پاکستان میں زکوٰۃ کے نظام پر کیا خدشات ہیں؟


زکوٰۃ

زکوٰۃ کاٹنے کے موجودہ نظام پر پاکستان میں کئی لوگوں کو اعتماد نہیں ہے اور ایسے لوگوں کی اس ضمن میں یہ رائے ہے کہ ان کے کھاتوں سے زکوٰۃ کی مد میں کاٹی گئی رقم مستحقین کو نہیں ملتی

پاکستان میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جو محکمے وفاق سے لے کر صوبوں کو تفویض کیے گئے ان میں زکوٰۃ کا محکمہ بھی ہے جس کے بارے میں پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے مبینہ طور پر اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے۔ ان بے ضابطگیوں کے بارے میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں ہر سال زکوٰۃ کی مد میں اربوں روپے لیے جاتے ہیں اور اس ترمیم کے بعد اب زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا واحد طریقہ حکومت کی طرف سے زکوٰۃ کے نصاب کے اعلان کے بعد بینکوں میں سیونگز اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی رقم سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی رقم کو منہا کیا جاتا ہے۔

پہلے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں یہ نظام کب رائج ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ہر سال 240 ارب روپے کی خیرات

’پاکستان کے سخی اور مخیر عوام کورونا کے خلاف متحد‘

کورونا از خود نوٹس: ’کسی نے بھی شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں جمع کروائی‘

پاکستان میں زکوٰۃ کا قانون کب رائج ہوا؟

پاکستان میں زکوٰۃ اور عُشر کا قانون سابق فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں سنہ 1980 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں نافذ کیا گیا۔

جب یہ قانون عمل میں لایا گیا تو خدشات پہلے سے ہی موجود تھے کہ پاکستان کے نظام میں اس قانون پر عملدرآمد میں مشکلات پیش آئیں گی، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں بے ضابطگیوں کے خدشات بھی موجود تھے۔

اس نظام کے تحت کوشش کی گئی کہ فیڈرل زکوٰۃ کونسل اس قانون پر عملدرآمد کی نگرانی کرے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کا جج کرے جبکہ اس کونسل کے دیگر بھی اچھی شہرت کے حامل ہوں۔

اسی طرح صوبائی سطح پر بھی ہائی کورٹ کا جج اس کونسل کی نگرانی کرے جبکہ بالکل بنیادی سطح پر بالغ مسلمان، اساتذہ اور علما ایک مسجد میں بیٹھ کر زکوٰۃ کونسل کے چیئرمین اور دیگر ارکان کو منتخب کریں۔

سنہ 1983 میں جو گزٹ شائع ہوا تھا اس کے مطابق ملک بھر میں 32 ہزار زکوٰۃ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ مرکزی سطح پر بنائی گئی کونسل کے اخراجات وفاقی حکومت جبکہ صوبائی سطح پر بنائی گئیں زکوٰۃ کونسل کے اخراجات صوبائی حکومتیں برداشت کرتی تھیں۔

زکوٰۃ کے مستحق افراد کے ناموں کی فہرست مؤکل کونسل تیار کرتی تھی جبکہ زکوۃ کونسل کے ارکان پر مجموعی زکوٰۃ کا دو سے 10 فیصد تک اخراجات کی مد میں خرچہ کیا جاتا تھا۔

زکوٰۃ

جسٹس عمر عطا بندیال نے گذشتہ ماہ اپنے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے زکوٰۃ کی مد میں نو ارب روپے سے زیادہ جمع کیے لیکن یہ رقم مستحقین تک کیسے جاتی ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا

بینکوں سے جو رقم زکوٰۃ کی مد میں کاٹی جاتی اور مستحق افراد کو تقسیم کی جاتی تو ان خدمات کے عوض بینکوں کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا۔

زکوٰۃ کا یہ نظام تقریباٌ30 سال تک ملک میں رائج رہا اور بھر سنہ2010 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ معاملہ صوبوں کو چلا گیا اور سنہ1980 کا زکوٰۃ کا قانون ختم کردیا گیا۔

اگرچہ زکوٰۃ کی رقم جو بینکوں سے کاٹی جاتی ہے وہ رقم فیڈرل زکوٰۃ کونسل کے اکاؤنٹ میں ہی جاتی ہے تاہم وہاں سے یہ رقم آبادی کے تناسب سے صوبوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔

موجودہ قانون

18ویں آئینی ترمیم کے بعد زکوٰۃ کا محکمہ صوبوں کے پاس چلا گیا جس کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں زکوٰۃ اور عشر کونسل کا چیئرمین کوئی سرکاری ملازم اور یا ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ہوگا۔ عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ جج کی عدم دستیابی کی صورت میں کوئی بھی شخصں جس کی عمر 40 سال سے زیادہ ہے وہ اس کونسل کا چیئرمین بننے کا اہل ہے۔

صوبہ سندھ میں ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج اس کونسل کا سربراہ ہوگا اور جس کی تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہوگا۔

ضلعی سطح پر اس کونسل کا انتخاب صوبائی زکوٰۃ اور عشر کونسل کی منظوری سے ہوگا اور اس کونسل کے چیئرمین کا تعلق نجی شعبے سے ہوگا جبکہ لوکل سطح پر کونسل کے ممبران کا انتخاب ضلعی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا۔

مذہبی سکالر مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ میں کورونا وائرس سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران زکوٰۃ اور عشر کے بارے میں اپنی رائے پر مبنی ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سنہ 1980سے ملک میں رائج زکوٰۃ اور عشر کا قانون عملی طور پر ختم ہوگیا ہے اور یہ معاملہ وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے رائے طلب کی تھی کہ کیا زکوٰۃ سے حاصل کی گئی رقم سے لوگوں کو تنخواہیں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو انتظامی امور پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔

زکوٰۃ، مفتی تقی عثمانی

مفتی تقی عثمانی کے مطابق جو شخص زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتا ہے اور پھر اس کو تقسیم بھی کرتا ہے اس کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دی جاسکتی ہے

مفتی تقی عثمانی نے، جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ کورٹ کے سابق جج بھی رہے ہیں، اپنی رائے میں کہا ہے کہ زکوٰۃ سے حاصل کی گئی رقم کو 8 مختلف مد میں استعمال کیا جاسکتا ہے

ان میں وہ شخص جو کہ زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتا ہے اور پھر اس کو تقسیم بھی کرتا ہے اس کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ جس جگہ پر زکوٰۃ اکٹھی کی جاتی ہے اس کی دیکھ بھال کے لیے بھی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔

مفتی تقی عثمانی نے پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدین کے ادوار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فصل کاٹنے کے موسم میں لوگوں سے عشر وغیرہ اکھٹا کرنے کے لیے جن لوگوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں تو اس کے عوض اُنھیں معاوضہ بھی دیا جاتا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ زکوٰۃ کا بنیادی مقصد مستحق لوگوں میں پیسے تقسیم کرنا ہے اس لیے مسلمان فقیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حالات کو دیکھتے ہوئے زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے افراد پر ایک محدود حد تک رقم خرچ کرنا چاہیے۔

مفتی تقی عثمانی نے اپنی رائے میں امام شافعی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ زکوٰۃ اکھٹی کرنے والے افراد پر مجموعی رقم کا آٹھواں حصہ خرچ کرنا چاہیے جبکہ امام ابو حنیفہ کے مطابق ایسے افراد پر مجموعی رقم کا 50 فیصد تک خرچ کیا جانا چاہیے۔

موجودہ نظام پر لوگوں کے خدشات

زکوٰۃ کاٹنے کے موجودہ نظام پر پاکستان میں کئی لوگوں کو اعتماد نہیں ہے اور ایسے لوگوں کی اس ضمن میں یہ رائے ہے کہ ان کے کھاتوں سے زکوٰۃ کی مد میں کاٹی گئی رقم مستحقین کو نہیں ملتی۔

اہل تشیع اس بات پر متفق ہیں کہ زکوٰۃ صرف اسی کو کہتے ہیں کہ جو اپنے ہاتھ سے دی جائے اور بینکوں کے کھاتوں سے نکالی گئی رقم کہاں خرچ کی گئی، اس کے بارے میں کبھی بھی کھاتے داروں کو نہیں بتایا گیا۔

ایک کھاتے دار ذوالقرنین حیدر کا کہنا ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ واجب ہے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود مستحقین کا سراغ لگا کر اپنے ہاتھ سے زکوٰۃ ادا کرے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر قریبی رشتے داروں میں کوئی مستحق ہے تو اس کو زکواۃ کی ادائیگی سب سے بڑا ثواب ہے۔

ضیا

پاکستان میں پہلی مرتبہ زکوٰۃ اور عشر کی قومی سطح پر کٹوتی کا نظام جنرل ضیا کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا

نجی بینک میں ملازمت کرنے والے افسر سہیل لطیف کا کہنا ہے کہ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کا جب سیونگز اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے تو وہ بینک میں بیان حلفی بھی جمع کرواتے ہیں کہ بینک ان کی زکوٰۃ نہ کاٹے بلکہ وہ خود ہی زکوٰۃ ادا کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بیان حلفی کے بعد بینک ایسے شخص کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کی رقم نہیں کاٹی جاتی۔

اُنھوں نے کہا کہ اب تو دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بینکوں میں ایک بیان حلفی جمع کروادیتے ہیں کہ ان کے اکاؤنٹس سے بھی زکواۃ کی رقم نہ کاٹی جائے۔

مفتی تقی عثمانی نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اپنی رائے میں کہا ہے کہ رمضان سے پہلے لوگوں کا بینکوں سے رقم نکلوانا اس نظام پر عدم اعتماد کا عکاس ہے۔

وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل محمد حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ حکومت کو زکوٰۃ کی کٹوتی کے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس ضمن میں علما سے مشاورت کرنی چاہیے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو پھر سب سے پہلے زکوٰۃ کے نظام کو بہتر بتایا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین تک پہنچائی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp