شہباز شریف مانگے کے پروں پر پرواز کی کوشش میں


مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس اعتراف کے بعد کہ وہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے قبل طاقتور حلقوں کے ساتھ رابطے میں تھے ان کے ساتھ مل کر اپنی کابینہ کے ناموں تک کو حتمی شکل دے رہے تھے اس میں میرے لیے حیرانی والی بات نہیں۔ مجھے پشیماں ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ جس مسلم لیگ کی بنیاد 1906 میں ڈھاکہ میں رکھی گئی، جس نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی، اس کے تحت آگے چل کر قائداعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان کی رہنمائی میں چودہ اگست 1947 کو پاکستان قائم ہوا۔ محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جو مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالتا اور اسے زندہ رکھتا۔

قائد کی مسلم لیگ کا سرکار کے نوکر غلام محمد نے 1953 میں وہ حشر کیا کہ وہ ابھی تک کومے سے باہر نہیں آ سکی۔ اس کے بعد ہر پیدا ہونے والی یا بنائی جانے والی مسلم لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کے کوٹھے پر رقص کرنے کی گھٹی پلائی جاتی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

طالع آزماؤں کو جب بھی سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسلم لیگ نے اپنے کندھے پیش کیے۔ اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ چار سال بعد 1962 میں جب وہ صدر بنے اور انھیں اقتدار کو دوام یا طول دینے کے لیے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو انھوں نے مسلم لیگ کا نام استعمال کیا اور کنونشن مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔

1964 میں ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صدراتی امیدوار تھے جبکہ ان کے مدمقابل بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ کیا یہ یقین کرنے والی بات ہے کہ اپنی ساری زندگی مسلم لیگ میں گزارنے والی محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑرہی تھیں؟ یقیناً نہیں کیونکہ اصل مسلم لیگ تو 1953 سے کومے میں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہی وہ انتخابات تھے جس میں ن لیگ سے تعلق رکھنے والے انجینئر خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر نے فاطمہ جناح کا انتخابی نشان ایک کتیا کے گلے میں لٹکایا تھا۔ شاید انہی لوگوں کے لیے محمد علی جناح نے کہا تھا کہ میری جیب میں چند کھوٹے سکے موجود ہیں۔ ایوب خان کی کنونشن لیگ میں ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری ظہور الہی دونوں شامل تھے۔

جب ایوب خان کے اقتدار کا سورج نصف النہار سے مغرب کی اور ڈھلنا شروع ہوا تو لے گیآہستہ آہستہ بھاگنا شروع ہوئے جس کے نتیجے میں 1970 کے انتخابات میں کنونشن مسلم لیگ کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار نہیں تھے۔ ابن الوقت سیاستدانوں نے میاں ممتاز دولتانہ کی سربراہی میں کونسل مسلم لیگ بنائی جس کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ قیوم نے جنم لیا جس کے سربراہ خان عبدالقیوم خان بنے۔ دونوں کا مقصد ایک تھا کہ وہ طاقتور حلقوں کے اشاروں پر رقص کناں رہیں۔

یہ کہانی یہاں نہیں رکی بلکہ مسلم لیگ بنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کا قیام 1973 میں کونسل اور کنونشن مسلم لیگ کے انضمام سے عمل میں آیا اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

جنرل ضیا الحق نے 1977 میں اقتدار پر قبضہ کیا جب اقتدار کی چولیں ہلنی لگی تو 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کروائے نام نہاد الیکشن کے بعد انھیں سہارے کے لیے ایک سیاسی جماعت کی ضرورت پڑی تو ایک اور مسلم لیگ بنائی گئی جسے پاکستان مسلم لیگ جونیجو کا نام دیا گیا۔ ضیا الحق کی موت کے بعد محمد خان جونیجو کی جونیجو لیگ کے صدر نواز شریف بن گئے اور پھر ج لیگ سے مسلم لیگ ن پیدا ہوئی۔

نواز شریف کے اپنے بنائے ہوئے آرمی چیف جنرل مشرف نے انھیں اقتدار سے نکال باہر کیا تو ہمیشہ کی طرح طالع آزما کو سیاسی بیساکھی کی ضرورت پڑی تو انھوں نے ن لیگ کے بطن سے مسلم لیگ قائداعظم نکالی جس کی سربراہی میاں محمد اظہر کو دی گئی۔ بعد ازاں جنرل نے میاں اظہر سے نام نہاد لیگ کی باگ ڈور لے کر چوہدری شجاعت کے حوالے کی اور تادم تحریر وہی اس کے صدر ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے دو بار پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے پنجوں سے پہلی بار اس وقت نکلنے کی کوشش کی جب جنرل جہانگیر کرامت کو گھر جانا پڑا۔ دو ہزار چودہ میں ان کا ذہن مکمل تبدیل ہو چکا تھا انھوں نے دو ہزار چودہ کے دھرنے میں اس وقت آئی ایس آئی کے چیف کو ہٹانا چاہا مگر سیاسی رفقا نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس بات کا اعتراف انھوں نے دوہزار انیس میں احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں بھی کیا تھا۔ راقم انہی صفحات پر اپنے ایک کالم میں ذکر کر چکا ہے۔

شہباز شریف کو اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ مانگے تانگے پروں سے پرواز ممکن نہیں ہوتی۔ مانگے تانگے پروں کا کسی بھی وقت کتر دینے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس لیے شہباز کو اب اپنے پروں پر بھروسا کر کے پرواز کرنا۔ ہو گی شہباز سمجھتے ہیں کہ اب ان پروں میں اڑان کی طاقت باقی نہیں رہی تو انھیں مسلم لیگ کی قیادت مریم نواز کے جواں کندھوں کے حوالے کر دینی چاہیے اور مریم نواز کو چاہیے کہ وہ چپ کا روزہ توڑ دیں۔ شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان کی مشاورت سے فیصلے کر کے جماعت کے اندر نئی عقابی روح پھونک کر مسلم لیگ کو عوامی امنگوں کے مطابق چلائیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments