بِہار: ڈائن قرار دے کر خواتین پر تشدد، انسانی فضلہ کھلا دیا


ڈائن بتا کر خواتین کے خلاف تشدد کا واقعہ

ROUSHAN
سدمیا دیوی کے 36 سالہ بیٹے دیگر گاؤں والوں کی طرح اس واردات کے گواہ ہیں

’گاوٴں والوں سے بچنے کے لیے ہم بہت بھاگے، لیکن انھوں نے ہمیں پکڑ لیا۔ رات بھر پیٹتے رہے۔ بلاوٴز پھاڑ دیا۔ ساڑی پھاڑ ڈالی اور سینے پر چڑھ کر منھ میں انسانی فضلہ ڈال دیا اور صبح باغ میں لے جا کر بال کاٹ دیے۔’

یہ کہنا ہے کہ سدمیا دیوی (فرضی نام) کا جن کی ایک ویڈیو چند دن قبل وائرل ہوئی جس میں کچھ افراد ان پر تشدد اور ان سے غیرانسانی سلوک کرتے نظر آ رہے ہیں۔

55 سالہ سدمیا اب انڈین ریاست بہار کے ضلع مظفرپور میں زیر علاج ہیں جہاں سے انھوں نے بی بی سی سے فون پر بات کی اور بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔

معاملے کا پس منظر کیا ہے؟

سدمیا سے ہونے والی بدسلوکی کی خبر اس وقت عام ہوئی جب چار مئی کی شام وائرل ہونے والی ویڈیو میں لوگ تین خواتین پر تشدد کرتے، ان کے بال کاٹتے اور زبردستی ان کے منھ میں انسانی فضلہ ڈالتے دکھائی دیے۔

یہ بھی پڑھیے

’چڑیل ہونے کا الزام لگا کر خواتین کو برہنہ گھمایا گیا‘

’بیوی کا سر بیگ میں لے کر شوہر تھانے پہنچا‘

لڑکیاں بد روحوں کے چنگل میں یا ذہنی دباؤ کا شکار

انڈیا: فیس بک فرینڈ کو گھر بلا کر قتل کرنے پر ایک شخص گرفتار

اس ویڈیو میں متاثرہ خواتین کبھی ان افراد سے بچنے کی کوشش کرتی تو کبھی مایوس اور ناامید نظر آ رہی تھیں۔

یہ بظاہر ان خواتین کو ’ڈائن‘ قرار دے کر ان پر غیرانسانی تشدد کا معاملہ ہے اور متاثرہ خاندان پیشے سے جھاڑ پھونک کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ مزدوری کر کے اپنا گزارہ کرتا ہے۔

صحافی سیتو تیواری کے مطابق سدمیا دیوی کے 36 سالہ بیٹے دیگر گاؤں والوں کی طرح اس واردات کے گواہ ہیں۔ وہ ویسے تو ہریانہ میں کام کرتے ہیں لیکن لاک ڈاوٴن کی وجہ سے آج کل گھر پر ہیں۔

انھوں ے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ’تین مئی کی صبح سدمیا دیوی کی دو بہنیں گاوٴں آئی تھیں۔ ان میں سے ایک بہن کو لگا کہ اس پر بھوت کا اثر ہے جسے اتروانے کے لیے وہ گاوٴں آئی تھیں۔‘

ان کے مطابق بھوت اتارنے کا عمل سرانجام دینے کے لیے تین مئی کی رات تینوں خواتین اور سدمیا دیوی کے ایک مرد رشتہ دار رام جی کمار (فرضی نام) جو بھوت اتارنے کے لیے بھجن گاتے ہیں، مقامی ریلوے لائن کے پاس جا کر اس کام کے لیے منتر پڑھنے لگے۔

سدمیا کے بیٹے نے بتایا ’ماں، ماسی اور بابا پوجا کر رہے تھے تبھی تقریباً دس بجے گاوٴں کے پھلواری ٹولے کے 25 افراد آئے اور سب کو پکڑ کر لے گئے۔ انھوں نے رات بھر انھیں ایک مکان میں رکھا، مارا پیٹا، کپڑے پھاڑ دیے اور چار مئی کی صبح نو بجے باغ کی طرف لے گئے۔ وہاں ان کے ساتھ مارپیٹ کی، بال کاٹ دیے اور انسانی فضلہ پلایا۔’

اس معاملے میں تین خواتین کے علاوہ رام جی کمار کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی اور انھیں بھی فضلہ پلایا گیا اور وہ بھی مظفرپور میں زیرِ علاج ہیں۔

مددگاروں کو دھمکا کر بھگا دیا گیا

سدمیا کے بیٹے کا کہنا تھا کہ ’کچھ لوگوں نے ماں کو بچانے کی کوشش کی تو انھیں ڈرا دھمکا کر بھگا دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھ سے بھی گالم گلوچ کی گئی اور دھمکا کر دور رہنے کو کہا گیا۔ اتنے سارے لوگ تھے، میں اکیلا کیا کرتا، خاموشی سے دیکھتا رہا۔’

ان کے مطابق گاؤں والوں نے سدمیا دیوی، ان کی بہنوں اور رام جی کو تشدد کا نشانہ بنانے اور انھیں انسانی فضلہ پلانے کے بعد چھوڑ دیا تو وہ گھر واپس آ گئے لیکن دن بھر وہ قے کرتے رہے۔ شام کو جب ویڈیو وائرل ہوئی تو مقامی پولیس نے اس کی بنیاد پر ابتدائی شکایت درج کی اور پھر کارروائی شروع کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا، اس کی کوئی وجہ مجھے نہیں معلوم۔ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے انھوں نے میری ماں کو ڈائن کہہ کر فضلہ پلایا۔ میں چاہتا ہوں کہ انھیں کڑی سزا ملے۔‘

نو افراد گرفتار

مظفرپور کے ایس ایس پی جینت کانت نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے میں پندرہ ملزمان میں سے نو کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق وائرل ویڈیو کی بنیاد پر دس افراد کی شناخت کی جا چکی ہے۔

ادھر سدمیا دیوی کے بیٹے پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے اس معاملے میں میرے بھتیجے کو بھی پکڑ لیا ہے، جو پوری طرح غلط ہے۔’

اس معاملے میں ملزمان کے خاندانوں سے بات نہیں ہو سکی۔

ڈائن کے نام پر خواتین کے خلاف تشدد

خیال رہے کہ انڈیا میں بہار، جھارکھنڈ، راجستھان اور اڑیسہ سمیت کئی ریاستوں میں خواتین کو چڑیل یا ڈائن قرار دے کر ان پر تشدد کے واقعات عام ہیں اور عموماً غریب، کمزور اور بیوہ یا اکیلی خواتین اس کا ہدف بنتی ہیں۔

یہ اقدامات جائیداد کے حصول، خواتین پر جنسی حق کے حصول یا دیگر وجوہات کی بنا پر بھی کیے جاتے ہیں۔

بہار میں ڈائن کے نام پر خواتین سے زیادتی روکنے کے لیے 1999 میں قانون بنا تھا لیکن آج بھی ایسی وارداتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp