وینٹی لیٹر صرف کورونا مریضوں کی ضرورت نہیں


کراچی میں مبینہ طور پر وینٹی لیٹر نہ ملنے کے باعث کورونا وائرس سے ڈاکٹر فرقان کی ہلاکت کی خبر مجھ سمیت ان تمام افراد کے زخموں پر نمک پاشی ہے جن کے عزیز واقارب اسپتالوں میں ایمرجنسی و ینٹی لیٹرکی عدم فراہمی پر جان کی بازی ہار گئے ہوں۔ میرے ساتھ اس طرح کا ایک اندوناک حادثہ آج سے تقریباًدوبرس قبل اس وقت پیش آیا جب میں اپنی اہلیہ (مرحومہ) کے ساتھ کینسرکی جنگ میں کراچی کی خاک چھان رہا تھا۔

وہ دن تو ویسے ہی مجھ پر بھاری تھے۔ مگر جب حادثے کے اوپرحادثہ گھیرلے توسر پرآسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔ میری اہلیہ محترمہ کینسرکے علاج کے سلسلے میں کراچی کے ایک نجی اسپتال میں ایڈمٹ تھی اور اس دن ان کو پہلی کیموتھراپی دی جارہی تھی۔ مجھے کینسرکی شدت کا تو پہلے سے علم تھا مگراس سے نمٹنے کے لئے دی جانے والی کیموتھراپی کی اذیت سے یکسر لاعلم تھا۔ چنانچہ دماغ میں طرح طرح کی پریشانیاں جنم لینے پرآنکھوں سے آنسو بے ساختہ نکل رہے تھے۔ باوجود اس کے بیگم کے حوصلے کبھی پست ہونے نہ دیا۔

کیموتھراپی کے لئے دوپہر کا ٹائم مقررتھا مگرانتظام ہونے تک وقت کافی آگے نکل چکا تھا۔ اسی کشمکش میں اچانک برادرنسبتی عرفان بیگل کی کال آگئی۔ اٹینڈ کرنے پر گھر میں میری نومولود بچی کی طبیعت بگڑنے پر اسپتال لائے جانے کی اطلاع دی۔ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹک جانے کے مصداق بھاگم بھاگے استقبالیہ پر پہنچ گیا۔

دیکھتا ہوں تو بچی کی حالت غیر ہو گئی ہے۔ اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کے ریسپشن پر واقع ایک عارضی بیڈپر اسے لٹایا گیا ہے۔ ساتھ میں خواہرنسبتی حمیدہ خاموشی سے خون کے آنسو بہارہی ہے۔ معصوم بچی کسی تکلیف کے سبب شدید بے چینی کا شکار چیختی چلاتی ہے۔ اسے غالباً خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ مگر اسپتال کا عملہ ٹس سے مس نہیں ہے۔

وجہ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ آپ کی بیٹی کی حالت خطرے سے دوچار ہے اور جان بچانے کے لئے اسے وینٹی لیٹرکی اشد ضرورت ہے۔ حیرانی میں استفسار کیا، تو پھر دیرکس بات کا؟ ایڈوانس پیمنٹ کی فکر ہے یا ڈاکٹرکی آمدکا انتظار؟ جواب ملا، جناب این آئی سی یو کے چوبیس وینٹی لیٹرز میں سے کوئی ایک بھی خالی نہیں۔ کچھ دیررکیے کوئی مریض ڈسچارج ہوا تو ایڈجسٹ کروالیں گے، ورنہ آپ کی قسمت۔

انچارچ ایمرجنسی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ زمین پاؤں کے نیچے سے سرکنا شروع ہوئی اور تھر تھر چکرآنے لگے۔ فوراً اسپتال میں ملازمت پیشہ رشتہ داروں اور یار دوستوں کو کالیں ملائیں تو چچا امتیاز، فدا حسین اور قدیر خان یک دم حاضرہوئے۔ برادر کریم نظر بیگل اور انجنئیر شبیر قاضی بھی پہنچ چکے تھے۔ بچی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کرسب کے سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ مگر رونے سے بچی اور اسپتال کے عملہ کی صحت پر کیا اثر پڑنا تھا۔ ضرورت وینٹی لیٹر کی تھی۔ چنانچہ سب نے موبائل فونز نکال کر شہرکے مختلف اہسپتالوں میں کہیں نہ کہیں ناتا جوڑنے کی کوشش شروع کردی۔

کچھ لوگ موٹر سائیکل پر اسپتالوں کی صورتحال جاننے چل پڑے۔ اک عجیب سا سماں تھا جس جو انسان فلموں ڈراموں میں تو دیکھ سکتا ہے مگرحقیقت میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسپتال کی بالائی منزل پر ماں کی کیموتھراپی جبکہ نیچے گروانڈ فلور پر معصوم بیٹی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہونا شاید ہی کوسوچ سکتا ہو۔ ایک تین سالہ بیٹی گھر میں والدین کی منتظر کہ کب ان میں سے کوئی ایک گھر لوٹے تو بازؤوں پر لیٹے سکون کی نیند سوجائے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس اندوہناک آفت نے ہرطرف سے گھیرلیا تھا اور کن ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی تھی۔

شہرکے تمام بڑے اسپتالوں سے بھی وینٹی لیٹر کے حوالے سے نا امیدی کی خبریں آرہی تھیں۔ معصوم بچی کی چیخ پکار آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی تھی کہ اسی اثنا اپنے پیارے دوست شبیررانا نے یاد دلائی کہ گارڈن کے علاقے میں واقعہ ایک نجی اسپتال میں ان کا کزن اور میرے مہربان دوست جمن علی شاہ رانا چلڈرن وارڈ کے انچارچ نرسنگ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی آنسوؤں میں بھیگی آنکھیں یک دن کھل گئیں۔

بھاگتے ہوئے استقبالیہ پر پہنچ کر بچی کو متذکرہ اسپتال تک ایمبولینس میں پہنچانے کی استدعا کی۔ جس پرشروع میں تو یہ کہہ کر انکار کیا گیا کہ مذکور اسپتال ان کے اسٹینڈرکا نہیں۔ مگر بعض ازاں جب ہم نے جا رہا نہ رویہ اختیار کیا تو بچی کواپنی ایمبولینس میں متعلقہ اسپتال پہنچانے کی حامی بھرلی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ ساڑھے تین گھنٹے کے پینتالیس ہزار کچھ کا بل بھی تھمادیا گیا۔

آدھی رات کو نومولود بچی کو گارڈن کے فاطمیہ نامی اسپتال میں وینٹی لیٹر پر چڑھا کراہلیہ سے کیموتھراپی کے اثرات جاننے کے لئے دوبارہ متعلقہ اسپتال پہنچا اور خیریت دریافت کرکے گھرمیں منتظر بیٹی کو سلانے نکل پڑا۔ اگلی صبح سویرے گارڈن اسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بچی کی حالت انتہائی نازک ہے۔ احتیاطاً خون کے انتظام کا کہا گیا۔ خون کے لئے ایک کال پر درجن بھرنوجوان حاضرہوئے مگر اس وقت تک بہت دیرہوچکی تھی۔ میں ابھی دوسرے اسپتال میں بیگم کے پاس پہنچا ہی تھا کہ گارڈن اسپتال کے ایک ذمہ دار ڈاکٹرنے کال کرکے انتہائی شائستگی سے خبردی کہ معصوم بچی اپنی زندگی کی بہار دیکھے بغیر ابدی سفر روانہ ہوگئی۔ دل میں آہ اور زبان سے بے ساختہ صدا نکلی ”اناللہ وانا الیہ راجعون!“

ہرطرف سے مصیبتوں کے گھیرنے کے باوجود قدرت کے امتحان سے انکاری نہیں تھی۔ ادھر ادھر سے یار دوست رشتہ داروں کو بلایا اور بچی کو سفر آخرت پر رخصت کردیا۔ آج جب کورونا وائرس کے سبب جان کی بازی ہارنے والے کراچی کے ڈاکٹر فرقان کی اہلیہ کی اپنے شوہرکی جان بچانے کی غرض سے وینٹی لیٹر کے لئے اسپتالوں کی ٹھوکریں کھانے کی دکھ بھری داستان سننے کو ملی تویقین ہوگیا کہ قانون قدرت کے آگے کسی بشر کی خلاصی نہیں۔ ورنہ زندگی بھردوسروں کی جانیں بچانے والے کو عین وقت پر اپنی جان بچانے کی پروا کیوں نہ ہو۔

مصیبت، ازمائش اور وبا سے بچنے کے لئے انسان اپنی بساط کے مطابق ہاتھ پیرمارتا ضرور ہے مگر ہوتا وہی ہے جو منظورخدا ہوتا ہے۔ لہذا کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لئے احتیاط سب سے بہترین حل ہے۔ پاکستان میں اس وائرس کو شکست دینا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ انسداد کورونا کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے اصولوں پر من وعن عملدرآمد نہ کیا جائے۔ خاص طورپر کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے فرنٹ لائن کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کے لئے احتیاط کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بغیراس ملک میں جہاں طبی عملہ اس خطرناک وائرس سے محفوظ نہیں وہی عام آدمی کا تو خدا ہی حافظ ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر فرقان سمیت کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے تمام طبی عملہ کی رحوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments