جواد نقوی کا اعتدال اور شیعی جذبات کا ابال



آپ میں سے بہتوں کی طرح میں نے بھی یہ شعر کئی بار سنا تھا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

مذہبی حلقوں میں یہ شعر علامہ جواد نقوی پر ایک دم فٹ بیٹھتا ہے۔ ان کی شیعی وضع قطع کے سبب دیگر مکاتب فکر میں ان کی شناخت شیعہ عالم کے طور پر ہی ہے لیکن شیعوں کا ایک حصہ ہے کہ انہیں اپنا ماننا تو دور غیروں کی صفوں کا ایجنٹ سمجھتا ہے۔ تو آخر جواد نقوی نے کیا کیا ہے؟

تازہ ہنگامہ ان کے اس بیان سے مچ گیا ہے کہ تماز تراویح مجالس کی طرح ہیں۔ یہ بیان شیعوں کے بعض حلقوں اور علما کو اتنا چبھا کہ جواد نقوی پر تبرے کا جھڑ لگ گیا۔ معترضین نے کہا کہ ہم تو تراویح کو بدعت اور عزاداری کو عین عبادت جانتے ہیں پھر ان دونوں کو ایک دوسرے کی طرح قرار دینے کی ہمت ہوئی کیسے؟ شکر ہے کہ ابھی غیر شیعہ مکاتب فکر نے جواد نقوی پر یہ کہہ تبرہ شروع نہیں کیا ہے کہ ہم تو عزاداری کو بدعت سمجھتے ہیں اور تراویح رمضان کی خاص عبادت ہے تو جواد نقوی کی جسارت کیسے ہوئی کہ ان دونوں کا نام ایک سانس میں لے لیں؟

جواد نقوی کے بیان پر بعض شیعوں کا ہنگامہ اتنا قابل توجہ نہ ہوتا لیکن بہت سے شیعہ علما اور ذاکرین نے جس طرح ان کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اس سے صورتحال سنجیدہ ہو گئی ہے۔ ذاکرین کا جواد نقوی پر غصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ عزاداری کو پیشہ بناکر موٹی فیس وصولنے والے خطیبوں کو جواد نقوی رینٹل ذاکر کہتے ہیں۔ ایسے میں جن کے مفادات پر چوٹ پڑ رہی ہے ان کا گلہ فطری ہے۔

جواد نقوی کی جس بات نے ان کے مخالفین میں اضافہ کیا ہے وہ دراصل مسلکی تفریق کے خلاف ان کی جد و جہد ہے۔ جواد نقوی کی تقریروں میں مسلکی رنگ اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ بہت دیر تک سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ بات کہنے والا کس مکتب فکر کا ہے؟ جواد نقوی مسلسل زور دیتے ہیں کہ تفرقے باز علما اور ذاکروں سے بچا جائے۔ یہ بات ان ذاکروں کے لئے بڑی اذیت ناک ہے جنہوں نے تبرے کی کتابیں رٹ کر عزاداری کو مسلکی بحث کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے۔

یہ بات صرف جواد نقوی کی ہی نہیں بلکہ کسی بھی مسلک کا عالم جب اتحاد کا پیغام دیتا ہے تو پہلا پتھر خود اس کے مسلک کے علما کی طرف سے آتا ہے۔ مولانا طارق جمیل جیسا بین الاقوامی شہرت یافتہ مبلغ جب مسلکی جھگڑے کے خلاف بولتا ہے تو گالی کوسنے کا پہلا پارسل دیوبندی علما ہی بھیجتے ہیں۔

جواد نقوی کے بارے میں میرا یہ موقف نہیں کہ وہ محفوظ عن الخطا ہیں اور ان سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ ان کی کئی باتوں سے مجھے اختلاف رہا ہے۔ علمی اختلاف رکھنے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں لیکن باتوں کو پکڑ کر کسی کے خلاف منافرت پھیلانا کوئی اچھی بات نہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو بعض تکفیری گروہوں نے شیعوں کے خلاف استعمال کرکے ان کے خلاف نفرت پھیلائی تھی۔

جس وقت عزاداری کو بدعت کہا جاتا ہے تو شیعوں کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ اعتراض مسلکی عدم برداشت پر مبنی ہے۔ اب اگر دوسرے مسالک کے مقدسات کے بارے میں شیعہ طبقہ ویسی ہی عدم برداشت کا مظاہرہ کرے گا تو فرق کیا رہ جائے گا؟

میں یہ بات اپنے ایک مضمون میں عرض کر چکا ہوں کہ لوگوں کا ایمان تولنے والے بندے وہ ہیں جو اپنے دل میں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وہ خدا ہوتے۔ کسی انسان یا مکتب فکر سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس شخص یا گروہ کی غلطی کو بھی مہذب ڈھنگ سے دلائل کے ساتھ سامنے رکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے آگے جاکر کسی کی نیت پر شک کرنا، اس کو کسی کا ایجنٹ یا زندیق قرار دینا اور اپنے سوا ہر ایک کی توہین آمیز تکذیب کرنا یہ وہ باتیں ہیں جو مہذب سماج کے اوپر لگا داغ ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہلحدیث غرض ہر اسلامی مکتب فکر میں اس مزاج کے لوگ اور علما کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments