ہسپانوی فلو: 1918 کی عالمی وبا کے بعد دنیا کیسے بدلی تھی؟
اگر آپ نے عالمی وبا ہسپانوی فلو کے بارے میں پہلے نہیں سنا تھا تو اب کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد غالباً جان گئے ہوں گے کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں بھی دنیا ایک مہلک وائرس کی شکار ہو چکی ہے۔
‘عالمی وباؤں کی ماں’ کے نام سے جانی جانے والی اس وبا کے ہاتھوں 1918 سے 1920، محض دو برس، کے دوران دو سے پانچ کروڑ افراد لقمۂ اجل بنے۔
سائنسدانوں اور مؤرخین کا خیال ہے کہ دنیا کی اس وقت ایک عشاریہ آٹھ ارب کی کُل آبادی کا تیسرا حصہ اس وبا سے متاثرہ ہوا تھا۔
اور ان ہی دنوں اختتام کو پہنچنے والی پہلی عالمی جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں ہسپانوی فلو نے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کروڑوں جانیں لینے والے ہسپانوی فلو سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟
ایسے پُراسرار وائرس جو فلو سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے
اب جبکہ دنیا کووِڈ-19 کے بحران سے دوچار ہے، ہم ذرا پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پچھلی وبا کے بعد، جس میں ہر چیز تھم سی گئی تھی، ابھرنے والی دنیا کیسی تھی۔
1921، ایک بالکل ہی الگ دنیا
یقیناً 100 برس میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔
کسی بیماری سے نمٹنے کے لیے اس وقت طب اور سائنس آج کے مقابلے میں بہت محدود تھی۔
ڈاکٹروں کو معلوم تھا کہ ہسپانوی فلو کے پھیلنے کا سبب جراثیم ہیں جو انسان سے انسان کو لگ سکتے ہیں، مگر ان کا خیال تھا کہ یہ جراثیم بیکٹیریا ہیں نہ کہ وائرس۔
علاج معالجہ بھی محدود پیمانے پر دستیاب تھا۔ دنیا کی پہلی اینٹی بایوٹِک 1928 میں دریافت ہوئی تھی۔
فلو کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی دنیا کی پہلی ویکسین 1940 کے عشرے میں وجود میں آئی۔
سب سے اہم یہ کہ دنیا میں صحت کا کوئی عالمگیر نظام وجود ہی نہیں رکھتا تھا اور امیر ملکوں میں بھی گندے پانی کی نکاسی کی سہولت کو فضول خرچی تصور کیا جاتا تھا۔
ہسپانوی فلو کے موضوع پر ایک کتاب لکھنے والی مصنفہ اور سائنسداں لورا سپِینی کہتی ہیں کہ ‘صنعتی ملکوں میں زیادہ تر ڈاکٹر یا تو نجی طور پر کام کرتے تھے یا پھر رفاہی اور مذہبی ادارے ان کے اخراجات اٹھاتے تھے، اور پھر بہت سے لوگوں کی ان تک رسائی بالکل نہیں تھی۔‘
جوان اور مفلس
زیادہ خرابی اس لیے بھی ہوئی کہ ہسپانوی فلو نے ایسے انداز میں وار کیا جو اس سے پہلے فلو کی عالمی وباؤں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا، مثلاً 1889-90 کی وبا سے دنیا بھر میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے شکار ہونے والوں کی اکثریت کی عمریں 20 سے 40 برس کے درمیان تھیں اور عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ اس کا سبب شاید یہ تھا کہ یہ وبا مغربی محاذ کے پرہجوم کیمپوں میں شروع ہوئے اور جیسے جیسے پہلی عالمی جنگ میں شریک فوجی گھروں کو لوٹے ساتھ وبا بھی لائے۔
دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے
کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
وبا سے غریب ممالک بھی بری طرح سے متاثر ہوئے۔
امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق فرینگ برّو کی 2020 میں کی گئی تحقیق میں اندازہ لگایا ہے کہ ہسپانوی فلو نے امریکا کی عشاریہ پانچ فیصد آبادی (ساڑھے پانچ لاکھ افراد) کو متاثر کیا تھا جبکہ انڈیا میں پانچ عشاریہ دو فیصد (ایک کروڑ 70 لاکھ افراد) اس کی زد میں آئے تھے۔
‘پینڈیمِک 2018’ یعنی عالمی وبا 2018 کی مصنفہ کیتھرین آرنلڈ کہتی ہیں، ‘پہلی عالمی جنگ اور ہسپانوی فلو سے پہنچنے والا جانی نقصان اپنے پیچھے معاشی بحران چھوڑ گیا تھا۔’
ان کے بقول کئی ملکوں میں تو کاروبار چلانے، کھیتوں میں کام کرنے، مختلف شعبوں میں تربیت پانے کے لیے، حتٰی کہ شادی کرکے بچے پالنے تاکہ وہ لاکھوں ہلاک ہونے والوں کی جگہ لے سکیں، نوجوان باقی ہی نہیں رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘اہل مردوں کی کمی نے ‘سپیئر وومِن’ یعنی اضافی عورتیں کہلانے والے مسئلے کو جنم دیا جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین کو موزوں شریک حیات ہی نہیں مل سکا۔’
خواتین ملازمتوں میں
اگرچہ ہسپانوی فلو سے معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی، مثال کے طور پر جیسے 14 ویں صدی میں کالا طاعون جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ کا سبب بنا، تاہم اس نے کئی ملکوں میں صنفی توازن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی سے وابستہ محقق کرِسٹین بلیک برن کی تحقیق کے مطابق امریکا میں ملازمین کی کمی نے عورتوں کے لیے ملازمت میں آنے کے مواقع پیدا کیے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘1920 تک ملازمین کا 21 فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔’
اسی برس کانگریس نے 19ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جس سے امریکی خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا۔’
بلیک برن کے بقول 1918 کا فلو دنیا کے کئی ملکوں میں خواتین کے حقوق پر اثر انداز ہوا۔
کام کرنے والوں کی کمی کی وجہ سے تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا۔
امریکی حکومت کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ صنعتی شعبے کے اندر 1919 میں 21 سینٹس فی گھنٹے کا مشاہرہ 1920 میں بڑھ کر 56 سینٹس فی گھنٹہ ہوگیا تھا۔
نو مولود بچوں پر اثرات
سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق ہسپانوی فلو کے دوران پیدا ہونے والے بچوں میں امراض قلب جیسی بیماریاں وبا سے پہلے یا بعد میں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں زیادہ پائی گئیں۔
برطانیہ اور برازیل میں کیے گئے تجزے کے مطابق 1918-19 میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے کالج میں داخلے اور باقاعدہ ملازمتیں اختیار کرنے کے امکانات بھی کم تھے۔
بعض نظریے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماں پر عالمی وبا کے دباؤ نے رحم مادر میں بچے کی نشو و نما کو متاثر کیا ہوگا۔
نوآبادیاتی نظام کے خلاف جذبات اور عالمی تعاون
سنہ 1918 تک انڈیا پر برطانوی تسلط کو ایک صدی بیت چکی تھی۔
وہاں مئی کے مہینے میں ہسپانوی فلو کی وبا پھوٹی اور اس نے وہاں موجود انگریزوں کے مقابلے میں مقامی افراد کو زیادہ متاثر کیا۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ نچلی ذات کے تصور کیے جانے والے ہندوؤں میں ہلاکتوں کا تناسب ایک ہزار میں 61.6 تھا جبکہ یورپی شہریوں میں ہر ایک ہزار میں نو افراد ہلاک ہوئے۔
انڈین قوم پرستوں نے اس تاثر کا فائدہ اٹھایا کہ برطانوی حکمران بحران سے ٹھیک طور پر نمٹنے میں ناکام رہے۔ سنہ 1919 میں مہاتما گاندھی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدے ‘ینگ انڈیا’ نے اپنے ایک شمارے میں برطانوی حکام کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اس نے اپنے اداریے میں لکھا: ‘کسی بھی دوسرے مہذب ملک کی حکومت ایک انتہائی بھیانک اور مہلک وبا کے خلاف ایسی نااہلی کا مظاہرہ نہ کرتی جیسا کہ انڈیا کی حکومت نے کیا ہے۔’
اس وبا نے جنگ عظیم اوّل کے بعد عالمی تعاون کی ضرورت کو بھی حد درجہ اجاگر کر دیا۔
سنہ 1923 میں اقوام متحدہ کی پیشرو لیگ آف نیشنز نے ‘ہیلتھ آرگنائزیشن’ یا ادارۂ صحت کے قیام کا اعلان کیا۔
یہ ایک ٹیکنیکل یا فنی ادارہ تھا جسے سفارتکاروں کے بجائے طبی شعبے کے ماہرین چلاتے تھے اور جس نے عالمی وباؤں سے نمٹنے کا نظام وضع کیا۔
عالمی ادارۂ صحت کا قیام 1948 میں عمل میں آیا۔
عوامی صحت کے شعبے میں پیش رفت
ہسپانوی فلو کی وبا سے ہونے والے نقصان نے عوامی صحت کے شعبے میں پیش رفت کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
روس پہلا ملک تھا جس نے 1920 میں عام لوگوں کے لیے صحت کا ایک مرکزی نظام متعارف کروایا۔ اس کے بعد جلد ہی دوسرے ملکوں نے بھی ایسا ہی کیا۔
لورا سپینی لکھتی ہیں: ‘1920 میں کئی ملکوں نے صحت کی نئی وزارتیں قائم کی یا انھیں جدید خطوط پر استوار کیا۔
‘یہ براہ راست عالمی وبا کا نتیجہ تھا جس کے دوران عوامی صحت کے شعبے سے وابستہ حکام کو یا کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہی نہیں کیا گیا، یا پھر انھیں رقم اور اختیارات کے لیے دوسرے محکموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔’
لندن کی رائل ہولووے یونیورسٹی میں ماہرِ بشریات جینیفر کول کہتی ہیں کہ عالمی وبا اور جنگ نے مل کر دنیا کے بیشتر خطوں کی سیاست میں فلاحی ریاست کے بیچ بوئے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ‘فلاح و بہبود کی فراہمی ایک ایسے پس منظر میں وجود پذیر ہوئی جس میں بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘عالمی وبائیں معاشرے پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کی وجہ سے معاشرہ زیادہ مساوی اور انصاف پسند ہو جاتا ہے۔’
لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ اس وقت کارگر رہے
یہ دو شہروں کی مشہور داستان ہے: ستمبر 2018 میں جاری جنگ کے اخراجات کے لیے شہروں میں جنگی بانڈز کو فروغ دینے کی مہم زوروں پر تھی اور اس سلسلے میں جلوس نکالے جا رہے تھے۔
اس دوران جب ہسپانوی فلو کی وبا کے واقعات سامنے آئے تو دو شہروں نے بالکل مختلف طرزِ عمل اپنایا۔ فلاڈیلفیا نے منصوبے کے مطابق جلسے جلوس جاری رکھے، جبکہ سینٹ لوئیس نے تقریبات منسوخ کر دیں۔
ایک مہینے کے بعد فلاڈیلفیا میں 10 ہزار سے زیادہ افراد وبا کی وجہ ہلاک ہو چکے تھے۔ سینٹ لوئیس میں مرنے والوں کی تعداد 700 سے بھی کم تھی۔
وباؤں سے نمٹنے کی حکمت عملی میں دو مختلف رویوں کا یہ فرق سماجی فاصلے کے حق میں ایک دلیل بن کر سامنے آیا۔
سنہ 1918 میں کئی امریکی شہروں میں عوامی اجتماعات پر پابندی، اور سکولوں اور عبادت گاہوں کی بندش جیسے اقدامات کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن شہروں میں فوری پر ایسا کیا گیا وہاں شرحِ اموات کم رہی۔
سنہ 1918 کے لاک ڈاؤن کا تجزیہ کرنے والے امریکی ماہرین معاشیات نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن شہروں میں ان اقدامات پر سختی سے عمل کیا گیا وہاں عالمی وبا کے خاتمے ک بعد معاشی بحالی بھی تیزی سے ہوئی۔
فراموش کردہ وبا
اس سے حاصل ہونے والے سبق کے باوجود ہسپانوی فلو کو کئی طرح سے بھلا دیا گیا ہے۔
اس کا ایک سبب تو پہلی عالمی جنگ ہے جس کے دوران کئی حکومتوں نے زمانۂ جنگ میں اس سے ہونے والے نقصان سے متعلق خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔
پھر ہماری تاریخ اور ادب بھی اس کے ذکر سے خالی ہے۔
مگر کووِڈ-19 نے یقیناً لوگوں کے ذہنوں میں اس کی یاد تازہ کر دی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).