یوول نوح حراری: مچھر مارنے سے خیالات کے قتل تک (قسط نمبر 2 )۔


مچھر مارنے سے خیالات کے قتل تک

نظام زندگی میں ٹیکنالوجی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دراندازی کی وجہ سے بدحواسی اور سر پر منڈلاتی موت کا خوف بڑھ گیا۔ لبرل سیاسی نظام صنعتی دور میں بھاپ سے چلنے والے انجن، تیل صاف کرنے کے کارخانے اور ٹیلی ویژن کے انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے وجود میں آیا۔ لیکن اب انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی کے آگے بڑھتے ہوئے انقلاب کا مقابلہ کرنا اس نظام کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس ممکنہ استعداد کو مکمل طور پر استعمال کرنے کی بات تو ایک طرف رہی، سیاستدان اور ووٹر بمشکل ہی نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کے قابل ہوں گے۔ 1990 سے انٹرنیٹ نے دنیا کو اس طرح سے بدل کر رکھ دیا ہے کہ شاید ہی کسی اور وجہ سے اس قدر تبدیلی ممکن ہوئی ہو۔ تاہم انٹرنیٹ کے اس انقلاب کے پیچھے سیاسی پارٹیوں کی بجائے انجینئروں کی کاوشیں کارفرما ہیں۔ کیا آپ نے کبھی انٹرنیٹ کے حوالے سے ووٹ دیا ہے؟ جمہوری نظام ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کو کس چیز نے نقصان پہنچایا ہے اور فی الحال وہ آنے والے جھٹکوں (جیسے کہ مصنوعی ذہانت اور بلاک چین کا انقلاب آرہا ہے ) کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

آج پہلے ہی کمپیوٹر نے معاشی نظام کو اس قدر پیچیدہ بنا دیا ہے کہ چند ایک انسان ہی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ جونہی مصنوعی ذہانت مزید بہتر ہوگی تو انسان معاشی نظام کو بالکل بھی سمجھ نہیں سکے گا۔ اس تبدیلی کا سیاسی عمل پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا آپ ایک ایسی حکومت کا تصور کر سکتے ہیں جو انتہائی عاجزانہ انداز میں یہ انتظار کر رہی ہوگی کہ کب الگورتھم ان کا بجٹ اور ٹیکس کی نئی اصلاحات کو منظور کرے گا۔ اسی اثنا میں اسی کی ہم عصر ’بلاک چین نیٹ ورک‘ اور ’کرپٹو کرنسی‘ (جیسا کہ بٹ کوئن کی مثال ہے ) ان کے مالی نظام کی مکمل تجدید کر سکے گی۔ اس لیے ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہوجائیں گی۔ یہ ٹیکس معلومات کے تبادلہ پہ ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت معیشت میں یہی سب سے قیمتی سرمایہ ہوگا اور یہی وہ واحد چیز ہوگی جو ان گنت لین دین میں استعمال ہوگی۔ کیا اس سے پہلے کہ روپے پیسے کی اہمیت ختم ہوجائے سیاسی نظام خود کو سنبھال لے گا؟

اس سب سے اہم بات یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی کے یہ دونوں انقلابات نہ صرف ہماری معیشت اور معاشرے کے خدوخال دوبارہ سے واضح کرے گی بلکہ یہ ہمارے ذہن اور جسم پر اثر انداز ہوں گے۔ ماضی میں ہم انسانوں نے اپنی باہر کی دنیا کو قابو کرنا سیکھا ہے، جبکہ ہماری اندر کی دنیا پر ہمارا تھوڑا بہت ہی کنٹرول ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈیم کس طرح بنانا ہے اور ایک دریا کو بہنے سے کیسے روکنا ہے، لیکن ہم نہیں جانتے کہ کس طرح انسان کو بوڑھا ہونے سے روکنا ہے۔

ہم جانتے ہیں آب پاشی کا نظام کس طرح سے ترتیب دینا ہے لیکن ہمیں بالکل علم نہیں ہے کہ ایک دماغ کو کس طرح بنانا ہے۔ اگر مچھر ہمارے کان میں بھنبھناتا ہے اور ہماری نیند خراب کرتا ہے تو ہمیں اس بات کا علم ہے کہ اسے کیسے مارنا ہے۔ لیکن اگر کوئی سوچ ہمارے دماغ میں بھنبھناتی ہے اور ہمیں رات بھر جگائے رکھتی ہے تو ہم میں سے اکثر کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس سوچ کو کیسے ختم کرنا ہے۔

بائیوٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہمیں ہمارے اندر کی دنیا پر کنٹرول دے گا۔ یہ ہمیں اس قابل بنا ئے گا کہ ہم اپنی زندگی خود سنوار سکیں اور اپنی سوچوں کو اپنی صوابدید کے مطابق ڈال سکیں۔ دنیا میں کوئی بھی شخص نہیں جانتا کہ ان سب کے نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیشہ سے انسان نے ہتھیار بنانے میں انہیں عقلمندی سے استعمال کرنے کی نسبت زیادہ بہتری دکھائی ہے۔ ایک دریاکے گرد ڈیم بنا کر اس کو قابو کرنا آسان ہے لیکن اس بات کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ مجموعی طور پر ماحولیاتی عناصر پر اس کے کیا پیچیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ بالکل اسی طرح ہمارے ذہن کے بہاؤ کو بدلنا آسان ہے لیکن اس کے اثرات ہماری ذاتی نفسیات یا ہمارے سماجی نظام پر کیا ہوں گے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی میں انقلاب انجینئروں، کاروباری حضرات اور سائنسدانوں کی مرہون منت ہیں۔ یہ لوگ بمشکل ہی اپنے فیصلوں کے سیاسی مضمرات سے واقف ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ کسی بھی سیاسی گروہ کی نمائندگی نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیاں ان معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں؟ موجودہ وقت میں تو ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ کیونکہ ٹیکنالوجی سے آنے والی تبدیلی فی الحال ان جماعتوں کے سیاسی ایجنڈے میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے۔

2016 کے امریکی انتخابات کی صدارتی ریس میں ٹیکنالوجی کی خلل اندازی کا حوالہ ہیلری کلنٹن کی ای میل سکینڈ ل سے جوڑا گیا اوراس نقصان دہ امر کے باوجود کسی بھی رکن نے آٹومیشن کے ممکن اثرات پر بات نہیں کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ووٹروں کو تنبیہ کی کہ میکسکو اور چین کے لوگ ان کی نوکریوں پر قابض ہوجائیں گے، اس لیے انہیں میکسکو کے بارڈر پر دیوار بنانی چاہیے۔ لیکن اس نے کبھی بھی لوگوں کو تنبیہ نہیں کی کہ الگورتھم تمہاری نوکریاں کھا جائے گا اور نہ ہی اس نے کیلیفورنیا کے بارڈر پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بات کی ہے۔

شاید یہ باقی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ہو کہ لبرل مغرب کے مرکز میں لوگوں کا لبرل اور جمہوری عمل پر یقین کمزور ہو رہا ہے۔ اوسط علمی استعداد کے حامل افراد شاید مصنوعی ذہانت اور بائیوٹیکنالوجی کو نہ سمجھ سکیں، لیکن انہیں اس حقیقت کا ادراک ضرور ہے کہ مستقبل ان کے ہاتھ سے سرکتا جا رہا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ 1938 میں یو ایس ایس آر، جرمنی اور امریکہ میں عام انسان کی زندگی دشوار گزار ہو، لیکن اسے مسلسل یہی بتایا جاتا رہا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے اہم شخص ہے اور وہی آنے والے کل کا مقدر ہے۔ اس نے پروپیگنڈا پر مشتمل ایسے پوسٹروں کو بھی دیکھا ہوگا جن میں روایتی کان کن، لوہار اور

گھریلو خواتین کو ہیروؤں کے روپ میں دکھا یا گیا تھا۔ بلاشبہ ان پوسٹروں میں موجود ہر کردار کی جگہ انہوں نے خود کو رکھ کر محسوس کیا ہو گا اور دل ہی دل میں سوچا ہو گا کہ پوسٹر میں موجود کردار میں ہی ہوں، اس لیے آنے والا کل مجھ سے ہی ہے۔

2018 سے ایک عام شخص اپنے آپ کو بالکل غیر اہم چیزسمجھنے لگا ہے۔ گلوبلائزیشن، بلاک چین، جینیٹک انجینئرنگ، آرٹیفشل انٹیلی جنس، مشین لرننگ جیسے پراسرار الفاظ پورے زور و شور سے ٹیڈ ٹالکس، گورنمنٹ کے تھنک ٹینکوں اور ہائی ٹیک کانفرنسوں میں دہرائے جارہے ہیں اور ایک عام آدمی اس شک میں مبتلا ہو رہا ہے کہ یہ سب الفاظ اس کی زندگی کے متعلق نہیں ہیں۔ لبرل کہانی ایک عام آدمی کی کہانی تھی، جبکہ سائی بورگ اور نیٹ ورک الگوتھم کی دنیا سے اس کا کیا لینا دینا؟

بیسویں صدی میں عوام نے استحصال کے خلاف بغاوت کی اور معیشت میں اپنے اہم کردار کو سیاسی طاقت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

اب عوام کو اپنی بے تعلقی کا خدشہ ہے اور اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے وہ اپنی باقی ماندہ سیاسی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے بے چین ہورہے ہیں۔ بریگزٹ اور ٹرمپ کا عروج روایتی سوشلسٹ انقلاب کے خلاف ایک بڑی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ روس، چین اور کیوبا کا انقلاب عوام کی طاقت سے ظہور پذیر ہوا تھا، لیکن اس میں سیاسی طاقت کی کمی تھی مگر معیشت کی مضبوطی کے لیے یہ بہت اہم تھا۔ لیکن 2016 میں ٹرمپ اور بریکسٹ کو ایسے لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو آج کی سیاسی طاقت کے منبع ہیں، لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ وہ معاشی قدروقیمت کھورہے ہیں۔ شاید اکیسویں صدی کی مقبول بغاوت ایسی معاشی اشرافیہ کے خلاف نہیں ہوگی جو ان کا استحصال کرتی ہے، بلکہ ایسی معاشی اشرافیہ کے خلاف ہوگی جنہیں اب مزید ان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ممکن ہے یہ ایک شکست فاش جنگ ہو۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ استحصال کی بجائے لاتعلقی کے خلاف جدوجہد کرنا زیادہ مشکل ہے۔

نوٹ:
تحریر میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی مختصر وضاحت

کمیونزم: سیاسی نظریہ جو طبقہ واری جنگ کا حامی اور ایک ایسے معاشرے کا تصور رکھتا ہے، جس میں تمام املاک عوامی ملکیت ہوتی ہیں اور ہر شخص اپنی اہلیت کے مطابق کام کرتا اور صلہ پاتا ہے

فاشزم: فسطائیت، فاشزم آمرانہ اصول پر مبنی انتہائی دائیں بازو کی اطالوی تنظیم۔
لبرل ازم: فرد کی آزادی، آزاد تجارت اور معتدل سیاسی و سماجی اصلاحات کا قائل نظام۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس: مصنوعی ذہانت سے مراد مشینوں میں انسانی ذہانت کی نقالی ہے۔ یہ وہ مشینیں ہوتی ہیں جو انسانوں کی طرح سوچنے اوران کی طرح کاموں کی نقل کرنے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ یہ اصطلاح کسی بھی ایسی مشین پر لاگو ہوسکتی ہے جو انسان کے دماغ سے وابستہ خصلتوں جیسے سیکھنے اور مسئلہ حل کرنے کا اظہارکرتی ہیں

بریگزٹ ووٹ: جون دوہزار سولہ کا برطانوی ریفرنڈم، جس میں آبادی کے باون فیصد نے برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ کیا

صنعتی انقلاب: صنعتی انقلاب (خصوصاً جو برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں واقع ہوا

انفارمیشن ٹیکنالوجی: کمپیوٹر کی مدد سے ڈیٹا یا معلومات کو محفوظ کرنے، دوبارہ سے اس کا حصول، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور اس میں ردوبدل کرنے کی تکنیک

بائیوٹیکنالوجی: ایک ایسی ٹیکنالوجی جو حیاتیاتی نظام، زندہ خلیوں یا ان کے کچھ حصوں سے مختلف مصنوعات تیار کرنے یا تخلیق کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے

بلاک چین: یہ ایک ڈیٹا بیس ہے، جس کا اشتراک کمپیوٹروں کے ایک پورے نیٹ ورک کے سے ہوتاہے

کرپٹو کرنسی: یہ ایک نیٹ ورک پر مبنی ڈیجیٹل اثاثہ کی ایک نئی شکل ہے۔ کرپٹو کرنسی زیادہ محفوظ اور خفیہ طریقے سے مالی لین دین کو ممکن بناتی ہے

بٹ کوائن: یہ ایک کرپٹو کرنسی ہے
جینیٹک انجینئرنگ: ایک خلیہ کے جینیاتی میک اپ کو تبدیل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال

مشین لرننگ: مصنوعی ذہانت کی ایسی ایپلی کیشن جس کے تحت کمپیوٹر یا روبوٹ انسانی پروگرامنگ کے بغیر خود بخود سیکھنے اور تجربات سے خو د کو بہتر بنانے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے

سائی بورگ: ایک خیالی یا فرضی انسان جس کی جسمانی قابلیت ایک عام سے انسان سے بہت زیادہ ہوتی ہے

اس سیریز کے دیگر حصےیوول نوح حراری: اکیسویں صدی کے 21 سبق (قسط نمبر 1)۔اکیسویں صدی کے اکیس سبق – آزاد پرندہ (قسط 3)۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments