مسعود اشعر: اپنے آپ کو کہانیاں سنانے والا


(مگر یہ کہانیاں سب کے لئے ہیں)      

اخبار نویسی اور صحافت کو ادب کی روایت سے الگ کر کے ہم نے اپنا بہت نقصان کیا ہے۔ نا انصافیوں کے مر تکب بھی ہوئے۔ غالبا یہ ادعائیت زدہ سماجی حقیقت نگاری کی ضد میں ہوا۔ بہر نوع، وجہ کچھ بھی رہی ہو، خسارہ تو اپنی ادبی روایت کا ہی ہوا۔

پتہ نہیں، ہم یہ کیوں بھول جا تے ہیں کہ عام زندگی اور یہاں تک کہ زندہ مسئلوں کا حق ادا کر نے کے لئے کسی ادیب کا کبھی کبھار صحافی، یہاں تک کہ پمفلٹ باز ہو نا بھی ضروری ہو جا تا ہے۔ یہ بات سارتر(Sartre)  نے اپنے وابستگی کے ادب والے مضمون میں کہی تھی، آج سے کو ئی ستر بہتر برس پہلے۔ کتنے ادیب ایسے ہیں جنہوں نے ادب اور صحافت، دونوں کشتیوں میں ایک ساتھ سفر کیا۔ آج بھی کر رہے ہیں۔ اب اپنے مسعود اشعر کو ہی دیکھ لیجے۔ ہماری زندگی کا تو پورا دور گزر گیا، کوئی تیس بتیس برسوں پر پھیلا ہوا، مسعود اشعر کو قریب و دور سے دیکھتے ہوئے۔ اس عرصے میں دلی اور لاہور ہی نہیں، دنیا بھی بہت بدلی۔ لیکن مسعود اشعرنہیں بدلے۔ میں نے انہیں کبھی ادبی مسئلوں میں الجھتے ہوئے، ادبی مذاکروں اور بحثوں میں منظم طریقے سے شامل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ادیبوں اور صحافیوں میں، سیاستدانوں اور دانشوروں میں ایک سی باقاعدگی اور انہماک کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ایک سے شوق اور شغف کے ساتھ علوم اور ادبیات سے متعلق کتابیں پڑھتے ہیں۔ مگر اصل پہچان قائم ہوئی ایک صحافی کے طور پر۔ ہم عصر ادب سے شغف رکھنے والوں کے لئے یہ ایک طرح کی بے توفیقی ہے۔

صحافت کی دنیا میں انہوں نے بڑا نام کمایا۔ آج کل ان کے کالموں کا چرچا بہت ہے۔ خود میں بھی وسعت اللہ خاں اور وجاہت مسعود کے ساتھ ساتھ مسعود اشعر کے کالم ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہوں۔ ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بد مذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش وخروش نہیں۔

مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔

صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔ لیکن افسانوں کے ذکر سے پہلے جی چاہتا ہے ایک اور بات کہتا چلوں…. یہ کہ اپنے افسانوں کو یا اپنی ادبی تخلیقی حیثیت کو سب سے زیادہ نقصان خود انہی نے پہنچایا ہے۔ ان میں شہرت یافتہ صحافیوں یا ادیبوں کا ہاﺅہو سرے سے غائب ہے۔ وہ عام بات چیت میں اپنے ہم عصر ادیبوں کی تخلیقات کو شاید ہی کبھی موضوع بناتے ہوں۔ اپنی تخلیقی سر گرمی یا تخلیق کے مسئلے، یا اپنے آپ کو موضوع بنانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ہماری سرحد کے پار کا حال مجھے معلوم نہیں، مگر اس طرف میں نے ان کے افسانوں پر گفتگو کبھی نہ سنی۔ بطور صحافی ایک حلقہ ان کے واقف کاروں کا ضرور ہے۔

یوں مسعود اشعر کے کچھ افسانے ہندوستان کے معروف ادبی رسالوں میں بھی شائع ہو ئے تھے۔ مگر، کبھی کبھار کسی افسانے کا چھپ جانا اور بات ہے۔ اس طرح پہچان تو قائم ہوتی نہیں۔ انہوں نے اس طرف ذرا بھی تو جہ نہیں کی۔ کو ئی دوسرا شخص بھول چوک میں ان کے کسی افسانے کا ذکر کر دے تو بس ہنسنے لگتے ہیں۔ بات کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔

مسعود اشعر کے افسانوں کی کتاب” اپنا گھر“ سنگ میل سے 2004ء میں چھپی تھی۔ کتاب میں”بیسویں صدی کی آ خری کہانی“ اور ”اکیسویں صدی کی پہلی کہانی“ سمیت کل چودہ کہانیاں تھیں۔ ان میں بیشتر مختصر، مگر ایک پورے عہد اور اس عہد کی دنیا کو سمیٹتی ہوئیں کہ مسعود اشعر کے یہاں اپنے آپ سے پرے ہٹ کر اپنی زمین اور زمانے کو دیکھنا ہی ان کے بنیادی سروکار اور رویے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کہانیاں بقراطیت زدہ بصیرت سے یکسر خالی، بالعموم سامنے کی باتوں پر مبنی تھیں۔ ان باتوں میں لکھنے والے کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی تجربوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ملک اور معاشرہ خود اپنے لئے نت نئے مسئلے اور سوال کیوں پیدا کرتا جاتا ہے، اس کی رو داد روز مرہ زندگی کے بہ ظاہرعام اور چھوٹے چھوٹے واقعات کی مدد سے مرتب کی گئی ہے۔ مثلا”خدا حافظ“ کو ”اللہ حافظ“ بننے میں صدیاں لگ گئیں۔ ہماری اجتماعی زندگی کو کتنے سنگین اور ہولناک مرحلے سے گزرنا پڑا۔ مگر مسعود اشعر کی تخلیقی حسیت کے دائرے میں آنے کے بعد یہی مرحلہ ایک عام اور بے ضرر انسانی تجربہ بن جا تا ہے۔ وہ اس پر کسی طرح کی جذباتیت کا اظہار یا حاشیہ آرائی کے بغیر ایک حرماں نصیب عوام کے مسئلوں کا بیان کر دیتے ہیں۔ منیر نیازی کا مصرع ”سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے‘’ ہر صورت پر صادق نہیں آ تا۔

اپنے اس سفر میں مسعود اشعر کہیں ٹھہرے نہیں۔ تواتر، یکساں توجہ اور قدرے سست روی کے ساتھ، اپنی صحافت کے ساتھ ساتھ تخلیقی حسیت کا سفر بھی انہوں نے جاری رکھا ہے۔ ان کے افسانوں کا نیا مجموعہ ”سوال کہانی“ کے نام سے اسی سال (2020) سامنے آیا ہے۔ اس میں اکیس عدد کہانیاں ہیں۔ اور سائز، حجم سب پچھلی کتاب (اپنا گھر) جیسا۔ اس مجموعے کا انتساب انہوں نے اپنے نام کیا ہے۔ پتہ نہیں تفریحاً یا طنز کے طور پر۔ یاد کیجئے۔ اکبر الہ آبادی نے اس طرح کے ایک واقعے کا نوٹس (Notice) کیو نکر لیا تھا۔ کہا تھا؛

بہت خوب ہے قول ہادی عزیز

کہ میں شعر کہتا ہوں اپنے لئے

وہ تو خیر پرانی بات ہوئی، مگر اپنے آپ کو اور اپنی اجتماعی زندگی کو، زمانے کو اور زمین کو دیکھیے، اس سے آنکھیں پھیر لینے والے کو ادیب ہی نہیں انسان کے طور پر تسلیم کرنے میں مجھے تامل ہے۔

ہم کتنے سوالوں کے گھیرے میں ہیں اس وقت؟ یہ کیسا بے ڈھنگا رقص جاری ہے، سیاست، اخلاق، ثقافت، سائنسی ترقی اور اقتصادیات کے نام پر۔ ہم بے بس ہیں اور شاید ایسی تمام ارضی اور غیر ارضی یا غیبی طاقتوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جن سے اب تک امیدیں باندھ رکھی تھیں۔ کوئی امید پوری نہیں ہوئی۔ کوئی جواب نہیں ملا، اپنے سوال کا۔ سو، ہمارا اور ہماری دنیا کا حال سامنے ہے۔ مسعود اشعرکی ہر کہانی کسی نہ کسی سوال کی معیت میں اپنے قاری کے لئے بھی ہے، صرف اپنے لکھنے والے کے لئے نہیں۔ تخلیقی آدمی کے اختیارات بے پایاں ہوتے ہیں۔ مگر ہم انہیں ہر اختیار تو نہیں دے سکتے۔

 May 7, 2020


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments