انڈیا: وشاکاپٹنم میں گیس کے اخراج سے 13 افراد ہلاک، سینکڑوں بیمار


گیس لیکج

انڈیا کی جنوبی ریاست آندھراپردیش میں ایک کارخانے سے مضرِ صحت گیس کے اخراج کے بعد کم از کم 13 افراد ہلاک اور سینکڑوں متاثر ہوئے ہیں۔

گیس کے اخراج کا واقعہ وشاکاپٹنم میں واقع ایل جی پولیمر کے کارخانے میں پیش آیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح تین بجے گیس خارج ہونا شروع ہوئی اور یہ واقعہ ممکنہ طور پر غفلت کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گیس لیک کے بعد ’سینکڑوں افراد کو ہسپتال لایا گیا جن میں سے بیشتر افراد آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت کر رہے تھے۔‘

نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق ضلع مجسٹریٹ ونے چند نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اخراج کے بعد کم از کم 300 افراد کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا ہے جن میں سے تقریباً 80 افراد کو وینٹیلیٹر پر رکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بھوپال حادثے کو 35 سال ہو گئے: اب وہاں زندگی کیسی ہے؟

وشاکھا پٹنم کے پولیس کمشنر آر کے مینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک شدگان میں سے تین کی موت کارخانے کے نزدیک ہوئی اور پانچ افراد نے کنگ جارج ہسپتال میں علاج کے دوران دم توڑا۔

گیس کا اخراج اس وقت ہوا جب کارخانے میں ملک میں کورونا وائرس کے پیش نظر 24 مارچ سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد دوبارہ کام کا آغاز ہو رہا تھا۔

صوبائی وزیر صنعت گوتم ریڈی نے بی بی سی تیلگو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ جب کارخانے کو دوبارہ کھولا گیا اس وقت طریقۂ کار اور قواعد و ضوابط پر مناسب طور پر عمل نہیں کیا گیا۔

گیس لیکج

ابتدا میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ گیس تین کلومیٹر کے علاقے میں پھیل سکتی ہے اور پولیس نے پلانٹ کے قریب واقع پانچ دیہات کو خالی کروا لیا ہے۔

ایک اعلیٰ ضلعی حکام کا کہنا ہے کہ گیس لیک روکنے کی ابتدائی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں تاہم مقامی خبر رساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ اب صورتحال قابو میں ہے۔

جیسے ہی گیس کا اخراج شروع ہوا تو شہری گھبراہٹ اور خوف میں گھروں سے باہر نکل آئے اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے سڑکوں پر بےہوش ہو کر گرنے کے مناظر شیئر ہوتے رہے۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جس وقت گیس کا اخراج ہوا ہوئی اس وقت کچھ فیکٹری ملازمین فیکٹری میں موجود تھے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس متعلق کوئی اطلاع نہیں ہے۔

آندھرا پردیش کے آلودگی کنٹرول بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار راجندرا ریڈی نے بی بی سی کو بتایا لیک ہونے والی گیس سٹائرین تھی جسے عام طور پر سرد ماحول میں رکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم لیکیج کے باعث اس گیس کو سونگھنے والوں پر پڑنے والے دور رس اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

گیس لیکج

جبکہ اس دوران حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ گیس کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے منھ کو گیلے کپڑے سے ڈھانپیں۔

سٹائرین ایک طرح کی ہائیڈرو کاربن گیس ہے جو پلاسٹک، رنگ اور ٹائر وغیرہ کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ اس گیس کو سونگھنے یا نگلنے پر مرکزی اعصابی نظام پر اثر پڑتا ہے اور سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ اس سے سر میں درد اور کمزوری محسوس ہوتی ہے اور پھیپھڑوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔

جس کارخانے سے گیس کا اخراج ہوا اس کی موجودہ مالک جنوبی کوریا کی ایل جی کمپنی ہے۔ 1961 میں تعمیر ہونے والا یہ کیمیائی مادوں کا کارخانہ ہندوستان پولیمر نامی کمپنی کا تھا جسے 1997 میں ایل جی نے خرید لیا تھا۔

پولیس نے کارخانے کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد گیس کے اخراج کے اسباب کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

خیال رہے کہ انڈیا میں کارخانوں میں گیس لیک کی ایک المناک تاریخ ہے۔

سنہ 1984 میں بھوپال میں ایک کیمیکل پلانٹ میں گیس لیک سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کو دنیا کے بدترین صنعتی حادثوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔

اس واقعے کے 35 برس بعد بھی متاثرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں آج بھی جسمانی طور پر معذور بچے پیدا ہوتے ہیں جو کہ اس لیکیج کے اثرات کے باعث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp