منیر نیازی: کچھ باتیں کچھ یادیں


اردو زبان کے منفرد شاعر منیر نیازی کی شخصیت اور شاعری پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے کتنے ہی اشعار ہیں جو مختلف مواقع کی مناسبت سے پڑھے، سنے اور سنائے جاتے ہیں اور ان کی شخصیت کے حوالے سے بھی بہت سے دلچسپ واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کو لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ کچھ باتیں اور یادیں میرے پاس بھی ہیں، شاید ان میں بھی کچھ لوگوں کی دلچسپی کا سامان ہو۔ یہی سوچ کر یہ واقعات لکھنے کا خیال آیا۔

یہ 1978 کے آخر ی ایام کی بات ہے، میں ان دنوں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کا طالب علم تھا اور اردو غزل کے معروف اور اپنے پسندیدہ شاعر ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری کے موضوع پر اپنے تحقیقی مقالے پر کام کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں مواد کی تلاش اور ناصر کاظمی کے اہلِ خانہ اور دوست احباب سے مل کر معلومات جمع کرنے کی غرض سے لاہور گیا۔ میرے ساتھ میرا دوست شعیب عتیق بھی تھا جو اپنے مقالے کے لئے مواد کی تلاش میں تھا۔

ہم پنجاب یونیورسٹی لاہور نیو کیمپس کے ایک ہوسٹل میں ایک دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ صبح سویرے نیو کیمپس سے یونیورسٹی بس کے ذریعے اولڈ کیمپس پہنچتے، وہاں کی کینٹین سے ناشتا کرتے اور پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں مواد کی تلاش و جستجو میں مصروف ہو جاتے۔ اس جستجو میں کچھ ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملے۔ مجھے اس حوالے سے جناب انتظار حسین، سہیل احمد خاں مرحوم اور ناصر کاظمی کے صاحبزادوں باصر سلطان کاظمی اور حسن سلطان کاظمی سے بات چیت کا موقع ملا۔

ایک روز ہمیں خیال آیا، کیوں نہ احمد ندیم قاسمی صاحب سے ملا جائے۔ چھٹی کا دن تھا۔ میں اور شعیب عتیق پوچھتے پچھاتے سمن آباد قاسمی صاحب کے گھر پہنچ گئے، گھنٹی بجائی تو قاسمی صاحب خود ہی دروازے پر آئے۔ ہم نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو کہنے لگے ”بھئی یہ چھٹی کا دن ہے، یہ ہمارے نہانے دھونے کا دن ہوتا ہے، آپ کل مجلسِ ترقیٔ ادب کے دفتر آ جائیں (ان دنوں وہ مجلسِ ترقیٔ ادب کے سیکرٹری تھے ) ۔ ہم اگلے روز ان کے دفترپہنچے، قاسمی صاحب بڑی شفقت سے پیش آئے۔ ناصر کاظمی کے حوالے سے کچھ سوالات کے جواب دیے اور کچھ مواد کی نشان دہی بھی کی۔ شعیب نے اپنے مقالے کے حوالے سے ان سے کچھ سوالات کیے۔

اسی دوران میں وہاں یکے بعد دیگرے خالد احمد، نجیب احمد، مستنصر حسین تارڑ اور منیر نیازی آگئے۔ تارڑ ان دنوں پی ٹی وی کی مشہور ڈرامہ سیریل ”ایک حقیقت ایک افسانہ“ میں ایک نیوز رپورٹر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ڈرامے میں وہ اکثر لیدر جیکٹ پہنے ہوتے تھے اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا چرمی بیگ ہوتا تھا اور اتفاق سے اس وقت وہ اسی گیٹ اپ میں تھے، ان سب سے گپ شپ ہوئی۔ منیر نیازی محفل پر چھائے ہوئے تھے اور بہت چہک رہے تھے۔

ان کو جب پتہ چلا کہ میں ناصر کاظمی کے حوالے سے کام کر رہا ہوں اور شعیب نے اپنا موضوع بتایا تو پنجابی میں کہنے لگے ”او منڈیو! تسیں کی مُردیاں دے پچھے پئے ہوئے ہو، کسے زندہ بندے تے کم کرو“ ( او لڑکو! تم لوگ کیوں مردہ لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو، کسی زندہ شخص پر کام کرو) ہم نے عذر پیش کیا کہ یونیورسٹیاں زندہ اشخاص پر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتیں (اب اجازت ہے ) تو کہنے لگے ”تہاڈی یونیورسٹیاں نوں سمجھ ای نہیں ، زندہ بندیاں تے کم کرو تے اونہاں نوں وی پتہ چلے کہ اونہاں تے کسے نے کم کیتا اے، مُردیاں نوں کی پتہ“ (تمہاری یونیورسٹیوں کو سمجھ نہیں کہ زندہ لوگوں پر کام ہو تو کچھ ان کو بھی پتہ چلے، جو مر گئے ان کو اس کام کا کیا فائدہ)۔

جتنا وقت وہ وہاں رہے، وہی محفل پر چھائے رہے۔ اس وقت ان کے جسم میں کافی پھرتی تھی اور باتیں بھی کافی تیز تیز کرتے تھے۔ بعد میں جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی ان کی پھرتی کم ہوتی گئی۔ بہرحال وہ بڑی پر لطف محفل رہی۔

منیر نیازی سے دوسری ملاقات ملتان میں ہوئی۔ ایک روز پتہ چلا کہ منیر نیازی ملتان میں ہیں۔ وہ نشتر میڈیکل کالج میں مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے اور مشاعرہ ایک رات پہلے ہو چکا تھا۔ استادِ محترم ڈاکٹر اے بی اشرف اور ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے منیر نیازی کو شعبے میں مدعو کرنے کا پروگرام بنا لیا۔ انہوں نے نشتر کالج میں کسی سے رابطہ کیا، میری، علمدار بخاری اور شعیب عتیق وغیرہ کی ڈیوٹی لگائی، یونیورسٹی وین کا بندوبست کیا اور ہمیں روانہ کر دیاکہ منیر نیازی کو لے آئیں۔

ہم لوگ نشتر پہنچے تو نیازی صاحب طلبہ میں گھرے ہوئے تھے۔ جو لوگ منیر نیازی کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ان کی فرمائشیں پوری کرنا اور نازبرداریاں کرنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ نشتر کے طلبہ ان کی نازبرداریوں سے اس وقت تک تھک چکے تھے اور کسی نہ کسی طرح ان سے خلاصی چاہتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کے چہرے کھل اٹھے۔ ہم نے نیازی صاحب سے ساتھ چلنے کی گزارش تو وہ فوری طور پر تیار ہو گئے اور وہاں سے رخصت ہوتے وقت طلبہ سے کہنے لگے، ”مینوں سدھنا ہووے تے“ گرائپ واٹر ”دا انتظام ضرور کریا کرو۔“ گرائپ واٹر ”توں بغیر میری زبان دی لکنت نہیں کھل دی“ (مجھے بلانا ہو تو ”گرائپ واٹر“ کا بندوبست لازمی کیا کرو، اس کے بغیر میری زبان کی لکنت نہیں کھلتی)۔

وین روانہ ہوئی تو منیر نیازی بھی رواں ہو گئے، اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے اچانک کہنے لگے ”مجھے سگریٹ چاہئیں، پہلا کوٹا ختم ہو چکا ہے“ ۔ وین کو راستے سے نواں شہر چوک کی طرف موڑدیا گیا۔ نواں شہر کا نام سنتے ہی کھل اٹھے اور کہنے لگے ”میں اک عشق نواں شہر ملتان وی کیتا سی“ (میں نے ایک عشق ملتان نواں شہر میں بھی کیا تھا) ۔ سگریٹ کے دو پیکٹ اور ماچس خرید کر ان کو دی گئی۔ انہوں نے سگریٹ سلگایا اورپھر نواں شہر کے عشق کی داستان شروع کر دی اور یونیورسٹی تک اس کی تفصیلات بیان کرتے رہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ کوئی حقیقی واردات تھی یا اردو زبان کے معروف رومانوی شاعر اختر شیرانی کی کسی خیالی سلمیٰ، عذرا یا ریحانہ کی طرح کی کوئی کہانی تھی، بہرحال بہت دلچسپ تھی۔

یونیورسٹی پہنچے تو تقریب کا انتظام ہو چکا تھا۔ تقریب محدود پیمانے کی تھی جس میں صرف شعبُہ اردو کے طلبہ شریک تھے۔ انوار احمد صاحب نے منیر نیازی کے لئے تعارفی اور خیر مقدمی کلمات ادا کیے ۔ میں نے اپنا ایک مضمون ”آدھی رات میں نیم وا دریچے کا شاعر“ پیش کیا جو انہی دنوں میں ”امروز“ لاہور کی ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ وہ دراصل منیر نیازی کی ایک نظم ”آدھی رات میں ایک نیم وا دریچہ“ کا تجزیہ تھا۔ ہماری خاتون استاد قیصرہ خانم نے ان کی وہ غزل ترنم کے ساتھ پڑھی جو ان کی شخصیت کی بھرپور اور بہترین ترجمانی کرتی ہے :

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

اور یہ اتفاق تھا، اس غزل کا اثر یا ان کی عادت کہ وہ تقریب کے دوران میں بار بار کمرے سے باہر اور اندر آتے جاتے رہے، بے چین، بے کل اور کسی اندرونی کیفیت کے حصار میں گھرے ہوئے۔

اس کے بعد منیر نیازی نے طلبہ و طالبات کی فرمائش پر اپنی کئی غزلیں اور نظمیں سنائیں اور سماں باندھ دیا۔ تقریب ختم ہوئی تو چائے کا دور چلا۔ اس کے بعد کا مرحلہ بہت مشکل تھا کہ اب کیا کیا جائے، ان کو رخصت کرنا تھا۔ بہرحال! ان کو سٹوڈنٹس یونین (اس زمانے میں سٹوڈنٹس یونینز فعال تھیں ) کے عہدے داروں کے حوالے کیا گیا کہ وہ ان کے لنچ، دیگر ضروریات اور لاہور واپسی کا بندوبست کریں۔

تیسری یاد ایک مشاعرے کی ہے جس میں منیر نیازی نے شرکت کی۔ یہ شاید 1987 کی بات ہے۔ میں ان دنوں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد بطور لیکچرر یونیورسٹی جائن کر چکا تھا۔ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے تحت ایک آل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ گرمیوں کے دن تھے اور رات کا وقت۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے لان میں مشاعرے کا پنڈال سجایا گیا۔ ملک بھر سے نامور شعرا مدعو کیے گئے تھے جن میں منیر نیازی بھی تھے۔ اس مشاعرے میں راقم نے بھی اپنی ایک غزل پیش کی تھی۔

مشاعرہ عروج پر تھا، رات بھیگ چلی تھی کہ منیر نیازی سفید براق کرتے شلوار میں ملبوس، سرخ وسفید چہرے پر بچوں کی سی حیرت لئے (یہ کیفیت ان کی آخری عمر میں بہت بڑھ گئی تھی) جناب فیاض تحسین (جو اس زمانے میں ملتان کے شاید ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر تھے ) کے ساتھ خراماں خراماں پنڈال میں داخل ہوئے۔ سب کی نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں، تالیوں سے استقبال ہوا۔ یہ تو یاد نہیں کہ اس وقت کون سے شاعر کلام پیش کر رہے تھے مگر وہ چند لمحوں کے لئے رک گئے۔

منیر سٹیج پر بیٹھ گئے تو انہوں نے اپنا کلام مکمل کیا۔ مشاعرے کے دوران میں وہ اپنی عادت کے مطابق خاموش، گم سم اور اسی تحیر میں ڈوبے بیٹھے رہے جو ان کی شخصیت کے ساتھ مخصوص ہو چکا تھا۔ ان کا نام پکارا گیا تو انہوں نے چند مختصر نظمیں اور غزلیں پڑھیں، داد وصول کی، فرمائش کے باوجود وہ زیادہ نہ سنا سکے اور اچانک سٹیج چھوڑ دیا اس پر ہمارے دوست علمدار بخاری نے کہا کہ منیر محفل کا بادشاہ ہے مگر مجمعے سے گھبراتا ہے، اسی لئے جلدی اٹھ گیا۔ شاید ایسا ہی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments