عمران خان کا سیاسی زائچہ اور عین والوں کی حکمرانی


جب ہم سکول میں داخل ہوئے تو الف سے انار ب سے بکری اور ع سے عینک پڑھایا جاتا تھا۔ ہمارا آبائی مکان جنگلی اناروں (جسے ہم مقامی زبان میں درونا کہتے تھے ) سے ڈھکا ہوا تھا اور ڈھوک میں ایک دو بکریاں بھی موجود تھیں، جن کی پسندیدہ خوراک انھی اناروں کے پتے تھے۔ البتہ گھر میں عینک پہننے والاکوئی نہیں تھا سو عین سے عینک پڑھتے ہوئے فوراً نانا جی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے ابھر آتا تھا، جن کی سفید داڑھی مونچھیں اور سرخی مائل گندمی ناک پر سیاہ فریم کی عینک خوب جچتی تھی۔

جب ہمارے گھر میں عینک داخل ہوئی یعنی اماں، ابا اور بڑے بھائی جان نے عینک پہنناشروع کی تو نہ جانے نصاب والوں کو ہمارے خاندان سے کیا چڑ تھی کہ انھوں نے عینک کو نصاب سے خارج کر کے عین سے عقاب کر دیا اور یوں عقابوں کی ایک ایسی نسل پروان چڑھنے لگی جس میں عقابی روح بیدار تھی اور انھوں نے گزشتہ چار دہائیوں میں ”عقابیت“ کے خوب جوہر دکھائے۔

گزشتہ دو برسوں سے عین ایسا چھایا کہ نصاب مرتب کرنے والوں کے لیے کئی آپشن نکل آئے۔ جیسے عین سے عمران خان۔ عین سے عارف علوی، عین سے عثمان بزدار، عین سے عمران اسماعیل وغیرہ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عین کی اس حکومت کی طرف ہمارا دھیان خود بخود نہیں گیابل کہ اس طرف ہماری توجہ ہمارے دوست نعمان فاروق نے دلائی، جو ادبی حلقوں میں شاعر اور ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں اورعلم الاعداد اور دیگر علوم مخفی میں بھی درک رکھتے ہیں۔

کل انھوں نے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے بارے میں ایک دلچسپ نقطے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عمران خان کو بشریٰ بی بی یا کسی اور زائچہ نویس نے شروع ہی میں بتا دیا تھا کہ انھیں اپنے نام کا پہلا حرف ”ع“ بہت راس ہے، لہٰذا اپنے گرد ایسے لوگوں کا ”ہالہ“ بنائیں جن کا نام عین سے شروع ہوتا ہو یا اس میں عین کی آواز واضح ہو۔ سو موجودہ سیٹ آپ ترتیب دیتے ہوئے انھوں نے اس نقطے کو مد نظر رکھا۔ ان کا کہنا تھاکہ میرا تجزیہ یہ ہے کہ عین اگر کسی کو راس بھی ہو تو مستقل اس کا ساتھ نہیں دیتا۔

نعمان فاروق صاحب کے اٹھائے گئے نقطے کو ذہن میں رکھ کر جب ہم نے غور کیا تو بہت سی ایسی گتھیاں بھی سلجھ گئیں جو ہمیں ایک عرصے تک الجھائے ہوئے تھیں۔ جن میں آپ کو شریک کرنا ہمارا ”فرض عین“ ہے۔

سب سے پہلے ہم پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے کو لیتے ہیں جس پر اس وقت عارف علوی صاحب فائز ہیں آپ جانتے ہیں ان کی جگہ اور بھی بہتر امید وار ہو سکتے تھے لیکن کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جس کے نام میں دو دفعہ عین آتا ہو اور وہ بھی دونوں حصوں کے شروع میں۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے باری آئی تو شروع میں جو نام گردش میں آئے ان میں علیم خان کا نام سر فہرست تھا لیکن جو ں ہی ان کے نام پر تنازع کھڑا ہوا توخان صاحب نے ایک ایسے عین کو ڈھونڈ نکالا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس عین کو غلط ثابت کرنے کے لیے ان کے دوستوں نے ”عیڑھی چوٹی“ کا زور لگایا مگر عمران ”عاج“ تک ڈٹے ہوئے ہیں۔

اسد عمر جنھیں خان صاحب کنٹینرپر حکمرانی ہی کے دورسے اوپننگ بیسٹمین کہتے تھے، شروع میں وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے لیکن جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بہت اہم وزارت ہے اور اسد عمر کے نام کے دوسرے حصے میں عین آتا ہے، جو زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگا اس لیے ان کے پاس دو ہی آپشن تھے یا تو اسد کو عین سے ”عسد“ لکھنا شروع کر دیتے یا پھر کسی ایسے شخص کو یہ وزارت سوپنتے جس کا نام عین سے شروع ہو سکتا تھا۔

گمان غالب ہے کہ اسد عمر نام ”سدھارنے“ کے اس مشورے کو نہیں مانے، سویہ بار گراں عبدالحفیظ شیخ صاحب کے کاندھوں پر آپڑا۔ حالاں کہ اس کام کے لیے عمر ایوب بھی کارگر ثابت ہو سکتے تھے کہ ان کے پاس اس کا تجربہ بھی تھا لیکن شاید وہ عمر نام کا چانس دوبارہ نہیں لینا چاہتے تھے خواہ یہ نام شروع ہی میں کیوں نہ ہویا پھر بتانے والے نے یہ بھی بتا دیا ہو کہ کوئی بھی منتخب وزیر خزانہ کسی طور بھی معیشت کی ترقی کے لیے نیک فال ثابت نہیں ہوگا۔ خیر پانی اور بجلی کی وزارت بھی بہت اہم تھی کہ گزشتہ حکومتوں میں سب سے زیادہ ”رولا“ پانی اور بجلی کا رہا ہے۔ سو عمر ایوب کو اسی پر اکتفا کرنا پڑا۔

سندھ میں چوں کہ ان کی جماعت کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی اور پیپلز پارٹی حسب سابق اکثریتی جماعت بن کر آئی اس لیے اسے قابو کرنے کے لیے انھیں عین کی تلاش میں زیادہ سر نہیں کھپانا پڑا۔ گورنر شپ کے لیے عمران اسماعیل حاضر تھے جن کے نام میں خوش قسمتی سے صدر صاحب کی طرح دو عین موجود تھے۔

عینوں کی فہرست بہت لمبی چوڑی ہے سو چند نام لینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جن کے پاس کوئی نہ کوئی اہم عہدہ ہے۔ علی محمد خان، علی امین گنڈاپور، علی حیدر زیدی، عثمان ڈار، علی نواز اعوان۔

غیر منتخب شدہ عینوں کی بھی خاصی تعداد خان صاحب کے ارد گرد موجود ہے جن میں سے عبدالحفیظ شیخ کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ تین اور غیر منتخب عین بھی اس وقت اہم ترین عہدوں پر فائز ہیں۔ عبدالرزاق داؤد، عشرت حسین، عاصم سلیم باجوہ۔

یہ تو تھے وہ حضرات جن کا نام عین سے شروع ہوتا تھا، کئی ایسے حضرات بھی ”عین حکمران“ ہیں جن کے نام میں کہیں نہ کہیں عین موجود ہے جیسے اعجاز شاہ، اعظم خان سواتی، ذوالفقار عباس بخاری اور سب سے بڑھ کر خان صاحب کے پرنسپل سکریٹری اعظم خان، جن کے خلاف ایک عرصے سے محاذ سر گرم ہے لیکن نہ صرف وہ اپنے عہدے پر ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے حال ہی میں پنجاب سے مرکز بدر ہوئے والے اپنے ایک کولیگ اعظم سلیمان خان کو (ان کے نام میں بھی ”اتفاق“ سے عین موجود ہے ) سکریٹری داخلہ جیسے اہم منصب پر بھی فائز کرادیا ہے۔

اگرچہ نعمان فاروق صاحب نے اس کی وضاحت نہیں کی لیکن ہم ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ عین، خان صاحب کو صرف اسی صورت میں راس ہے جب وہ کسی مرد کے نام کا حصہ ہو۔ جہاں تک خواتین کا معاملہ ہے عین چاہیے نام کے شروع میں ہو یا درمیان میں نہ صرف خان صاحب کو راس نہیں بل کہ، غین بن کرالٹا ان پر ”غیض و غضب“ ڈھاتا ہے اور انھیں ”غلط“ قرار دینے کے لیے ”غل غپاڑہ“ کر کے ان کے ”غبارے“ سے ہوا نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔

مستقبل کے حوالے سے تو نعمان فاروق ہی کوئی پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ یہ ان کا شعبہ ہے۔ لیکن ہماری دانست میں ماضی و حال یہی بتاتے ہیں۔ ماضی میں عائشہ گلالئی اور حال میں فردوس عاشق اعوان اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

سو ہمارے خیال میں اگر جمائمہ خان کا نام ”عمائمہ خان“ اور ریحام خان کا نام ”عیرام خان“ ہوتا تو بھی ان کی خانگی زندگی یوں ہی گزرتی۔ البتہ اگر جہانگیر ترین کا نام ”عمیر ترین“ ہوتا تو شاید ان کی حکومت کی صورت حال موجودہ صورت حال سے کہیں بہتر ہوتی۔

چلتے چلتے الف اور بے کا ایک مکالمہ بھی سن لیں :
الف : یار یہ اقبال بھی عجیب شاعر ہے
ب: کیوں کیا ہوا؟
الف: رات کو میں اس کا ایک شعر پڑھ رہا تھا
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے کھڑی ہوگئی قوم حجاز

ب: اس میں عجیب بات کون سی ہے؟
الف: اتنے بڑے شاعر کو یہ بھی نہیں پتہ کہ لڑائی ”عین“ سے نہیں ہوتی ”لام“ ہوتی ہے۔
ب: لام سے لڑائی لکھنے سے سچ مچ کی لڑائی چھڑ جانے کا خدشہ تھا۔ جیسے فردوس عاشق اعوان عنقریب چھیڑنے والی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments