سوار اور سواری


جن مسلم گھروں میں تین چار سال کے بچے اور با قاعدگی یابے قاعدگی سے نماز اداکرنے والے والدین ہوں وہاں بچوں کے ایک کھیل کی روایت شاید آفاقی ہے۔ کھیل بھی کیا ہے کہ لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔ ادھر آپ سجدے میں گئے نہیں اور ادھر وہی بچہ جوابھی بظاہر آپ سے لا تعلق سا اپنی دنیا میں مگن تھا لیکن کن اکھیوں سے آپ کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا یک دم کسی چوکنے گھڑ سوار کی طرح چھلانگ مار کر آپ کی پشت پر آن وارد ہوتا ہے۔ اب آپ جو پہلے ہی خشوع و خضوع کے مسائل کا شکار رہتے ہیں رہی سہی کسر پوری ہو جاتی ہے۔ اب سجدہ لمبا کیجئے اور انتظار فرمائیے کہ کب آپ کے گھڑ سوار کا دل سواری سے اکتا جائے اور موصوف زمین پر قدم رنجہ ہوں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سواری اور سوار دونوں ہی اپنے اپنے کام کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ سوار کو سمجھ آجاتی ہے کہ کتنے فاصلے سے سٹارٹ لینا ہے اور کیا ٹائمنگ رکھنی ہے تاکہ جیسے ہی اس کی بے زبان سواری سجدہ ریز ہو تو عین اس وقت وہ پشت پر براجمان ہو چکا ہو۔

دوسری طرف سواری کو بھی سمجھ آ جاتی ہے کے اس کا چنچل سوار زیادہ دیر ایک جگہ ٹک نہیں سکتا لہذا اطمینان سے سجدے میں پڑے رہو موصوف اب اترے کہ اب۔ رفتہ رفتہ جس طرح سوار اپنے کام میں ماہر ہوتا چلا جاتا ہے اس کی حرکات و سکنات میں مزید ورائٹی آتی چلی جا تی ہے۔ چنانچہ اب معا ملہ محض سواری تک محدود نہیں رہتا۔ یہ کھیل کبھی اونچائی چڑھنے کی مشق بن جاتی ہے گویا کوہ پیمائی ہو رہی ہو، کبھی چھلانگ مارنے کے پلیٹ فارم کا روپ دھار لیتی ہے جیسے کسی سویمنگ پول میں ڈائیو ماری جا رہی ہو اور کبھی یہ سلائیڈ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔

سواری کے لیے یہ مشق تین مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ آغاز کے چند مہینوں میں کوفت سی محسوس ہوتی ہے۔ ایک خواہ مخواہ کا جھنجھٹ اور الجھن سی۔ دوسرے مرحلے میں جب رولز آف دا گیم سمجھ آ جاتے ہیں اور سوار، سواری کو ضروری تربیت دے چکا ہوتا ہے تو لطف آنے لگتا ہے۔ جتنی دیر سوار پشت پر اور سواری سجدے میں رہتی ہے تو گویا ایک تار سا عبد اور معبود کے درمیان بندھ جاتا ہے۔ سجدے میں پڑی پیشانی پشت پر پڑے پھولوں نما بوجھ کے شکر میں دیر تک پڑے رہنے کی تمعنا کرنے لگتی ہے۔

تیسرا مرحل خوف کا مرحلہ ہے۔ چند مہینوں میں سواری کو احساس ہونے لگتا ہے کہ لاابالی سا سوار کھیل سے اکتانے لگا ہے۔ اس کا بڑھتا اور پھلتا پھولتا جسم اب اس کھیل کے لیے رکاوٹ بنتا جا تا ہے۔ ہر سواری بھی باقی کھیل کود کی طرح اس میں ایکٹیولی حصہ نہیں لیتی بس چپ چاپ پڑی رہتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوار کے لیے سواری کے اس کھیل کی چک مانند پڑتی چلی جاتی ہے۔ وہ سواری جو پہلے کبھی سوار کے اترنے کا انتظارکیا کرتی تھی اب اگر کبھی سوار بھول بھلا کر آ نکلے تو خوش ہو جاتی ہے۔ لیکن سوار کی آمد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

پھر ایک دن سوار، سواری کے قریب آتا ہے کچھ دیر جائزہ لیتا ہے۔ سواری ذہنی طور پر تیارہو جاتی ہے کہ سوار پر تول رہا ہے لیکن پھر کچھ خلاف توقع ہوتا ہے۔ سوار سواری کے سجدہ ریز ہونے پر کوئی حرکت نہیں کرتا وہ اس کے سجدے میں جانے کا انتظار کرنے کی بجائے اس کے سجدے سے اٹھنے کا انتظار کرتا ہے۔ جب سواری اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو سوار خاموشی سے اس کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ سواری کو اپنے سوار کے چھن جانے کا افسوس ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے سوار کے بچپن کا ایک اور زینہ پھلانگنے پر خوشی بھی ہونے لگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments