نیوزی لینڈ: لاک ڈاؤن کے دوران 97 گاڑیوں کی تاریخی چوری


ایسی چوری کا تو انھوں نے کبھی اپنے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا۔ پارکنگ میں کرائے پر دی جانے والی بہترین گاڑیاں، ترتیب سے لگی ہوئیں، ان کے تالے کھلے ہوئے اور چابیاں گاڑیوں میں لگی ہوئیں۔

نیوزی لینڈ میں کوروناوائرس کے باعث لگے غیر معمولی لاک ڈاؤن میں چوروں کا ایک گروہ واردات کے لیے نکلا۔

نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں کرائے پر گاڑیاں دینے والی جوسی نامی کمپنی کے ایک احاطے کی باڑ کاٹ کر اور گیٹ کو قبضوں سے علیحدہ کر کے گاڑیاں نکالنی شروع کیں۔

نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولات زندگی بالکل معطل ہیں اور اس دوران اس طرح گاڑیاں چرانا بہت آسان تھا۔ در حقیقت یہ اتنا آسان تھا کہ چوروں نے صرف ایک دن میں یہ گاڑیاں نہیں چرائیں بلکہ وہ تین دن تک یہ واردات کرتے رہے۔

مجموعی طور پر تین دنوں میں وہ 97 گاڑیاں اڑا لے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: ہیرے جڑا سونے کا لنچ باکس چوری

جدید گاڑیاں صرف 10 سیکنڈ میں چوری کرنا ممکن

لاکھوں ڈالر کی فراری ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران چوری

گذشتہ ہفتے کے اختتام پر جس کے ساتھ عام تعطیل بھی تھی اور جسے مغرب میں ‘لانگ ویک اینڈ’ کہا جاتا ہے، چور کئی دنوں تک جوسی کے احاطے سے گاڑیاں نکال نکال کر لے جاتے رہے جب آکلینڈ کی سڑکیں بالکل خالی پڑی تھیں۔

جوسی کے چیف رینٹل آفیسر ٹام ردنکلو نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘سچی بات یہ ہے کہ یہ خبر ایسی ہی تھی جیسے کسی نے پیٹ میں ایک لات جڑ دی ہو۔’

انھوں نے کہا کہ ‘ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے جب ہر کوئی بحیثیت قوم اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کی دیکھ بحال کر رہا ہے اس طرح چوری کی واردات بھی ہو گی۔’

کچھ تو غلط تھا

جوسی گاڑیاں کرائے پر دینے والی نیوزی لینڈ کی ایک مشہور کمپنی ہے۔ اگر آپ کبھی وہاں گئے ہوں تو آپ نے انھیں ضرور دیکھا ہوگا۔ وہ کیمپر ویگنیں کرائے پر فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں میں شامل ہے۔ کیمپر ویگنوں کے ذریعے گھومنا نیوزی لینڈ میں بہت مقبول طریقہ ہے۔

کمپنی کی تیز سبز رنگ کی گاڑیوں کی شناخت کرنا اتنا آسان ہے کہ انھیں چرا کر لے جانا پاگل پن ہی لگتا ہے۔ چنانچہ چرائی جانے والی گاڑیوں میں زیادہ تر شہروں میں چلنے والی عام گاڑیاں تھیں اور ان میں صرف چند ہی کیمپر ویگنیں شامل تھیں۔

جوسی کو اس کی گاڑیاں چوری ہونے کی خبر پولیس سے ملی۔ یہ گاڑیاں لوسی کمپنی کے ایک احاطے میں کھڑی تھیں اور اپریل کے اس اختتام ہفتے جس کے ساتھ ایک عام تعطیل بھی شامل تھیں کمپنی کی طرف سے ان گاڑیوں کی کوئی نگرانی نہیں کی جا رہی تھی۔

نیوزی لینڈ کی سڑکیں اس وقت بالکل خالی تھیں اور لاک ڈاؤن پر سخت عملدر آمد کی وجہ سے ہر کوئی گھروں میں تھا۔ پولیس کے معمول کے گشت جاری تھے۔

پولیس انسپکٹر میٹ سروی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمیں لگا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔’ یہ گاڑیاں جس طرح چلائی جا رہی تھیں اس سے شک ہوا اور گشت پر مامور پولیس کی کچھ گاڑیوں نے ان کا پیچھا بھی کیا۔

’جب ہمیں علم ہوا کہ ہم نے جوسی کی کئی گاڑیاں غیر معمولی حالات میں دیکھی ہیں تو ہم نے مان لیا کہ یہ چوری کی گئی ہیں اور ہم نے کمپنی کو خبردار کر دیا۔‘

مقامی لوگوں کی طرف سے تعاون

چوری کی اس طرح کی واردات عام دنوں میں بھی بہت تکلیف دہ ہوتی لیکن ایک ایسے موقع پر جب پوری قوم متحد ہو کر کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے تو چوری کی یہ واردات ہونا اور بھی زیادہ دکھ کی بات ہے۔

انسپکٹر سروی نے کہا کہ ’یہ بہت مایوسی کی بات ہے۔ گاڑیوں کی چوری کی اتنی بڑی واردات انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ لوگ جب لاک ڈاؤن میں ہیں اس طرح کی واردات بھی ہو سکتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں ’لیول فور‘ کا لاک ڈاؤن نافذ تھا جہاں دوسرے ملکوں سے زیادہ سختی تھی۔

لاک ڈاؤن کی اس صورت حال میں جوسی بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کی کچھ ویگنوں میں جن میں بیت الخلاء اور غسل کی سہولت بھی ہوتی ہیں وہ ایسے لوگوں کو مہیا کی گئیں ہیں جن کے پاس قرنطینہ کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔

کمپنی کی کچھ گاڑیاں لوگوں کو گھروں پر خوراک فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔ چوری کی اس واردات کی خبر جب مقامی ذرائع ابلاغ پر آئی تو لوگوں نے بھی پولیس سے تعاون شروع کر دیا۔

جوسی کے چیف رینٹل آفیسر رودنکلو کے مطابق مقامی کمیونٹی جوسی کمپنی کی حمایت میں کھڑی ہو گئی۔ کمپنی کو اشتہار لگانے کے لیے مفت جگہیں فراہم کی گئیں جن میں لوگوں کو گاڑیاں چوری ہونے کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا اور لوگوں نے آئن لائن کم قیمت پر فروخت ہونے والی گاڑیوں کے بارے میں پولیس کو خبردار کرنا شروع کر دیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ لوگوں کا رویہ بڑا حوصلہ افزا تھا۔

آخر میں لاک ڈاؤن جس کی وجہ سے گاڑیوں کی چوری آسان ہو گئی تھی وہی اس کا انجام بھی بنا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب کچھ بند تھا اور انھیں گاڑیوں کا سراغ لگانے اور ان کو برآمد کرنے اور چوروں کو گرفتار کرنے میں بہت مدد ملی۔

ایک ایک کر کے تمام گاڑیں پکڑ لی گئیں اور انھیں جوسی کمپنی کو واپس کر دیا گیا۔ اس وقت تک 85 گاڑیاں برآمد کی جا چکی ہیں اور اس واردات میں ملوث 29 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

گرفتار کیے جانے والے زیادہ چوروں کا مقامی گینگ سے تعلق ہے لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کوئی بہت مربوط واردات نہیں تھی اور چوروں نے اس واردات کا پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں بنا رکھا تھا۔

جوسی کمپنی کو ایک سبق ضرور ملا ہے لیکن اس کی گاڑیاں واپسی آ گئی ہیں اور کارروبار کھلنے کے ساتھ ہی کرائے پر دیئے جانے کے لیے دستیاب ہیں۔

نیوزی لینڈ میں جس طرح لاک ڈاؤن پر عمل کیا گیا اس پر اس کی تعریف کی گئی ہے اور اب اس نے بتدریج لاک ڈاؤن میں نرمی شروع کر دی ہے۔

جوسی کمپنی کے مالک ٹم ایلپ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ہمارے کاروبار کے لیے انتہائی تباہ کن تھا۔’

انھوں نے کہا کہ یہ انتہائی خراب صورت حال تھی لیکن اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ جس طرح لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا اور پولیس کی کارکردگی تو بہت عمدہ تھی کہ اس نے تمام چوروں کو پکڑ لیا اور تقریباً ساری گاڑیاں برآمد کر لیں۔’

انسپیکٹر سروی کو یقین ہے کہ باقی گاڑیاں بھی برآمد کر لی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ 85 گاڑیاں پکڑی جا چکی ہیں اور باقی 12 بھی برآمد کر لی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp