سیاہ موت۔ تدبیر سے ہار گئی


یہ تیرہویں صدی عیسوی کا نصف ہے۔ عیسائی یورپ میں کچھ سالوں سے ایشیا و افریقہ میں پھیلنے والی سیاہ موت کے بارے افواہیں گرم ہیں۔ حتیٰ کہ اکتوبر 1347 ء میں سسلی کی بندرگاہ پر بحیرہ آکسین سے آنے والے کچھ بحری جہاز لنگر انداز ہوئے۔ لوگ یہ دیکھ کر حیران ہیں، کہ ان جہازوں پر بہت سی لاشیں بکھری ہیں، جبکہ چند ایک زندہ بچے لوگوں کے جسموں پہ بنی سیاہ گلٹیوں سے خون اور ریشہ جاری ہے۔ سالوں سے افواہیں سننے والے سیاہ موت کے شکار بدقسمتوں کو پہلی دفعہ دیکھ کر ششدر اور ہیبت کا شکار ہیں۔

حکام تک یہ عجیب اطلاع پہنچی، تو جہازوں کو دوبارہ سمندر میں دھکیلنے کے احکامات جاری ہوئے۔ جن پہ عملدرآمد تو ہوگیا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ سیاہ موت یورپ میں قدم رکھ چکی تھی۔ ان بحری جہازوں کی آمد سے آئندہ کے پانچ سال کے عرصہ میں، یورپ کے دو کروڑ باسی اس وحشت ناک عفریت کا شکار ہوئے۔

تیرہویں صدی کی یہ سیاہ موت حالیہ روس کے دلدلی علاقوں سے شروع ہوئی۔ منگولیا کے قبائلی سب سے پہلے اس کا شکار ہوئے۔ ان قبائلیوں سے چین میں یہ مرض پھیلا۔ اور پھر شرق و غرب کو رواں تجارتی قافلوں سے یہ وبا تین براعظموں تک پھیل گئی۔

رات کو بستر پر تندرست لیٹنے والا شخص صبح گلٹیوں سے رستے خون اور پیپ میں لت پت ملتا۔ مریض کے اپنے بھی اس سے دور بھاگتے۔ کوئی طبیب پاس آنے کی ہمت نہ کرتا۔ مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے سے پادریوں نے بھی انکار کردیا۔ بستیوں کی بستیاں ویران ہونے اور جابجا اجتماعی قبریں بننے لگیں۔ یہ ”سیاہ موت“ طاعون کی ہولناک وبا تھی، جو تھوڑے ہی عرصے میں یورپ پر چھا گئی۔

عیسائی راہبوں نے لوگوں کو بتایا کہ ہمارے اعمال کے سبب خدا ناراض ہے۔ ہم نے خدا کو بھلا دیا تھا۔ اسی لئے خدا نے سیاہ موت کا عذاب نازل کیا ہے۔ اس عذاب سے بچنا ہے تو روٹھے خدا کو منانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ خدا کو منانے کے لئے، چرچ بھر گئے، مناجات، دعاؤں اور نذر و نیاز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نت نئی سکیمیں متعارف ہونے لگیں۔ کچھ عیسائیوں نے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے، یہودی بستیاں اجاڑنا شروع کردیں۔

تو کچھ جتھوں کی صورت قریہ قریہ گھوم کر چمڑے کے کوڑوں، آہنی چھریوں سے ماتم بپا کرنے لگے، کچھ پادری قریہ قریہ گھوم کر عوام کو اکٹھا کرتے اور آہ و زاری سے دعائیں کرواتے، تاکہ خدا کو رحم آئے اور عذاب ٹل جائے۔ یاس و نا امیدی سے بھری آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتی رہیں۔ لیکن سیاہ موت کی تاریکی چھائی رہی اور ہلاکت کا کوڑا برستا رہا۔

دوسری طرف مسلم خطوں میں ”جو جہاں ہے وہیں رہے“ کا عمومی نفاذ ہوا۔ یورپ میں ہی واقع غرناطہ کی مسلم ریاست کے ایک وزیر لسان الدین ابن الخطیب جن کی شہرت محقق، مورخ، اور ماہر طب کی تھی۔ اس سیاہ موت کو متعدی مرض قرار دیا اور ایک سے دوسرے انسان تک پھیلنے بارے لکھا کہ ”متعددی مرض کے پھیلاؤ بارے تجربات اور مصدقہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مرض کپڑوں، زیورات، استعمال کے برتنوں اور ایک شخص سے دوسرے شخص اور پھر گھروں تک پھیلتا ہے۔ وبائی علاقوں سے آنے والے یہ مرض روسرے خطوں میں منتقل کرتے ہیں۔ جبکہ سماجی دوری اختیار کرکے اس وبا سے محفوظ رہا جا سکتا ہے“

یہی وجہ تھی کہ ریاست غرناطہ کی آبادیوں میں اعلانات کروائے گئے کہ

”لوگو، مجمع نہ لگاؤ۔ بھیڑ ختم کردو۔ سیاہ موت ایک شخص سے دوسرے کو لگتی ہے۔ سیاہ موت سے خوفزدہ نہ ہو۔ سب گھروں پہ رہو اور خوش رہو۔ سیاہ موت موسیقی اور خوشی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ مرض ایک شخص سے سو صحتمند لوگوں کو منتقل ہو سکتا ہے۔ دکانوں، بازاروں، اور مسجدوں سے باہر نکل آؤ، بکھر جاؤ۔ عبادت گھروں پہ کرو، اپنے کپڑوں، سِکوں اور دیگر استعمال کی چیزوں کو سرکے کے محلول سے دھوؤ۔ اگر تم محفوظ رہنا چاہتے ہو تو! یہ ہدایات معالج اور وزیرِ سلطنت لسان الدین الخطیب کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔ ”

ان احتیاطی تدابیر کو دور دراز کے خطوں تک اپنایا گیا، دیگر عیسائی یورپ کے برعکس اٹلی میں بھی ان ہدایات پہ عمل کیا گیا۔ جس سے خاطر خواہ بچت ہوئی۔ اور وبا سے چھٹکارا ملا۔ طاعون کی یہ وبا آئندہ سات سال تک انسانوں کو شکار بناتی رہی، اور دنیا کی اک تہائی آبادی اس سیاہ موت کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئی۔ اور آخر تدبیر نے ہی سیاہ موت کو ہرایا۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ ”تدبیر، پسند سے اختیار کی گئی یا ناپسندیدگی سے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments