وبا کے دنوں میں عورتوں پر تشدد


دنیا کی 35 فی صد عورتیں اپنے موجودہ یا سابق شریک زندگی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں موجود ساڑھے چھ کروڑ عورتوں کی شادی بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ ان میں ہر تین میں سے ایک عورت کی شادی پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہوئی تھی۔ دنیا کی دو سو ملین عورتوں کا نسوانی ختنہ ہو چکا ہے، ان میں سے اکثریت کا ختنہ پانچ سال کی عمر سے پہلے کر دیا گیا تھا۔ انسانی ٹریفکنگ کا نشانہ بننے والوں میں 71فی صد عورتیں اور بچیاں ہوتی ہیں۔

صنف کی بنیاد پر کیا جانے والا تشددعورتوں کے خلاف امتیاز کی بدترین شکل ہے اور عورتوں پر اس کے سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں، ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ معاشرے میں کار آمد کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ جنسی تشدد کے نتیجے میں عورتیں نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہیں اور مختلف انفیکشنز کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔ تشدد کے بعد علاج معالجہ اور قانونی اور عدالتی کارروائیوں کے نتیجے میں وہ مالی پریشانیوں کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔ (فاطمہ کافیجی، رکن عرب خواتین اتحاد)

عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے تعلیم کے مساوی مواقع اور اقتصادی خود مختاری ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ فرسودہ جاہلانہ رسوم و رواج کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ عورتوں پر ہونے والے مظالم کی قیمت ریاست اور شہریوں کو اقتصادی بد حالی کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ تشدد کے نتیجے میں عورتیں کام پر نہیں جا پاتیں ۔ علاج معالجہ، تھانہ کچہری اور دیگر اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کرونا وائرس کی وبا سمیت کسی بھی ہنگامی صورتحال میں عورتوں پر تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھیتوں یا خاندان کے لئے بلا معاوضہ کام کرنے والی عورتیں، گھریلو ملازمائیں، اور پناہ گزیں عورتوں کے تشدد کا نشانہ بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ تشدد کی وجہ سے عورتیں غربت کے شکنجے سے نکل نہیں پاتیں، اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار محدود ہو جاتا ہے۔ وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں اور انہیں مختلف جسمانی اور نفسیاتی عوارض لاحق ہو سکتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے عورتوں کے سماجی اور حفاظتی نیٹ ورکس متاثر ہوئے ہیں، مختلف سروسز تک عورتوں کی رسائی محدود ہو گئی ہے۔ اگر مرد پہلے بھی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا رہا ہے تو لاک ڈاﺅن کے صورت میں اس کا اور بھی زیادہ امکان ہے۔ عورت کا رابطہ ان لوگوں کے ساتھ کم ہو جاتا ہے جو ایسی صورتحال میں اس کا ساتھ دے سکتے ہیں یعنی میکے والے اور سہیلیاں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ عالمی لاک ڈاﺅن کی صورت میں اس وبا سے نمٹنے کے لئے جو اقدامات کر رہے ہیں، ان میں گھریلو تشدد کے مسئلے کو بھی شامل کریں۔

اس وبا کے نتیجے میں ملکی معیشت بد حال ہو رہی ہے اور اس کا اثر گھریلو حالات پر پڑ رہا ہے، وسائل کی کمی اور بے روزگاری کے نتیجے میں گھریلو تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ممتاز مزدور رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل تین میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ استحصال کا خاتمہ کر کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ آئین کے آرٹیکل نو میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے۔ آئین کے آرٹیکل سترہ میں ہر شہری کو انجمن سازی کا حق دیا گیا ہے لیکن محنت کشوں کو اس حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔  COVID  19کی عالمی وبا نے سب کو متاثر کیا ہے لیکن جن ممالک میں سماجی تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے انہیں زیادہ سنگین بحران کا سامنا ہے۔

اب اگر کراچی کا ہی سوچیں تو یہاں کتنے بنگالی اور برمی باشندے ہیں، جن کی دوسری تیسری نسل یہاں پروان چڑھی ہے مگر ان کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں ،اس لئے وہ ”احساس“ جیسے پروگراموں سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ عورتیں ویسے ہی کمزور سمجھی جاتی ہیں تو پھر ان عورتوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ ان حالات میں گھریلو تشدد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں، گھر میں رہیں، محفوظ رہیں۔ لیکن اگر عورت گھر میں غیر محفوظ ہو تو کیا کرے۔ یہ عورتیں کچی بستیوں میں جھگیوں میں رہتی ہیں۔ ایک جھگی میں بچوں سمیت دس بارہ لوگ رہتے ہیں۔ انہیں پینے کا صاف پانی اور حفظان صحت کی سہولیات حاصل نہیں ہوتیں اور لاک ڈاﺅن کے نتیجے میں وہ اور ان کے مرد بے روزگار بھی ہو چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ بار بار ہاتھ دھوئیں لیکن یہ لوگ تو پانی خریدتے ہیں، وہ کہاں سے اتنا پانی لائیں کہ بار بار ہاتھ دھوئیں۔

اس وبا سے پہلے جب تشدد کا شکار خواتین ہمارے پاس آتی تھیں تو ہم انہیں پناہ شیلٹر ہوم میں بھیج دیا کرتے تھے لیکن اب کرونا کی بدولت یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امدادی پروگراموں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے عورتوں اور لڑکیوں کی خاص ضروریات کا خیال رکھنا چاہئیے اور خاص طور پر ان کا جن کو شناختی کارڈز بنا کر نہیں دئیے جا رہے۔

لاک ڈاﺅن کے بعد تشدد ہو نہ ہو عورتوں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ضرور ہو گیا ہے۔ پہلے مردوں کا دن دفتر یا کاروبار میں اور بچوں کا اسکول اور ٹیوشن میں گزرتا تھا لیکن اب وہ پورا وقت گھر میں ہوتے ہیں، ہمارے مردوں کو گھریلو کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹانے کی عادت نہیں اور نہ ہی بچوں کو ماں کا ہاتھ بٹانا آتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو اس کی دیکھ بھال بھی عورت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مالی تنگدستی اور بے روزگاری کی وجہ سے بچوں کی شامت بھی آتی رہتی ہے اور جنسی استحصال کا بھی امکان رہتا ہے۔ عورتوں کے لئے جنسی، تولیدی صحت کی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے۔

امدادی پروگرام بنانے سے پہلے بہتر ہوتا ہے کہ حکومت یا متعلقہ ادارہ آبادی کی جنس، عمر اور معذوری کے لحاظ سے اعدادوشمار جمع کرے تا کہ مختلف گروہوں کے مسائل کا اور وبا اور اس کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے اثرات کا تجزیہ کیاجا سکے۔ فون، ای میل یا ایسے ہی کسی ذریعے سے خطرے سے دو چار خواتین سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ سیفٹی آڈٹ کرانا بھی ضروری ہے تا کہ مختلف گروہوں کو درپیش چیلنجز کا اندازہ لگایا جا سکے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے کمیونٹی سے رابطے میں رہ سکتی ہیں۔

عورتوں کی تنظیموں کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ یہی ہے کہ اس وبا کی وجہ سے صنفی تشدد اور صنفی عدم مساوات میں اضافہ ہو گا۔ ان کی اولین ترجیح عورتوں کے حقوق کا تحفظ اور ترقی ہے۔ کوئی بھی بیماری عورتوں اور مردوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتی ہے اور اس طرح کی وبائیں صنفی عدم مساوات میں اضافہ کرتی ہیں۔ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈکس عملے میں عورتوں کی تعداد ستر فی صد ہے۔ عورت ہونے کی وجہ سے انہیں جو مختلف مسائل پیش آ سکتے ہیں ، ان پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ وبا سے نمٹنے کے اقدامات طے کرتے ہوئے عورتوں کو فیصلہ سازی میں کم ہی شریک کیا جاتا ہے۔ یوں عورتوں کی صحت کی عمومی ضروریات بشمول جنسی اور تولیدی صحت کی ضروریات نظر انداز ہوتی ہیں۔

مردوں کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑٹا ہے، بے روزگاری کی صورت میں ان پر اقتصادی دباﺅ بڑھ جاتا ہے۔ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کے چکر میں وہ اپنا علاج کرانے میں بھی دیر کرتے ہیں۔ غریب لوگ، بے گھر لوگ، بے دخل کئے جانے والے لوگ، پناہ حاصل کرنے والے لوگ، ٹرانس جینڈرجیسے گروپس کو وبا کی صورت میں زیادہ مسا ئل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سب کو مل جل کر ہی اس وبا کا مقابلہ کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments