احفاظ الرحمن کے آخری نو دن: صحافت اور محبت کا آخری پڑاؤ


تیس مارچ کو آن لائن احفاظ کی بلڈ رپورٹ دیکھی تو خون میں PLATELETS کی تعداد بہت کم تھی۔ ان کے ڈاکٹر کو واٹس ایپ پر مطلع کیا تو جواب آیا کہ فوری طور پر آغا خان کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جائیں۔ میں اور فیفے ان کے میل نرس سنیل اور ڈرائیور اللہ دتا کی مدد سے انہیں کار میں بٹھا کے اسپتال کی طرف دوڑے۔ شہر میں لاک ڈاؤن تھا۔ ایک دو جگہ روکا بھی گیا مگر اسپتال کا سن کر جانے دیا۔ کرونا کی وبا کی وجہ سے اسپتال میں بھی سناٹا تھا۔ ایمرجنسی میں پلازما چڑھانے کے بعد انہیں اسپیشل کئیر روم میں منتقل کر دیا گیا۔ دوسرے دن اسپتال والوں نے خون کا انتظام کرنے کو کہا۔ رشتہ داروں اور احباب کو مطلع کیا گیا۔ نندوں کے بچے آئے، نرس سنیل کا ایک دوست بھی آیا اور بلڈ بینک میں خون جمع کروا دیا گیا۔ ایک کولیگ ملکہ کے شوہر نے بھی پیشکش کی مگر ڈاکٹرز نے کہا کہ مزید ضرورت نہیں۔ اگلے دن اس خون میں سے پلازما نکال کے چڑھایا گیا۔ میں ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی جس پر زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ خون کا نمونہ لیباریٹری میں بھجوایا گیا۔ PLATELETS کی تعداد نارمل نہیں ہو رہی تھی۔ اندر کوئی انفیکشن ہو گئی تھی جس پر کوئی اینٹی بایوٹیک اثر نہیں کر رہی تھی۔ ڈاکٹڑز نے اپنی سی پوری کوشش کر لی تو کہا کہ گھر لیجائیں۔ اب علاج کی نہیں PALLIATIVE CAREکی ضرورت تھی۔

بھاگم دوڑ میں میڈیکل بیڈ اور آکسیجن کے سلنڈرز کا انتظام کیا گیا۔

چار اپریل سے بارہ اپریل نو دن انہوں نے گھر میں گزارے اور وہ بھی اس حال میں کہ آکسیجن ماسک ایک منٹ کے لئے بھی اتار نہیں سکتے تھے کیونکہ سیچوریشن لیول گرنا شروع ہو جاتا تھا۔ ذہنی طور پر الرٹ تھے۔ ہمارے سوالوں کا جواب سر کی جنبش سے دیتے تھے۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ غنودگی طاری رہنے لگی تھی۔ ہم نے PALLIATIVE CARE کا نام تو سنا تھا لیکن کرنا کیا ہو گا، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ رمیز ہیگ (نیدر لینڈ) میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مہربانی سے لمحہ لمحہ باپ کی خبر رکھ رہا تھا۔ اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ ادویات کے ساتھ ساتھ مریض کے لئے خوشگوار ماحول پیدا کیا جائے اور اچھی اچھی باتیں کی جائیں۔ اس نے احفاظ کی کچھ نظمیں ریکارڈ کر کے بھیجیں جو ہم موبائل فون ان کے کان کے پاس رکھ کے سناتے تھے۔ ”ہائے ہینڈسم“ میں ان کے کان کے پاس جا کے کہتی اور ان کا ماتھا چومتی۔

اس روز بھی وہ غنودگی کے عالم میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے کان میں جا کر کہا ”آپ کو یاد ہے شارع فیصل پر مسجد رومی کے پاس رائٹرز گلڈ کا آفس ہوا کرتا تھا، میں نے آپ کو پہلی مرتبہ وہیں دیکھا تھا۔ آپ کو چین سے آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ آپ کے چہرے پر سرخی جھلکتی تھی اور آپ بہت کیوٹ لگتے تھے“ انہوں نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت ان کی آنکھیں معمول سے کہیں بڑی ہو گئی تھیں خبر تحیر عشق سن کر۔ لمحہ بھر بعد دوبارہ آنکھیں موند لیں، نہ جنوں رہا نہ پری رہی۔ جو رہی سو بے خبری رہی۔

روزنامہ مساوات کراچی سے 1973 ء میں نکلنا شروع ہوا تھا۔ خدا کی بستی والے شوکت صدیقی اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ میں ایم اے کرنے کے بعد گھر میں بیکار بیٹھی تھی۔ نارتھ ناظم آباد میں ہمارے گھر سے کچھ گلیاں چھوڑ کر شوکت صدیقی صاحب کا گھر تھا۔ مساوات لاہور کے ایڈیٹر نے ماہنامہ حرم میں میری تحریریں پڑھ کر مجھے منہ بولی بیٹی بنا لیا تھا اور ہم ایک دوسرے کو باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے خط میں مجھے کراچی سے مساوات نکلنے کی خبر سنائی اور شوکت صدیقی صاحب سے جا کر ملنے کے لئے کہا۔ ہم تو ایک ہی محلے میں رہتے تھے، میں اسی شام امی کو لے کر ان کے گھر پہنچ گئی۔ وہ اور ان کی بیگم بہت اچھی طرح ملے۔ امی نے انہیں بتایا کہ میرے والد میری ملازمت کے خلاف ہیں۔ ابی مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ’تم چھوٹے بھائی کو پڑھا دیا کرو، جتنی تنخواہ دفتر والے دیں گے، اتنی میں دے دیا کروں گا‘ ۔ امی نے یہی بات شوکت صاحب کو بتا دی۔ جو وہ بعد میں ہنس ہنس کر میرے رفقائے کار کو بتایا کرتے تھے۔

مساوات کے لئے اس وقت تک دفتر کی جگہ کا انتظام نہیں ہوا تھا اور شوکت صاحب نے رائٹرز گلڈ کے دفتر کو ہی عارضی طور پر مساوات کا دفتر بنایا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے اگلے روز گلڈ کے دفتر آنے اور میگزین ایڈیٹر یعنی احفاظ الرحمن سے ملنے کے لئے کہا۔ میری دوست تسنیم کے کزن شمیم عالم احفاظ کے گہرے دوستوں میں سے تھے، اس لئے ان کا ذکر تو سن رکھا تھا مگر دیکھا اس روز پہلی مرتبہ اور یہی بات ان آخری نو دنوں میں، میں نے انہیں یاد دلائی تو نیم بیہوشی کے عالم میں بھی ان کی آنکھوں کے دریچے وا ہو گئے۔

کچھ دنوں بعد ڈینسو ہال کے پاس ایک قدیم اور خستہ حال عمارت مساوات کے دفتر کے لئے مل گئی اور ہم وہاں جانے لگے۔ نیا اخبار نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور اس زمانے میں تو کمپیوٹر اور دیگر سہولتیں بھی دستیاب نہیں تھیں۔ احفاظ پر کام کی ذمہ داری بہت زیادہ پڑ گئی تھی۔ ان کے چہرے کی سرخی غائب ہونے لگی تھی۔ ہیڈ کاتب یعقوب سوز صاحب سے آئے دن جھگڑا ہوتا تھا۔ چیخم دھاڑ کے ساتھ کبھی تو کرسیاں چلنے کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ تنگ آ کر شوکت صاحب نے احفاظ پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ کاتبوں والے حصے کی طرف جائیں گے ہی نہیں مگر پھر یوں ہوا کہ کچھ عرصہ بعد ہی احفاظ اور سوز صاحب میں گہری دوستی ہو گئی اور دونوں پریس کلب جاتے اور گھنٹوں شطرنج کھیلتے۔ احفاظ کی ٹریڈ یونین سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری تھیں۔ سوز صاحب کا ان سرگرمیوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا مگر شطرنج کے شوق میں ایک مرتبہ انہیں بھی پریس کلب میں احفاظ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی بنا پرگرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں یہ واقعہ یاد کر کے ہم لوگ اور خود وہ بھی بہت ہنسا کرتے تھے۔

مریض سے اچھی اچھی باتیں کرنی چاہئیں، یہ تو سب ہی جانتے ہیں اور رمیز کے مشورے کے بعد میں کوشش کرتی تھی کہ ان کے پاس بیٹھ کر زیادہ باتیں کروں حالانکہ وہ نیم غشی کے عالم میں ہوتے تھے لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ وہ میری باتیں سن سکتے تھے۔ You are the best magazine editor of Pakistan۔ پھر مجھے روزنامہ مساوات کا یکم مئی کا ایڈیشن یاد آ جاتا جس کے لئے احفاظ نے خاص طور پر مضمون لکھا تھا۔ اف، کیا زمانہ تھا وہ بھی۔ بھٹو نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یکم مئی کو سرکاری تعطیل قرار دیا تھا۔ شکاگو کے شہیدوں کی داستاں سن کر رگوں میں لہو جوش مارتا تھا۔

ہمارا تعلق ساٹھ اور ستر کے عشروں میں انقلاب کے خواب دیکھنے والی نسل سے تھا۔ ہم سب نے کسانوں، مزدوروں اور مظلوموں کے دکھوں کا مداویٰ اس کتابچے میں ڈھونڈا تھا، جس کا آخری جملہ تھا: ”دنیا کے محنت کشو، تمہارے پاس کھونے کے لئے تمہاری زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور پانے کے لئے ساری دنیا پڑی ہے“۔ بائیں بازو کے اکثر لوگ پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے۔ لیکن بائیں بازو کے بہت سے چھوٹے چھوٹے گروپس جنہیں ہم کمیونسٹ پارٹی کہتے اور سمجھتے تھے، اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے تھے۔ فضا میں انقلاب کا رومان بسا ہوا تھا۔ چین نواز دھڑے کے لوگ ماؤ اور چو این لائی کے دیوانے تھے۔ احفاظ چین سے نئے نئے آئے تھے اور لوگ باقاعدہ مساوات کے دفتر میں ان کی ’زیارت‘ کے لئے آتے تھے کہ دیکھیں تو سہی کون ہے جسے ان کے خوابوں کی مملکت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان رومینٹک روحوں کو کافی دھچکے پہنچے۔ معراج محمد خان نے استعفیٰ دے دیا اور اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی۔ معراج سے احفاظ کی گہری دوستی تھی مگر ٹریڈ یونین کے میدان میں منہاج برنا احفاظ کے گرو تھے جن کے ساتھ ان کی محبت اور وفاداری آخر تک برقرار رہی۔ اس زمانے میں ہمارا نعرہ ”تیرے ساتھ جینا تیرے ساتھ مرنا۔ مہاج برنا۔ منہاج برنا“ ہوا کرتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments