میری بہن صدیقہ انور مسعود


اپریل کی ستائیس تاریخ کو طویل عرصے پرمشتمل ایک بے لوث محبت اور پیار کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ میری بڑی بہن، صدیقہ انور مسعود، وفات پا گئیں۔

جیسے ہی میرے بھانجے نے مجھے اسلام آباد سے اس سانحے کی اطلاع دی ایک بے یقینی کے عالم میں پوری زندگی ایک فاسٹ فارورڈ پر لگی ہوئی فلم کی طرح تخیل کے پردے پر نظروں کے سامنے سے گزر گئی۔

ہمارے لئے وہ ہمیشہ سے آپا ہی تھیں۔ اگرچہ ان کا نام قدرت تھا لیکن کالج جا کر انہوں نے اپنا نام بدل کر صدیقہ رکھ لیا تھا۔ کالج میں ان کی ملاقات انور مسعود سے ہوئی جن سے شادی کے بعد سے وہ صدیقہ انور ہی کے نام سے جانی جاتیں۔

اگرچہ عمر کا تقاضا تو تھا لیکن اس کے باوجود اس غیر معمولی صفات کی حامل خاتون کی موت کا صدمہ ایسا ناگہانی محسوس ہوا جیسے کوئی خارج از امکان واقعہ پیش آ جائے۔ یہ اچانک پن حیران کن بھی تھا اور صدمہ انگیز بھی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بے بسی کا وہ احساس تھا جو کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گھروں میں مقید ہونے اور کینیڈا سے سفر پر پابندیاں لگ جانے سے ہوا۔ زندگی کے اس آخری سفر میں زبان خدا حافظ تک کہنے کو ترستی رہی۔

بہن بھائی کا رشتہ نہایت منفرد رشتہ ہے۔ بڑی بہنیں اپنے بھائیوں کے لئے ماں کا نعم البدل بھی ہوتی ہی ہیں اور ان کی دوست اور ہمدم و ہم راز بھی۔ ان میں نہ تو والدین پرانحصار والی مجبوری ہوتی ہے نہ بھائیوں کا فطری تقابل۔ یہ ایک بے غرض رشتہ ہے جس میں صرف ایک دوسرے کا وجود ہونا ہی وجہ جواز کے لئے کافی ہے۔

میرے لئے اس رشتے میں چاہت اور جذباتی قربت کے ساتھ ساتھ فاصلے اور دوری کی مجبوری کا احساس بھی شدت سے موجود تھا۔

درمیان من و تو رشتہ موج است و کنار
دم بدم با من و ہر لحظہ گریزاں از من

اس بے لوث پیار اور ہزاروں میل کے فاصلے میں وہی رشتہ ہے جو ایک مقولے کے مطابق آگ اور ہوا میں ہوتا ہے۔ اگر کم ہو تو چنگاری بجھ جاتی ہے اور افراط ہو تو شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ جغرافیائی فاصلے دلوں کی محبت میں اضافے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔

آپا شاعرہ تو نہیں تھیں لیکن فارسی اور اردو ادب کا نہایت شستہ ذوق رکھتی تھیں۔ ان کی انور مسعود سے ملاقات پنجاب یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں داخلے کے وقت ہوئی جس کا تذکرہ انور مسعود نے ”صدیقہ انور کے نام“ خطوط کی کتاب کے پیش لفط میں خود یوں کیا ہے۔

”میں ایم۔ اے فارسی میں داخلہ لینے کے لیے سیدھا پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج پہنچ گیا۔ اس وقت صدر شعبہ فارسی ڈاکٹر محمد باقر تھے۔ جب میں نے اپنا فارم پیش کیا تو انہوں نے فارم کو بڑے غور سے دیکھا اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈالی اور پوچھنے لگے کہ کیا تم فارسی پڑھ کر تیل بیچو گے؟ میں نے فوراً عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب کیا آپ تیل بیچ رہے ہیں؟ یہ غیر متوقع جواب سن کر وہ مسکرائے اور فوراً میرے فارم پر دستخط کر دیے اور یہ کہا کہ آپ ذرا بیٹھیں آپ سے مزید کچھ پوچھنا ہے۔

اب قدرت کا یہ نظام دیکھئے کہ میرے داخلہ فارم پر دستخط کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نائب قاصد محمد حسین سے کہا کہ اگلی امید وار قدرت الٰہی صدیقہ کو بلایا جائے۔ یہ انوکھا سا نام سن کر میں بہت متعجب ہوا۔ چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی داخل ہوئی جو بڑی پر وقار شخصیت کی حامل، متانت اور مشرقیت کا پیکر اور مجسم شائستگی دکھائی دیتی تھی۔ آنکھیں ایسی حیا دار اور پر کشش کہ دیکھنے والا ان میں ڈوبتا ہی چلا جائے۔ قسمت کی کرشمہ سازی دیکھئے۔ مجھے اس وقت کیا معلوم تھا کہ یہی لڑکی چند سال بعدمیری شریک حیات ہو کر صدیقہ انور بننے والی ہے ”۔

آپا ایک خاصے روایت پسند، مذہبی اور تقلیدی گھرانے میں پلی بڑھیں۔ ہمارے والد ان لوگوں میں تھے جو خاندان کے ڈسپلن کا انتہائی پاس رکھتے ہیں۔ لیکن ایک خاصیت جس نے انہیں باقی روایتی مذہبی گھرانوں سے ممتاز کیا وہ ان کا تعلیم پر اصرار تھا۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر۔ ان کا واحد فخر ان کی تعلیم سے محبت تھی۔ ایک مرتبہ ہمارے بچپن میں جب مالی حالات بہت بگڑے اور والد کے سامنے یہ مشکل آن پڑی کہ بچوں کی تعلیم، جس پر خاصہ پیسہ خرچ ہو رہا تھا، جاری رکھنی چاہیے یا نہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر حالات نہ سنبھلے تو بیٹوں کو سکول سے ہٹا لیں گے لیکن بیٹیوں کی تعلیم ہر حال میں جاری رہے گی۔

فیمینزم کا لفظ ایجاد ہونے سے بہت پہلے وہ ایک سچے معنی میں فیمینسٹ تھے۔ آپا نے ہوم سکولنگ کر کے بی۔ اے۔ کیا اور پھر پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں ایم۔ اے کے لئے داخلہ لیا۔ جہاں قسمت کے کھیل نے ان کی ملاقات انور مسعود سے کرائی۔

ہمارے والد کو انور مسعود سے ان کی بیٹی کی ملاقات کے بارے میں ناراضگی کے خوف سے شروع شروع میں لا علم رکھا گیا تھا۔ جب بات ذرا آگے بڑھی تو میری ذمہ داری لگائی گئی کہ میں انور کو ساتھ لے کر گھر آؤں اور ان کی ملاقات والد سے کراؤں۔ آپا بہت نروس تھیں۔ یہ ایک بہت بڑا مرحلہ طے کرنا تھا۔ میں خود گھبرایا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں انور کو لے کر والد سے ملانے کے لئے لے کر آیا وہ اس وقت چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک بڑی سی چائے دانی گرم گرم چائے سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے ایک کرسی انور کے بیٹھنے کے لیے آگے کی لیکن والد نے انہیں چارپائی پر بیٹھنے کی دعوت دی اور چائے کی پیشکش کی۔

انور نے انتہائی تکلف اور شستگی سے جواب دیا
جی شکریہ۔ لیکن میں نے ابھی پرسوں ہی چائے پی تھی۔

ہمارے والد مزاجاً بہت سنجیدہ تھے لیکن اس بات پر وہ ایسا قہقہ مار کر ہنسے کہ اندر کمرے سے امی باہر نکل کر آ گئیں کہ خیریت تو ہے یہ کیا انقلاب آ گیا۔ اس ایک فقرے نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا اور ہمارے والد نے اپنی بیٹی کے انتخاب پر منظوری اور پسندیدگی کی مہر ثبت کر دی۔ ا انہوں نے انور کے اس شعر کی عملی تصویر پیش کی کہ

مول کیا پوچھتے ہیں آپ ہمارا ہم تو
لطف گفتار خریدار پہ بک جاتے ہیں

خود شاعرہ نہ ہونے کے باوجود صدیقہ انور شاعر گر ضرور تھیں۔ اس میں مبالغے کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں کہ دینا کے ہر کونے میں ہونے والے مشاعروں میں بغیر کسی پریشانی یا تشویش کے انور مسعود کی شرکت کو ممکن بنانے میں انہوں نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا۔ کچھ عرصے تک تو وہ خود ان کے ساتھ چلی جاتی تھیں لیکن بعد میں شیپرون کا یہ فرض منصبی انہوں نے اپنے سمدھی امجد اسلام امجد کے سپرد کر دیا تھا۔

انور مسعود کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان جیسا درویش صفت انسان گاہے گاہے نظر آتا ہے۔ درویش شاعر کی مشاعروں میں کامیابی تو ممکن ہے لیکن اکثر ایسے شعرا ذاتی زندگی میں ناکامی کی عبرت ناک مثال بھی ہوتے ہیں۔ احساس ذمہ داری کے فقدان کے باعث وہ ان اہم ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جن کے لئے مالی آسودگی نہ سہی عسرت کے عفریت کو گھر کی دہلیز سے دور رکھنا لازم ہے۔

ایسے شاعراولاد کی اس تربیت کو مشاعروں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں جن پر ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہوتا ہے۔

یہ اعزاز صدیقہ انور کو جاتا ہے کہ انہوں نے انور مسعود کوان گھریلو روز مرہ کی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا جن کو شعرا وبال جان گردانتے ہیں۔ ان میں تعلیم، تربیت، گھر گرہستی، عزیز و اقربا سے تعلق اورمعاشرے میں اپنا با وقار مقام جیسی وہ تمام غیر رومانی ذمہ داریاں شامل ہیں جن کی بنیاد پر نسلیں بنتی یا بگڑتی ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کی گرد آلود پگڈنڈیوں سے لے کر پیرس کی شانزے لیزے تک جہاں جہاں انور مسعود کی تخلیقی جبلت انہیں لے گئی، انہیں اور لاکھ فکریں ہوں تو ہوں، لیکن یہ فکر صدیقہ انور نے کبھی نہیں ہونے دی کہ گھر کون سنبھالے گا؟ بچوں کی تعلیم، صحت، طرز زندگی، معاشی ضروریات کا کون خیال رکھے گا؟

بچوں کو ماں نے جتنا وقت اور توجہ دی۔ انور مسعود اور آپا نے انہیں جتنا پیار دیا، نہ صرف ان کے بچوں نے بلکہ بچوں کے ازدواجی ساتھیوں نے اس پیار کو اور بڑھ چڑھ کر لوٹایا۔ عاقب اور روشین (امجد اسلام امجد کی صاحبزادی) نے دن رات ایک کر کے ان کے مکان کی تعمیر اور تزئین کے لئے کام کیا۔ عمار اور شنیلہ نے انہیں اتنا پیار دیا کہ جب کبھی کوئی مسئلہ ان کے ذہن کو پریشان کرتا تو وہ فوراً ان دونوں کے گھر کا رخ کرتیں۔ جواد اور زیبا نے نہ صرف گھر بار بلکہ انور کے عالمی مشاعروں میں شرکت کے انتظامات کو انتہائی خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ لینہ اور حاشر اور عدیلہ اور راشد نے ان کی زندگی کو محبت اور دلچسپیوں سے بھر پور رکھا۔

شادی کے بعد، اگرچہ دونوں میاں بیوی پروفیسر تھے لیکن اس کے باوجود کافی عرصے تک ان کے معاشی حا لات انتہائی نامساعد رہے۔ اس دوران انورمسعود کو صرف بیوی بچوں کا ہی نہیں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا۔ بعد میں اگرچہ سب بچے اپنے اپنے انداز میں گھریلو، معاشی، معاشرتی، اور ذاتی شعبوں میں قابل تعریف کامیابی سے سرخرو ہوئے لیکن آخری دم تک ان کی امی ان کو اپنی زندگی کے ایسے مشکل حالات سے باخبر رکھتی رہیں جن میں اولاد نے بچپن گزارا تھا تاکہ وہ سب نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی، ایاز قدر خود شناس، جیسا سبق یاد رکھیں۔

ہم سب ایک ایسی شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں جس نے اپنے پائدار نقوش ان تمام لوگوں پر چھوڑے ہیں جنہوں ان کے لمس کو محسوس کیا۔ غمناک حقیقت تویہ ہے کہ اس محرومی سے سب سے زیادہ متاثر انور مسعود ہوئے ہیں جو اپنی زندگی کے اس ساتھی سے بچھڑ گئے جس نے پچپن سال دن رات ان کا ساتھ دیا۔

لیکن ان کی شریک حیات نے اولاد کی صورت میں انہیں وہ تحائف دیے ہیں جو تا حیات ان کی خوشحالی، عافیت اور تخلیقی شوق سخن کی تسکین کے لئے کوشاں رہیں گے۔

انور نے ابھی بہت کچھ کہنا ہے۔ بہت کچھ لکھنا ہے۔ اردو، پنجابی اور فارسی کو نوازنا ہے جن کے گیسو ابھی منت پذیر شانہ اور
شمع یہ سودائی دل سوزئی پروانہ ہے
اختتام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments