کورونا وائرس: کیا انڈیا میں اب گھریلو ملازمین کو واپس گھروں میں بلانے کا وقت آ گیا ہے؟


کورونا، انڈیا

انڈیا میں لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کے بعد ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا اب گھریلو ملازمین کو واپس گھروں میں بلانے کا وقت آ گیا ہے کہ نہیں؟

اختتام ہفتہ کو انڈیا نے ملک بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن میں دو ہفتوں کی مزید توسیع کر دی، لیکن گھروں میں کام کرنے والوں کو کہا گیا کہ وہ کام پر واپس جا سکتے ہیں۔

اس فیصلے کی وجہ سے لاکھوں متوسط طبقے کے گھرانوں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ملازموں کو گھروں میں آنے سے روکا جائے یا انھیں آنے دیا جائے۔ دلی میں بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔

ایک مرتبہ میری ایک دوست نے کہا تھا کہ اگر اس کو اپنے شوہر اور ملازمہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ کام کرنے والی کو ترجیح دے گی۔

یہ مذاق میں کہا گیا تھا لیکن اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انڈین شہری گھروں میں کام کرنے والوں پر کتنا انحصار کرتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق متوسط اور متمول طبقے کے انڈین گھرانوں میں 40 لاکھ سے زیادہ گھریلو ملازم کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثر بہت کم پیسوں پر رکھے جاتے ہیں۔

غیر سرکاری اعداد و شمار نے اسے تقریباً پانچ کروڑ بتایا ہے۔ ان میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔

کورونا بینر

دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے

کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟


گھریلو ملازم (میڈز) اور مالک/مالکہ کے درمیان رشتہ ایک دوسرے پر انحصار کا ہے۔

انتہائی غربت کچی بستیوں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے غیر ہنر مند افراد کو مجبور کرتی ہے کہ وہ روزی کمانے کے لیے گھریلو ملازم کی نوکری ڈھونڈیں اور متوسط طبقے کے لیے یہ سستے مزدور ہیں جس سے ان کے گھر چلتے رہتے ہیں۔

لیکن گذشتہ چار ہفتوں سے لاکھوں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے اپنے گھریلو ملازمین، آیاؤں، باورچیوں، ڈرائیوروں اور مالیوں کے بغیر ہی کام چلا رہے ہیں، کیونکہ انڈیا نے کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک بھر میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔

شروع میں تو اکثر نے یہ سوچتے ہوئے پابندیاں قبول کر لیں کہ یہ صرف تین ہفتوں کے لیے ہیں۔ کچھ بالی وڈ ستاروں نے اپنے انسٹاگرام پر ویڈیوز بھی پوسٹ کیں جن میں وہ کھانے پکاتے اور برتن دھوتے نظر آتے ہیں۔

لیکن دو مرتبہ لاک ڈاؤن میں توسیع اور یہ پتا چلنے سے کہ یہ لمبے عرصے کے لیے ہے، انڈیا کی مڈل کلاس کو اب اپنے ملازموں کی کمی محسوس ہونی شروع ہوگئی ہے۔

اس بات پر بحث شروع ہو گئی ہے کہ اکیلے رہنے والے عمر رسیدہ افراد کس طرح اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ اور وہ لوگ کیسے گھریلو ملازمین کے بغیر کام چلا رہے ہیں جن کی صحت بہت اچھی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ گھریلو ملازمین کی تنگدستی بھی ہے، جس کی وجہ سے ان کے پاس کام پر واپس آنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

گھریلو ملازمین اور مالکان کے درمیان رابطے کے ایک پلیٹ فارم ’ہیلپر4 یو‘ کی سربراہ میناکشی گپتا جین کہتی ہیں کہ ’بہت سوں کی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں اور دیگر کہتے ہیں کہ ان کو لاک ڈاؤن کے دوران تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں۔‘

گذشتہ ایک ماہ سے انھیں ان کے کووڈ 19 ہیلپ لائن واٹس ایپ نمبر پر گھریلو ملازمین، ڈرائیورز اور باورچیوں کے روزانہ 10 سے 15 پیغامات مدد کے لیے آتے ہیں۔

گپتا جین کہتی ہیں کہ ’وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں، ہم کیا کریں؟ ہم اپنے بچوں کو کھانا کیسے کھلائیں؟ ہم انھیں مقامی خیراتی اداروں کا پتہ بتاتے ہیں جہاں سے ان کو کچھ مفت راشن اور کھانا پکانے کے لیے گیس مل سکتی ہے۔‘

نئی دہلی میں پیر کو کام پر واپس آنے والی گھریلو ملازمہ سونیکا ورما اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے مالکان انھیں تنخواہ دیتے رہے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں ان تمام ہفتوں میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔ میرے شوہر ایک رکشہ چلاتے ہیں، لیکن وہ اب گھر پر بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ رکشہ چلانے کی اجازت نہیں۔

’میں بھی کام پر نہ جا سکتی تھی اور مجھے خوف تھا کہ اگر میری نوکری چلی گئی تو میں کیا کروں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کی بہنوں کو لاک ڈاؤن کے عرصے کی تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔

’ان کے مالکان نے مارچ کے ان دنوں کی تنخواہ انھیں دی ہیں جن پہ انھوں نے کام کیا تھا لیکن اپریل کے لیے انھیں کچھ نہیں دیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں صرف اس وقت پیسے ملیں گے جب انھیں کام پر بلایا جائے گا، لیکن ابھی تک انھیں کام پر نہیں بلایا گیا۔‘

کورونا، انڈیا

سونیکا ورما کہتی ہیں کہ ان کی دو بہنوں کو لاک ڈاؤن کے دوران تنخواہ نہیں ملی ہے

ان کی بہنوں کو کام پر نہ بلانے کی ایک وجہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کئی رہائشی سوسائیٹیوں میں ایک بہت بڑی بحث جاری ہے کہ کیا اس وقت گھریلو ملازمین کو لوگوں کے گھروں میں آنے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟

کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’شاید پابندیاں چلی گئی ہیں لیکن کورونا وائرس نہیں‘ اور ان کی آہنی دروازوں والی ان مڈل کلاس کالونیوں میں باہر کے لوگوں کو آنے کی اجازت دینے سے مہلک کووڈ 19 وائرس بھی وہاں آ سکتا ہے، جو ابھی تک مرض سے پاک تھیں۔

لیکن کچھ رہائشی گروہ کہتے ہیں کہ بوڑھوں اور بیماروں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر انڈین مڈل کلاس گھرانوں میں ڈش واشر اور واشنگ مشین جیسی چیزیں نہیں ہوتی اور ان کے لیے گھر کا کام کافی سخت ہو سکتا ہے۔

دہلی کے مضافات میں واقع نوئڈا کے علاقے میں ایک اعلیٰ بلڈنگ سوسائیٹی اے ٹی ایس گرینز کے صدر انیل تیواری کہتے ہیں کہ وہ ’قطعی طور پر سوچ رہے ہیں کہ میڈز کو اندر آنے دیا جائے۔‘

’ہمارے پاس 735 اپارٹمنٹس ہیں اور ایسے کئی عمر رسیدہ شہری ہیں جو اکیلے رہتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے اس لیے ہمیں یہ بھی سامنے رکھنا چاہیے۔‘

ان میں سے ایک بریگیڈیئر (ر) کلدیپ سنگھ چوکر ہیں جو اپنی حالت ’انتہائی مشکل‘ بتاتے ہیں۔

ان کی عمر 80 سال ہے، کینسر کے سابق مریض ہیں اور ان کے جسم میں پیس میکر بھی لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی 75 سالہ بیوی کے ساتھ رہتے ہیں جن کو بھی صحت کے کافی مسائل ہیں۔

انھوں نے مجھے فون پر بتایا کہ اگر ہم لوگ جوان ہوتے تو آسانی سے انتظام کر لیتے، لیکن ہمیں اپنے گھر کا انتظام چلانے میں بہت دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔‘

لاک ڈاؤن تک بریگیڈیئر چوکر کے ہاں روزانہ ایک جُز وقتی ملازمہ آتی تھی، ایک مالی اور کار صاف کرنے والا بھی آتا تھا۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا’یقیناً، اس سے میری زندگی کافی آسان ہو جائے گی۔‘

کورونا، انڈیا

انڈیا میں لاک ڈاؤن میں دو ہفتوں کی توسیع کر دی گئی ہے

لیکن میری ہمسائی اور ریٹائرڈ سکول ٹیچر پنکی بھاٹیہ اپنے دروازے گھریلو ملازمین کے لیے کھولنے پر ذرا پریشان ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں کمر کا درد ہے اور وہ کسی مدد کے بغیر بڑی مشکل سے کام چلا رہی ہیں۔

’لیکن ہمارے پاس کوئی اور چوائس نہیں ہے۔ ہم ہر چیز خود ہی کر رہے ہیں۔ کھانا پکانا، صفائی، جھاڑو، برتن اور کپڑے دھونا۔‘

مسز بھاٹیہ 60 کی دہائی میں ہیں اور ان کے شوہر 70 سے ذرا اوپر ہیں جنھیں بلڈ پریشر اور دل کا مرض ہے۔

کورونا وائرس پر حکومتی ایڈوائزری کے مطابق 60 سال سے اوپر کے افراد کو انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہے اور انھیں باہر نہیں نکلنا چاہیئے۔ اس لیے یہ دونوں گذشتہ چھ ہفتوں سے زیادہ تر گھر تک ہی محدود ہیں۔

مسز بھاٹیہ کہتی ہیں کہ ان کے ہمسائے کا ڈرائیور مقامی مارکیٹ سے انھیں دودھ اور سودا سلف وغیرہ لا دیتا ہے۔

وہ اس کشمکش میں ہیں کہ اپنی ملازمہ کو کام پر واپس آنے دیں یا نہیں۔

’میرے بچے ممبئی اور سوئٹزرلینڈ میں رہتے ہیں۔ میں انھیں کال کر کے پوچھتی ہوں کہ ہم کیا کریں؟ وہ کہتے ہیں کہ مزید ایک ہفتے کے لیے انتظار کریں اور دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم مزید ایک ہفتہ انتظار کریں گے۔‘

مس گپتا کہتی ہیں کہ جب کوڑا اٹھانے والوں اور سبزی بیچنے والوں کو آنے کی اجازت ہے تو پھر گھریلو ملازمین اور ڈرائیورز کو کیوں سزا دی جا رہی ہے؟

’آپ انھیں ماسکز، ہینڈ سینیٹائزرز اور کپڑوں کا ایک جوڑا دیں جو وہ اس وقت پہنیں جب وہ آپ کے گھر میں آئیں۔ آپ سبھی احتیاط کریں۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ انھیں واپس آنے دیا جائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp