کورونا وائرس نے روس کے خفیہ جوہری شہروں کو کیسے متاثر کیا


کورونا، روس،

روس اس وقت کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے متاثرین سے پریشان ہے۔ خیال ہے کہ سوویت یونین کے دور میں آباد کیے گئے انٹیلی جنس شہر اس کی گرفت میں ہیں۔

ان میں سے کچھ خفیہ شہر تو کئی دہائیوں تک کبھی سرکاری نقشے پر نہیں دکھائے گئے تھے اور کچھ ویران تھے جن کے نام بھی لوگ نہیں جانتے تھے۔

لیکن شمالی روس کے دور دراز، جنگلی اور برفانی علاقوں میں زندگی کسی اور طرح سے آباد ہو رہی تھی۔

اس ویرانے میں جہاں شاید ہی خانہ بدوش کسانوں نے ابھی تک قدم رکھا ہووہاں ایسے شہر آباد ہیں جہاں بہت کم لوگوں کو رسائی حاصل ہے۔

دراصل یہ بڑے فوجی کمپلیکس ہیں، جو اپنے آپ میں ایک پورے شہر کی طرح ہیں۔ روس نے یہ شہر امریکہ کے ساتھ ایٹمی ہتھیار بنانے کی دوڑ کے دوران قائم کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

روسی صدر اتنے بے فکر کیوں نظر آ رہے ہیں

یورپ کا واحد ملک جو کورونا وائرس سے پریشان نہیں

کیا وبا کے دوران ولادیمیر پوتن کی روس پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے؟

سوویت یونین کے عہد میں ان اڈوں کو جوہری، ممنوعہ اور خفیہ شہر کہا جاتا تھا۔ یہ سوویت یونین کی فوجی اور جوہری صنعت کے لیے اہم سٹریٹجک مراکز تھے۔

سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے تین دہائیوں کے بعد بھی ان فوجی اڈوں کے وجود کا مقصد پہلے جیسا ہی تھا۔

ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ جوہری توانائی پالیسی کے امور کے تجزیہ کار ، میتھیو بن کہتے ہیں ‘روس بھی امریکہ کی طرح اپنے جوہری ذخائر کو جدید بنانا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس کے یہ انٹلیجنس شہر تحقیق اور ترقی کی ضرورت میں اہم رہے۔’

حالیہ دنوں میں یہ شہر ایک بار پھر خبروں میں ہیں لیکن یہاں موجود ایٹمی راز کی وجہ سے نہیں۔ ویسے روس میں یہ مقامات بہت کم لوگوں کو یاد ہوں گے۔

کورونا وائرس کی وبا روس کے کچھ خفیہ شہروں میں سنجیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔

کورونا، روس،

کچھ ہفتوں پہلے، جہاں روس یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو پالیا ہے اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ انفیکشن اور اموات کے اعداد و شمار کے لحاظ سے دنیا میں آٹھویں نمبر پر آگیا ہے۔

روس کی سرکاری جوہری ایجنسی روساٹوم ان شہروں کے انتظام کی نگرانی کرتی ہے۔ ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان جگہوں پر این 95 ماسک اور دیگر حفاظتی سازوسامان بھیجنے کی ضرورت ہے۔ تین شہروں میں کورونا کی وبا کافی پھیل چکی ہے۔

صورتحال انتہائی تشویشناک ہے

روساٹوم کے چیف الیکزیتھائی لیخاچیوف نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ وبا ہمارے جوہری شہروں کے لیے خطرہ ہے۔ ساروف، الیکٹروستھال اور دیسنوگورسک نام کے شہروں کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے’۔

کچھ دن پہلے روسی جوہری ایجنسی نے بتایا تھا کیا تھا کہ ساروف ایکسپیریمنٹل فزکس سائنٹیفک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سات ملازمین کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔

روس نے ساروف کے اس سینٹر پر اپنا پہلا ایٹم بم تیار کیا تھا۔

خفیہ شہروں کی تشویشناک صورتحال کے بارے میں روس کے سرکاری بیان کے بعد بی بی سی کی منڈو سروس نے متعدد ماہرین سے بات کی۔

ان کا کہنا ہے کہ وہاں نہ صرف طبی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے صورتحال تشویشناک ہے بلکہ اس کا اثر وہاں جاری جوہری سرگرمیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔

میتھیو بن کہتے ہیں ‘یہاں جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں پھر انہیں بنایا جاتا ہے اور ایٹمی مواد تیار کیا جاتا ہے۔ ان شہروں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف روس کے لیے ہی اہم نہیں ہے’۔

کورونا، روس،

روس میں کورونا وائرس کا درجہ

حالانکہ صدر ولادیمیر پوتن نے ابتدائی طور پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس وبا پر کنٹرول پا لیا گیا ہے اور انفیکشن کے واقعات بہت کم ہیں۔ لیکن پچھلے دو ہفتوں میں وہاں کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔

اور حالیہ دنوں میں روس میں صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اسی ہفتے کے آخر میں روس میں 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 10،000 نئے واقعات سامنے آئے ہیں۔

چار مئی تک روس میں کورونا وائرس کے 15 لاکھ کے قریب متاثرین کی تصدیق ہوگئی تھی اور تقریباً 1400 افراد کی موت ہوچکی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں کورونا کی وبا سے متاثرہ ممالک میں روس ساتویں نمبر پر ہے۔

روس میں وبا کا مرکز ماسکو شہر ہے۔ وزیراعظم میخائی میشوستین نے بھی گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ بھی اس وائرس سے متاثر ہیں۔

بی بی سی کی روسی سروس کا کہنا ہے کہ اب انفیکشن کے کیس دور دراز علاقوں سے آرہے ہیں۔

صدر پوتن نے طبی امداد کے ساتھ ایک فوجی طیارہ امریکہ بھیجا تھا اور کچھ دن قبل انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے ملک میں حفاظتی ساز و سامان یعنی پی ہی ای کی کمی ہے۔

پوتن نے بھی خبردار کیا تھا کہ روس میں وبا کی صورت حال ابھی خراب ہوگی۔ انھوں نے کہا ،’ہم ایک نئی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وباء کے خلاف جاری لڑائی میں اب ہمیں سب سے زیادہ زور لگانا پڑ سکتا ہے۔ انفیکشن کا خطرہ عروج پر ہے۔ اس مہلک وائرس کا خدشہ اب بھی ٹلا نہیں ہے’۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ روس میں لاکھوں افراد اس وبا کی وجہ سے بے روزگار ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب حکومت نے وبا کو پھیلنے سے روکنے کے اقدامات 11 مئی تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

کورونا، روس،

سرد جنگ کا شہر

سرد جنگ کے ابتدائی دنوں میں کسی ملک کی طاقت اور حیثیت کا اندازہ اس کے جوہری ہتھیاروں سے لگایا جاتا تھا۔ اسی دوران امریکہ اور سابق سوویت یونین کے مابین جوہری ہتھیاروں بنانے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔

پرنس ٹاون یونیورسٹی میں سائنس اور گلوبل سیکیورٹی پروگرام کے جوائنٹ ڈائریکٹر فرینک این وان ہیپل کا کہنا ہے ’یہی وجہ تھی کہ سابق سوویت یونین نے جوہری ہتھیاروں کی ترقی کے لیے یہ مرکز بنائے تھے۔ روس نے ان مراکز کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں نہ صرف ان کا وجود خفیہ رکھا جا سکتا تھا بلکہ وہ دشمن کی کسی بھی ممکنہ بمباری سے بھی بہت دور تھے۔‘

قطعی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ سوویت یونین کے زمانے میں کریملن نے ایسے کتنے شہر قائم کیے تھے۔

لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے 40 شہر اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر شہر براہ راست وزارت دفاع اور کچھ سرکاری جوہری ایجنسی ‘روساٹوم’ کے ماتحت ہیں۔

ان خفیہ شہروں کی زندگی

فرینک این وان ہیپل نے 90 کی دہائی کے آخر میں ان میں سے کچھ شہروں کا دورہ کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ وہ مقامات ہیں جہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ یہ دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔ یہاں جانے کے لیے عام طور پر ایک سڑک ہوتی ہے جس پر پہرہ ہوتا ہے۔ اندر جانے یا آنے کے لیے آپ کو پاس دکھانا پڑا ہے’۔

پروفیسر فرینک این وان ہیپل صدر بل کلنٹن کے عہد میں ’نیشنل سیکیورٹی فار وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی’ محکمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے ان کا کہنا ہے کہ ان شہروں میں زندگی صرف جوہری تحقیقاتی مراکز کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔

کورونا، روس،

وہ کہتے ہیں کہ ان انٹیلیجنس شہروں میں رہنے والے زیادہ ترافراد یا تو سائنس دان ہیں یا فوج سے وابستہ ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے افرادِ خانہ بھی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا عملہ بھی ہے۔ زیادہ تر لوگ عمارتوں میں رہتے ہیں۔ صرف اعلیٰ افسران کو ہی بنگلے دیے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان لوگوں کو وہاں سکیورٹی میں رکھا جاتا ہے یا جیل کی طرح رکھا جاتا ہے بلکہ وہ ایک چھوٹی سی آبادی کی طرح رہتے ہیں۔

درجہ حرارت منفی 40 ڈگری

وان ہیپل کے مطابق یہاں رہنے والے لوگوں کو اس ماحول کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ وہ روس کے ایک پرہجوم شہر میں رہنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے بھلے ہی وہ ایسے شہر میں رہتے ہیں جہاں درجہ حرارت منفی 40 ڈگری ہوسکتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ روسی شہریوں کو بھی بغیر کسی دستاویز کے ان شہروں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

جوہری مراکز میں کام کرنے والے افراد کو رازداری کے معاہدے پر دستخط کرنے پڑتے ہیں اور ان معاہدوں کا اطلاق ان لوگوں پر تاحیات رہتا ہے۔

میتھیو بن کہتے ہیں ان شہروں میں سے کچھ میں تو لوگوں پر نزدیکی مقامات پر بھی جانے کی پابندی ہوتی ہے۔ عملی طور پریہاں رہنے والے لوگ ایسے معاشرے کی طرح ہیں جن کا بیرونی دنیا سے زیادہ لینا دینا نہیں ہے۔

انٹیلی جنس شہروں کی کہانی

ایک وقت تک ان شہروں کا تذکرہ خفیہ اطلاعات تک ہی محدود تھا۔

لیکن سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے آغاز سے ٹھیک پہلے ان شہروں کے وجود سے متعلق معلومات منظر عام پر آنے لگی تھیں۔

پہلے یہ شہر نقشے پر نہیں دکھائے گئے تھے۔ یہاں تک کہ ان شہروں میں بسنے والے افراد بھی مردم شماری میں شامل نہیں تھے۔

جیسے ہی کوئی ان شہروں میں سابق سوویت یونین کی جوہری اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کرنے آتا تھا ویسے ہی باقی ساری دنیا کے لیے اس کا وجود سرکاری طور پر مٹا دیا جاتا تھا۔

میتھیو بن یاد کرتے ہیں ‘کبھی کبھی ان شہروں کی شناخت پوسٹ بکس سے کی جاتی تھی اور یہ پوسٹ باکس قریبی شہر میں رکھا جاتا تھا جو بیرونی دنیا سے جڑا ہوتا ہے۔’

کلنٹن انتظامیہ کے لیے روس کے جوہری مواد کی سلامتی کے بارے میں میتھیو بن نے ایک خفیہ مطالعہ کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے ، ’90 کی دہائی میں کچھ شہروں کو یوں ہی ویران چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ روس کی نئی حکومت کو جاری منصوبوں میں دلچسپی نہیں تھی۔

صدر پوتن کے دور میں

صدر پوتن کے دور میں یہ انٹیلی جنس شہر زیادہ تر باقاعدگی سے کام کر رہے تھے لیکن ان کی اہمیت کم کردی گئی اور ان کی حیثیت پہلے جیسی نہیں تھی۔

لیکن ولادیمیر پوتن کے اقتدار میں آنے کے بعد معاملات بدل گئے۔

پروفیسر میتھیو بن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘ان میں سے زیادہ تر مراکز سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد ضائع ہوگئے لیکن حالیہ برسوں میں روسی حکومت نے یہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ ان مراکز کو جدید بنانے اور جوہری ہتھیاروں کی تعمیر کے لیے رقم جاری رکھنے کے لیے کیا گیا ہے’۔

گذشتہ سال ساروف میں ایک پراسرار حادثہ ہوا تھا جس میں پانچ جوہری سائنسدان ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں روسی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ یہ ماہرین نئے ہتھیاروں پر تجربہ کررہے ہیں۔

صدیوں پرانی خانقاہ کے قریب واقع پوتن اب روس کے انٹیلیجنس شہروں میں کورونا وائرس پھیلنے کا ایک اہم مرکز بن گیا ہے۔

سرکاری ایجنسی روساٹوم کے مطابق ایک ریٹائرڈ جوڑا حال ہی میں ماسکو میں چھٹیاں گزار کر یہاں لوٹا تھا۔ ساروف میں کوروناوائرس کا حملہ یہیں سے شروع ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp