کورونا وائرس: کووڈ-19 سے یورپ میں سب سے زیادہ ہلاکتیں برطانیہ میں کیوں ہوئیں؟


قوس قزاح کی تصاویر برطانیہ میں گھروںم کے بار امید کے نشان کے طبو رپر آویزاں ہیں

قوس قزاح کی تصاویر برطانیہ میں گھروںم کے بار امید کے نشان کے طبو رپر آویزاں ہیں

قوس قزاح کی تصاویر برطانیہ میں گھروںم کے بار امید کے نشان کے طبو رپر آویزاں ہیں

آپ کو معلوم ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ میں یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ برطانیہ میں اب تک اس وبا سے 30 ہزجار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ منگل تک یورپ میں کورونا وائرس کی وجہ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب تک اٹلی میں 29958 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دریں اثنا امریکہ میں اب تک اس بیماری سے 74 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف کہانی کا ایک حصہ بتاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کے پروفیسر سر ڈیوڈ سپیگل ہالٹر کہتے ہیں کہ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار کورونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے حقیقی نمبروں سے کافی کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہم بلا خوف و خطر کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ملک ٹھیک نہیں کر رہا، لیکن یہ کوئی یورو ویژن نہیں ہے اور انھیں رینک کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے۔’

کورونا بینر

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


موازنے کیوں کیے جاتے ہیں؟مختلف ممالک کا موازنہ کرنے میں بہت چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ برطانوی وزیرِ کمیونیٹیز رابرٹ جینرک نے بدھ کو ہونے والی بریفنگ میں کہا کہ ‘حتمی طور پر بین الاقوامی موازنے کرنا بہت مشکل کام ہے۔’ہم چاہتے ہیں کہ وائرس سے مقابلے کے دوران ہم جو بھی سبق حاصل کر سکتے ہیں حاصل کریں۔’پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر یوون ڈوئل کہتی ہیں کہ ‘دوسرے ممالک وائرس کے متعلق اندازہ مختلف طریقے سے لگاتے ہیں۔ اس سے بین الاقوامی موازنہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔’ برطانیہ کی آبادی تقریباً چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ہے جبکہ اٹلی کی آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے۔اس حوالے سے برطانیہ میں اموات کی شرح کا اٹلی سے فی کس کے حوالے سے زیادہ ہونے کے لیے اموت 10 فیصد زیادہ ہونی چاہیئں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔کس طرح مختلف طریقوں سے مختلف ممالک اموات کے اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں اس کو بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔برطانوی حکومت کے چیف میڈیکل ایڈوائزر کرس وٹی کہتے ہیں ‘ہر ملک مختلف طریقے سے اموات کے اعداد و شمار اکٹھے کرتا ہے۔ اس لیے ان کا آپس میں موازنہ کرنا زیادہ تر ایک بیکار کوشش ہے۔’ بظاہر اٹلی اور برطانیہ تقریباً ایک ہی طریقے سے ایسا کر رہے ہیں۔ صرف کووڈ۔19 کے ٹیسٹڈ اور تصدیق شدہ کیسز کو ہی اپنے مجموعی اعداد و شمار میں شامل کر رہے ہیں۔

اٹلی کے ایک قبرستان میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا گیا

اٹلی کے ایک قبرستان میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا گیا

اگرچہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہسپتالوں میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار تقریباً درست ہوتے ہیں لیکن کیئر ہومز میں ایسا نہیں ہے۔ڈیموگرافکس یا آبادی کے متعلق شماریاتی ڈیٹا بھی اس طرح کے موازنوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں معلوم ہے کہ کورونا وائرس نوجوان افراد کی نسبت بوڑھے افراد کو زیادہ شدت سے متاثر کرتا ہے۔عمر رسیدہ افراد میں صحت کے زیادہ مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کورونا وائرس مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ اس وائرس سے شدید متاثر ہونے والوں میں اٹلی میں بوڑھے افراد کا تناسب زیادہ اور چھوٹے بچوں کا بہت کم ہے۔ سو اگر باقی سارے عوامل برابر رہیں تو آپ کو اٹلی میں برطانیہ کے مقابلے میں کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ اموات کی توقع کرنی چاہیے۔ کورونا وائرس کی موت کیا ہے؟برطانیہ میں حکومت تصدیق شدہ کیسز پر انحصار کرتی ہے، اگرچہ آفس فار نیشنل سٹیٹسٹکس بھی ہر اس کیس کے متعلق ڈیٹا شائع کرتا ہے جس میں موت کے سرٹیفیکیٹ پر کووڈ۔19 کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ اس سے قطع نظر ہے کہ اس کا ٹیسٹ کیا گیا یا نہیں۔بیلجیئم کو کورونا وائرس کی اموات کی شرح کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار دیا گیا ہے۔ بیلجیئم کے حکام کہتے ہیں کہ وہ اس طرح حساب کر رہے ہیں جس طرح دنیا کا کوئی ملک بھی نہیں کر رہا: ہسپتالوں اور کیئر ہومز میں اموات کی گنتی تو کر رہے ہیں، لیکن وہ کیئر ہومز میں وہ اموات بھی شمار کر رہے ہیں جن کے متعلق شبہ تو ہے کہ وہ کووڈ۔19 کی وجہ سے ہوئی ہیں لیکن ان کی تصدیق نہیں ہوئی۔ بیلجیئم کے ورولوجسٹ اور حکومت کے ترجمان پروفیسر سٹیون وان گوچ کے مطابق ‘لوگ ناقص موازنے کر رہے ہیں۔’ ان ممالک سے آنے والے اعداد و شمار پر اعتماد کا اظہار کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جہاں سیاسی نظام پر کنٹرول بہت سخت ہے۔ اگر چین میں ہر دس لاکھ کی آبادی میں ہلاکتوں کی شرح دیکھی جائے تو اس کے اعداد و شمار انتہائی کم ہیں، حالانکہ چین نے دوبارہ گنتی میں وہان میں اموات کو 50 فیصد بڑھایا تھا۔ماہرینِ صحت کہتے ہیں کہ ‘ایکسس مارٹیلیٹی’ یا ’اموات میں تجاوز‘ کو مدِ نظر رکھنا چاہیے: یہ اموات کی وہ شرح ہے جس میں ہر ملک میں مرنے والے افراد کی تعداد گذشتہ برسوں میں تقریباً انہی دنوں میں مرنے والوں سے زیادہ ہو۔

بیلجئم نے پبک ٹرسپورٹ میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دے دیا ہے

بیلجئم نے پبک ٹرسپورٹ میں ماسک پہننے کو لازمی قرار دے دیا ہے

لیکن اس طرح کا ڈیٹا حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے، اور وبا کے اثر کی صاف عالمی تصویر سامنے آنے میں اگر سال نہیں تو مہینوں ضرور لگ سکتے ہیں۔برطانیہ میں کیا غلط ہوا؟بیماری کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں بظاہر ان ممالک کو زیادہ کامیابی حاصل ہوئی جنھوں نے وبا کے ابتدائی مرحلوں میں کافی زیادہ ٹیسٹنگ کی اور متاثرہ افراد کے ان سبھی رابطوں کی کھوج لگائی جن سے وہ ملے تھے۔ جرمنی اور جنوبی کوریا میں زیادہ متاثرہ ممالک کی نسبت بہت کم اموات ہوئی ہیں۔آبادی میں فی کس کے حوالے سے ٹیسٹ، کم ہلاکتوں کی شرح کا اندازہ لگانے کے لیے ایک مفید سٹیٹسٹک ہو سکتا ہے۔لیکن سبھی ٹیسٹنگ ڈیٹا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ ممالک ٹیسٹ کیے جانے والے لوگوں کا حساب رکھتے ہیں، جبکہ دوسرے یہ حساب رکھتے ہیں کہ کتنی مرتبہ ٹیسٹ کیے گئے (بالکل درست نتائج حاصل کرنے کے لیے کئی افراد کے ٹیسٹ ایک سے زیادہ مرتبہ کرنے پڑتے ہیں)۔ یہ بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیسٹ کی ٹائمنگ کیا ہے اور کیا یہ ٹیسٹ زیادہ تر ہسپتالوں میں کیے گئے یا کمیونٹی میں۔ جرمنی اور جنوبی کوریا نے شروع ہی میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کیے، اور سیکھا کہ وائرس کس طرح پھیل رہا ہے۔ لیکن اٹلی کو، جس نے بہت زیادہ ٹیسٹ بھی کیے، نسبتاً زیادہ اموات کا سامنا رہا۔ اٹلی نے دراصل اپنی ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو قدرے حد تک اس وقت بڑھایا جب وبا پہلے ہی پھیل چکی تھی۔برطانیہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔حزبِ اختلاف کی ممبر پارلیمان روزینہ الین خان، جنھوں نے حکومت کی ٹیسٹنگ کی حکمتِ عملی پر تنقید کی ہے، کہتی ہیں کہ اس سے ‘زندگیاں ضائع ہوئی ہیں۔’ٹیسٹنگ میں کمی کے علاوہ کچھ لوگوں نے برطانوی حکومت پر طبی اور کیئر مہیا کرنے والے عملے کے لیے پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) دینے میں کمی کی وجہ سے بھی تنقید کی ہے۔ اپریل کے آغاز میں نیشنل کیئر سینٹر کی نادرا احمد نے کہا تھا: ‘سب سے زیادہ مسائل جو ہم سنتے ہیں وہ یہ ہیں کہ مجھے ماسک کی اشد ضرورت ہے۔ کیا کسی کے پاس دستانے ہیں؟ میرے پاس سٹاک میں آخری جوڑا رہ گیا ہے۔’ کابینہ کے رکن مائیکل گو کہتے ہیں کہ 2 مئی تک انگلینڈ کے ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر سسٹم میں ایک اعشاریہ صفر آٹھ ارب پی پی ای یا ذاتی حفاظت کی اشیا تقسیم کی جا چکی تھیں۔ تاہم بی بی سی کے پینوراما پروگرام کے مطابق اس پی پی ای میں آدھے سے زیادہ سرجیکل دستانے تھے، اور اکثر کیسز میں دستانوں کو ایک جوڑے کی بجائے ایک ایک کر کے علیحدہ علیحدہ گنا گیا تھا۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر جیسن اوک کہتے ہیں کہ ‘آپ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ایک ملک دوسروں سے بہتر کر رہا ہے اور آپ اس سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔’لیکن جب تک یہ وبا ختم نہیں ہو جاتی یہ جاننا یقیناً ناممکن ہو گا کہ کس ملک نے وائرس کا اچھے طریقے سے مقابلہ کیا۔پروفیسر اوک کہتے ہیں کہ ‘تب ہی ہم آنے والے وقت کے لیے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp