتر اپنی نظم ”وطنیت“ میں بے نقاب کیا تھا۔ حبِ وطن اور وطنیت کے تضادات کو نمایاں کرنے کے لیے اقبال نے اپنی اس نظم کو ایک ذیلی عنوان بھی دیا ہے جو یوں ہے: ”یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصوّر کے“۔ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے اس نظم پر بھی ایک نظر ڈال لیں:

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے، جم اور

ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ  تہذیبِ نوی ہے

غارت گر کا شانہ  دینِ نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

نظارہ  دیرینہ زمانے کو دکھا دے

اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے!

ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی

رہ بحر میں آزادِ وطن صورتِ ماہی

ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہی

دے تُو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

اقبال نے اپنی اس نظم میں جغرافیائی قومیت کی استعماری بنیادوں کو بڑے سادہ، سلیس اور مؤثر انداز میں بے نقاب کیا ہے۔ جغرافیائی قومیت (وطنیت) کی سیاسی آئیڈیالوجی کی بنیاد حبِ وطن نہیں بلکہ تجارتی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی جبر و استبداد ہے۔ تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے، کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے۔ مزید برآں خلقِ خدا کو یہ آئیڈیالوجی متحارب اقوام میں بانٹ کر اسلامی قومیت کی آفاقی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اقبال اس نظریاتی وطنیت کو ایک ایسا بُت قرار دیتے ہیں جسے مغربی سامراج نے تراشا ہے۔ اسلام اِس بُت کی پرستش کی اجازت نہیں دیتا۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ محبوبِ خدا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس سیاسی وطنیت کے تصور کو ٹھکرا دیں۔ دینِ اسلام ہی مسلمانوں کا حقیقی وطن ہے۔ وطن اور وطنیت کے فرق کو نمایاں کرتے ہوئے اقبال بڑی قطعیت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ:

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقبال وطنیت کے سیاسی تصوّر پر مبنی ہندوستانیت کو رد کرتے وقت ارضی اشتراک کی بجائے روحانی یگانگت کو اپنی قومیت کی بنیاد ٹھہراتے ہیں۔ اقبال نے اپنی فارسی اور اردو شاعری میں جداگانہ مسلمان قومیت کا یہ تصوّر پیش کرتے وقت ہمیشہ آنحضور کے طرزِفکر و عمل کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے۔ ”اسرار و رموز“ سے لے کر ارمغانِ حجاز تک انھوں نے محمدﷺ سے وفاداری بشرطِ استواری ہی کو حقیقی اسلام قرار دیا ہے۔ اپنی اردو نظم ”جوابِ شکوہ“ میں انھوں نے خُدا کی زبان سے یہ نوید سنائی ہے کہ:

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اپنے آخری سیاسی بیان میں بھی اقبال نے قومیت کے مسئلے پر مولانا حسین احمد مدنی کے مؤقف کی ”نبوتِ محمدیہ کی غایت الغایات“ کے حوالے سے ہی تردید کی ہے۔ یہ غایت ایک ایسے آفاقی انسانی معاشرے کا قیام ہے ”جس کی تشکیل اس قانونِ الٰہی کے تابع ہو جو نبوت محمدیہ کو بارگاہِ الٰہی سے عطا ہوا تھا۔“ متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصوّر کو اپنا کر ہندو اکثریت کے متحدہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد پر کسی ایسے آفاقی انسانی معاشرے کا قیام ہرگز دائرہ ¿ امکان میں نہیں۔ ایسے میں مسلمانوں پر دو ہی راستے کھلے ہیں۔ یا تو وہ ترکِ اسلام کی راہ اپنا کر ہندو تہذیب میں جذب ہو جائیں اور یا پھر ہندوستانی وطنیت کے بُت کو توڑ کر جُداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر اپنے لیے ایک الگ خطہ  زمین کے حصول کی تحریک چلائیں۔

اگر خدانخواستہ، ہندی مسلمان فکرِ اقبال سے روشنی لینے کی بجائے مولانا حسین احمد مدنی اور اُن کے ہمعصر کانگرسی علماءکے فتووں کے جال میں اسیر ہو جاتے تو یہ بلاشبہ ترکِ اسلام کی راہ ہوتی۔ پہلے اسلام کا سیاسی نصب العین ترک کر کے ہندوستانیت کا سیکولر سیاسی نصب العین اپناتے اور پھر رفتہ رفتہ اسلام کا اخلاقی نصب العین بھی ترک کر کے، حضرت مجدد الف ثانی کے لفظوں میں ”مسلمانانِ ہندو مزاج“ بن کر رہ جاتے۔

سرکردہ علمائے دین کا متحدہ ہندوستانی قومیت پر ایمان لے آنا یا دوسرے لفظوں میں، سب سے پہلے ہندوستان اور ’آخر میں اسلام‘کا سیاسی مسلک اپنا لینا ایک ایسی دلخراش حقیقت تھی جو پایانِ عمر، اقبال کے لیے سوہانِ روح بن کر رہ گئی تھی۔ جداگانہ مسلمان قومیت اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے مابین نظریاتی آویزش کو اقبال نے دین و وطن کی کشمکش یا روح و بدن کی معرکہ آرائی کا نام دیا ہے۔ دین کے اجتماعی مسلک سے بیشتر علمائے دین کی کنارہ کشی کے ہولناک نتائج کا خیال کر کے اقبال کا دِل کانپ کانپ اٹھتا تھا۔ ایسے میں وہ تڑپ کر یہ سوال اُٹھایا کرتے تھے کہ:

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن

اس زمانے میں کوئی حیدرِ کراّر بھی ہے؟

یہ اقبال کی شاعری اور اقبال کی فکر کا فیضان ہے کہ جب متحدہ ہندوستانی قومیت یا جداگانہ مسلمان قومیت یعنی متحدہ ہندوستانی قومیت یا قیامِ پاکستان میں سے کسی ایک راہِ فکر وعمل کے انتخاب کا وقت آیا تو سوادِ اعظم نے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی قیادت میں قیامِ پاکستان کی حمایت کی۔ یوں بالآخر اسلامیانِ ہند کی اجتماعی رائے نے کانگرسی علماءکے تصوّرِ اسلام کو رد کرتے ہوئے اقبال کے تصوّرِ اسلام کو اسلام کی حقیقی تعبیر مان لیا۔

اس حقیقی اسلام کی سربلندی کی خاطر 1947ء میں پاکستان قائم تو ہوگیا مگر آج تک پاکستان میں اسلام کی اس انقلابی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کا سامان نہ ہو سکا۔ یہ اسی غفلت کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں پھر سے اُسی شکست خوردہ ذہنیت کے مظاہر سامنے آ رہے ہیں جن کا مشاہدہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دھائی متذکرہ بالا علماءکی ذہنیت میں کر چکی ہے۔ تب اور اب میں فرق صرف اتنا ہے کہ کل اگر چند علماءفرنگی نظریات کو مشرف بہ اسلام کرنے میں سرگرداں تھے تو آج یہ کام علماءکی بجائے جدیدیت پسند دانشور کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں زمانے کا اُلٹ پھیر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments