دوسری جنگ عظیم کی آٹھ ہیروئنز جن کی بہادری کسی سے کم نہ تھی


An illustration of Cheng Benhua, a Chinese resistance fighter

Davies Surya, BBC

جنگ میں کسی شخص کو بہادری دیکھاتے سوچیں۔ کیا آپ کسی مرد کا سوچ رہے ہیں یا عورت کا؟

اکثر جنگوں میں عورتوں کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا جاتا یا انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کی 75 ویں برسی کے موقعے پر ہم ان آٹھ خواتین کا ذکر کریں گے جن کی بہادری اور حوصلے کی کہانیاں انھیں دیگر لاکھوں افراد میں نمایاں کرتی ہیں۔


چینگ بین ہوا: موت کا مسکرا کر سامنا کرنے والی خاتون

جب سنہ 1937 میں جاپان نے چین پر حملہ کیا تو چینگ بین ہوا مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھیں۔ ان کو سنگین گھونپ کر ہلاک کرنے سے چند لمحات پہلے کی ان کی تصویر چینیوں کی جانب سے بے خوف مزاحمت کی علامت بن گئی۔

یہ تصویر ایک جاپانی فوٹو گرافر نے کھینچی تھی جس نے لڑائی کے دوران چینگ بین ہوا کی گرفتاری اور قید کے آخری لمحات کو فلم بند کیا تھا۔

انھیں قید کے دوران کئی مرتبہ اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا لیکن انھوں نے ظلم کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔

تصویر میں وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہی ہیں، ان کے بازو بندھے ہوئے ہیں اور وہ اپنا سر تانے ہوئے بلا خوف کیمرے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔

تصویر میں ان کے اِسی انداز کو پانچ میٹر اونچے مجسمے کی شکل دی گئی ہے جو ان کے اعزاز میں نانجنگ شہر میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں چاپانی فوج نے کم از کم تین لاکھ چینی عورتوں بچوں اور مردوں کا قتلِ عام کیا تھا۔

سنہ 1938 میں جب انھیں موت کے گھاٹ اتارا گیا تو وہ 24 سال کی تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم اِس کے ایک برس بعد یورپ میں شروع ہوئی لیکن چینیوں کے لیے یہ جنگ دو برس پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔

چین کے مورخ اور میوزیم کے ڈائریکٹر فین جیانچوان کے مطابق ‘جنگ میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افراد میں چینگ بین ہوا سب سے زیادہ متحرم سمجھے جانے کی مستحق ہیں۔ ایک چونکا دینے والی شخصیت جس نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔’


نور عنایت خان: جاسوس شہزادی

An illustration of Noor Inayat Khan

Davies Surya, BBC

انڈین شہزادی اور برطانوی جاسوس نور عنایت خان اٹھاویں صدی میں میسور کے مسلمان حکمران ٹیپو سلطان کے خاندان سے تھیں۔ ان کے والد انڈین جبکہ والدہ امریکی تھیں۔ وہ ماسکو میں پیدا ہوئیں اور پیرس میں تعلیم حاصل کی۔

زبان پر عبور کی وجہ سے انھیں برٹش سپیشل آپریشنز کے انڈر کور ایجنٹس میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ وہ ان برطانوی جاسوسوں میں شامل تھیں جو نازی جرمنی کے زیرِ قبصہ فرانس میں پیراشوٹ کے ذریعے داخل ہوئے۔ ان لوگوں کا مقصد تھا کہ نازیوں کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کیا جائے، فرانس میں مزاحمتی تحریک کے ساتھ تعاون اور جرمن دستوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے۔

نور عنایت نے ریڈیو آپریٹر کے طور پر کام کیا۔ وہ اتنی خطرناک ذمہ داری لینے والی پہلی خاتون تھیں۔ نازیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بچنے کے لیے وہ اپنی جگہ مسلسل بدلتی رہتی تھیں۔

بل آخر ایک روز انھیں نازی پولیس گستاپو نے گرفتار کر لیا، ان سے سخت تفتیش کی گئی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے کئی مرتبہ قید سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ ایسی ہر کوشش کے بعد ان پر سختیوں میں اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کوئی بھی قیمتی معلومات جرمنوں کے حوالے نہیں کیں جو انھیں صرف ان کے خفیہ نام میڈلین سے ہی جانتے تھے۔ جرمنوں کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ نور عنایت انڈین تھیں۔

ستمبر 1944 میں نور عنایت خان اور دیگر تین برطانوی خواتین جاسوسوں کو جرمنی کے علاقے داخاو کے کانسنٹریشن کیمپ میں منتقل کر دیا گیا جہاں 13 ستمبر کو ان خواتین کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

نور عنایت خان کو ان کی بہادری پر برٹش جارج کراس اور سونے کے تمغے کے ساتھ فرانس کے فوجی اعزاز کروئی ڈی گوئر سے نوازا گیا۔ لندن کے گورڈن سکوائر گارڈنز میں ان کی یادگار بھی نصب ہے۔

نور عنایت خان پر لکھی جانے والی کتاب ‘سپائی پرنسس’ کی مصنف شرابانی باسو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج بھی لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، اپنی بے مثال بہادری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ ان اصولوں وجہ سے بھی جن کے لیے انھوں نے جدوجہد کی۔’

نور عنایت خان کے خیالات صوفیانہ تھے اس لیے وہ تشدد کی قائل نہیں تھیں لیکن انھوں نے فسطائیت کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دی۔


لیوڈمیلا پاولیچینکو: لیڈی ڈیتھ

An illustration of Lyudmila Pavlichenko, a Soviet sniper

Davies Surya, BBC

لیوڈمیلا پاولیچینکو کا شمارتاریخ کی کامیاب ترین نشانچیوں (سنائپر) میں ہوتا ہے۔ سنہ 1941 میں نازی جرمنی کے سویت یونین پر حملے کے بعد ہونے والی جنگ کے دوران انھوں نے مصدقہ طور پر 309 جرمن فوجیوں کو نشانہ لگا کر ہلاک کیا۔

ان کا نشانہ بننے والے درجنوں جرمن خود نشانچی یا سنائپر تھے جو چوہے بلی کے اس کھیل میں پاولیچینکو سے ہار گئے۔ سویستاپول اور آڈیسا کے محاصرے کے دوران ان کی کارکردگی کی وجہ سے انھیں لیڈی ڈیتھ یا موت کی عورت کا نام دیا گیا۔

جرمن سنائپر تو انھیں نشانہ نہیں بنا سکے لیکن وہ ایک مارٹر سے زخمی ہو گئیں۔ وہ جلد ہی صحت یاب تو ہو گئیں ہیں انھیں میدانِ جنگ سے ہٹا کر دوسرے کام پر لگا دیا گیا اور سویت یونین کی جنگی کارروائیوں میں مدد کے لیے ان کی شہرت کو استعمال کیا جاتا رہا۔

سویت یونین کی ریڈ آرمی کی ایک نمائندے کے طور پر انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا اور اس دوران امریکی صدر فرینکلن روموولٹ سے بھی ملاقات کی۔ حالانکہ انھیں سویت یونین کے گولڈ سٹار ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن بعد میں ان کا نام تاریخ کے اوراق سے بڑی حد تک صاف کر دیا گیا۔

صنفی برابری کی کارکن اور براڈکاسٹر ارینا سلاونسکا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک ایسی خانون کا معترف نہ ہونا اور انھیں یادگاری حیثیت نہ دینا جو بہترین نشانچی اور شاندار صلاحیتوں کی مالک ہو حیرت انگیز بات ہے۔’

‘دوسری جنگِ عظیم کے بارے میں سویت یونین کا بیانیہ ایک بہادر مرد فوجی پر مرکوز ہے۔ جنگی ہیروز اور نامعلوم سپاہیوں کے بارے میں جتنی بھی یاگاریں بنائی گئی ہیں ان کو ذرا ذہن میں لائیے، خواتین اِس بیانیے کا حصہ نہیں ہیں۔’


نینسی ویک: دا وائٹ ہاوس

An illustration of Nancy Wake, an Australian spy during WW2

Davies Surya, BBC

نینسی ویک کی شخصیت کئی لحاظ سے غیر معمولی تھی۔ وہ ایک مہلک جنگجو، بے باک عاشق، بے خوف طریقے سے شراب پینے والی اور نازیوں کی سخت دشمن تھی۔

وہ نیوزی لینڈ میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی پرورش آسٹریلیا میں ہوئی۔ وہ 16 سال کی عمر میں سکول سے بھاگ گئیں اور فرانس جا کر صحافی کی حیثیت سے نوکری کرنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں وہاں غلط بیانی کرتے ہوئے بتایا کہ وہ قدیم مصری زبان لکھنا جانتی ہیں۔

وہاں ان کی شادی ایک فرانسیسی صنعتکار ہنری فیوکا سے ہو گئی اور جب سنہ 1939 میں جرمن فوجیں فرانس پر حملہ آور ہوئیں تو تو وہ فرانس کے شہر مارسے میں رہ رہیں تھیں۔

نینسی ویک فرانس کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن گئیں۔ وہ اتحادی افواج کے ہوا بازوں کو اسپین کی طرف جانے میں مدد کرتی تھیں۔ جب جرمنوں کو ان کے نیٹ ورک کے بارے میں خبر ہو گئی تو وہ اسپین کے راستے برطانیہ فرار ہو گئیں۔

ان کے شوہر فیوکا فرانس ہی میں رہ گئے جہاں انھیں نازیوں نے گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا اور ہلاک کر دیا۔ کچھ عرصے بعد نینسی ویک پیراشوٹ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر فرانس میں داخل ہوئیں تا کہ برطانوی سپیشل آپریشنز ایگزیکٹو (ایس او ای) کے لیے کام شروع کر سکیں۔

انھوں نے کئی خطرناک کارروائیوں میں حصہ لیا۔ انھوں نے ایک جرمن فوجی کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کرنے کا دعوی کیا۔ سنہ 1990 میں انھوں نے ایک ٹی وی شو میں بتایا ‘ایس او ای میں ہمیں جوڈو کے وار کرنے سکھائے گئے تھے جس کی میں نے کافی مشق کی تھی۔ لیکن وہ واحد موقع تھا جب میں نے اسے استعمال کیا۔’

ایک مرتبہ جب اتحادی افواج کے قیمتی ریڈیو کوڈ لڑائی کے دوران ضائع ہو گئے تو نینسی ویک متبادل کوڈ حاصل کرنے کے لیے سائیکل پر 500 کلومیٹر کا سفر طے کر کے دشمن میں علاقے میں گئیں۔ اس سفر میں انھیں تین دن لگے۔ وہ جرمن فوجیوں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے خوب بن ٹھن کر تیار ہوتی تھیں۔

انھوں نے ایک آسٹریلین اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ‘راستے کے لیے تھوڑا سا پاوڈر اور ہلکی سی شراب کافی ہوتی تھی اور میں جرمن فوجی چوکیوں سے گزر جاتی تھی، انھیں اشارہ کر کے کہتی تھیں کیا تم میری تلاشی لو گے۔’

ان کی جنگ کے دنوں میں وہ پکڑے جانے سے کئی مرتبہ بال بال بچیں۔ ان کی بچ نکلنے کی صلاحیت کی وجہ سے جرمن انھیں دا وائٹ ہاوس کہتے تھے اور یہی اس کتاب کا نام بھی ہے جو ان کی خود نوشت ہے۔

نینسی ویک کو کئی ایوارڈ دیے گئے۔ ان کا انتقال 7 اگست 2011 کو 98 سال کی عمر میں ہوا۔ انھوں نے وصیعت کی تھی کہ ان کی راکھ کو فرانس لے جا کر بکھیر یا جائے۔


جین ویال: رپورٹر، جاسوس اور سیاستدان

جین ویال پیدا تو ریپبلک آف کانگو میں ہوئی تھیں لیکن چھوٹی عمر میں ہی پیرس چلی گئیں اور جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو وہ ایک صحافی کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔

ویال پیرس چھوڑ کر ملک کے جنوبی علاقے میں منتقل ہو گئیں اور انھوں نے فرانسیسی مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ جنوبی فرانس اس وقت تک جرمنوں کے مکمل قبصے میں تو نہیں تھا لیکن وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت تھی۔

وہ نازی فوج کی نقل و حرکت کر نظر رکھتی تھیں اور اس بارے میں اتحادی افواج کو معلومات پہنچاتی تھیں۔

جنوری 1943 میں وہ پکڑی گئیں اور ان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔

تائم ان کے راز حکام کی نظروں سے دور رہے کیونکہ انھوں نے اپنے ڈیٹا کو اتنی اچھی طرح کوڈ کیا ہوا تھا کہ ان کی گھتی سلجھائی نہیں جا سکتی تھیں۔

جین ویال کو پہلے تو کونسنٹریشن کیمپ میں بھیج دیا گیا لیکن بعد میں خواتین کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں وہ فرار ہو گئیں یا انھیں رہا کر دیا گیا اور اِس طرح وہ جنگ سے زندہ بچ نکلیں۔

سنہ 1947 میں وہ فرانس کی سینیٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔


ہیڈی لیمار

Hollywood actress Hedy Lamarr

آسٹریا میں پیدا ہونے والی سینما سٹار اپنے شاندار کام کی وجہ سے مشہور ہوئیں، ہالی وڈ کے اس جگمگاتے ستارے نے چھ شادیاں کیں۔

وہ ایک امیر یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں جہاں ان کا نام ہیڈوِگ ایوا ماریہ کیسلر رکھا گیا۔ ان کی پہلی شادی اسلحے کا کاروبار کرنے والے ایک صنعتکار سے ہوئی جس نے ان کو اداکاری کے بجائے اپنے دوستوں کی مہمان نوازی پر مجبور کر دیا۔ ہیڈی لیمار کے شوہر کے دوستوں میں کئی نازی بھی شامل تھے۔

لیمار اِس صورتحال سے جان چھڑا کر خاموشی سے پہلے پیرس اور پھر لندن فرار ہو گئیں۔ لندن میں ان کی ملاقات ایم جی ایم سٹوڈیو کے سربراہ لوئی بی میئر سے ہوئی۔

لوئی بی میئر نے انھیں ہالی وڈ میں کانٹریکٹ کی پیشکش کی اور انھیں دنیا کی خوبصورت ترین خاتون کے طور پر پیش کرنا شروع کیا۔ 30 سے زیادہ کامیاب فلموں کی وجہ سے وہ مشہور تو ہوئیں لیکن انھیں ہیرو کا درجہ اس وقت ملا جب وہ موجد بنیں۔

ہیڈی لیمار نے اتحادی افواج کے تارپیڈو کے لیے ایسا نظام تیار کیا جو دشمن کی جانب سے انھیں جام کرنے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی فریکوینسی تبدیل کر سکتا تھا۔ ان کی اس بے مثال ایجاد کے کئی عنصر آج بھی بلو ٹوتھ اور وائی فائی ٹیکنالوجی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔


میا ای: تلوار اور زھر ایک ساتھ

Mya Yi photo portrait

Ludu collection

دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے برما پر حملہ کرنے سے پہلے ہی میا ای کی جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔

وہ برطانوی تسلط سے آزادی کی مہم میں ایک پرجوش کارکن تھیں۔ وہ دوسری جنگِ عظیم میں مزاحمتی قوتوں میں شامل ہو گئیں اور اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ ایک تلوار اور زہر کی بوتل ساتھ رکھتی تھیں۔

سنہ 1944 میں برطانیہ کے زیرِ تسلط انڈیا تک جانے اور جاپانیوں سے لڑنے کے لیے انھوں نے دشمن کے علاقے اور پہاڑیوں کو پیدل چل کر پار کیا۔ سفر کے دوران انھوں نے اپنے زخموں کو اپنی چادر بند کیا اور ساتھ چلنے والے مردوں کی جانب سے مدد کی پیشکش کو رد کر دیا۔

انڈیا میں انھوں نے برما پر فضا سے گرائے جانے والے پمفلٹ بنانے میں کردار ادا کیا۔ ان پمفلٹ میں برما کے لوگوں پر جاپانیوں کے مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔

وہ اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ برما واپس جانا چاہتی تھیں لیکن انھوں نے اپنی سیٹ ایک دوسرے جنگجو کو دے دی اور خود اکتوبر 1945 میں جنگ ختم ہونے کے بعد واپس گئیں۔

آزادی کے لیے ان کی جدوجہد بعد میں بھی جاری رہی، پہلے وہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑ رہی تھی اور بعد میں انھوں نے اپنے ملک کی فوجی جنتا کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔


ریسونا سیڈ: ایک شیرنی

اِس فہرست میں راسونا سیڈ اِس لحاظ سے ایک مختلف نام ہے کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی افواج کے خلاف لڑنے والی قوتوں کا کسی حد تک ساتھ دیا۔ وہ انڈونیشیا کی آزادی کی جدوجہد میں ایک اہم شخصیت تھیں۔ ان کا اصل دشمن جاپان نہیں بلکہ ان کے ملک پر آبادیاتی نظام مسلط کرنے والے ولندیزی تھے۔

سیڈ بہت کم عمر میں ہی سیاسی طور پر متحرک ہو چکی تھیں اور ‘دی انڈونیشین مسلم ایسوسی ایشن’ کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت قائم کر لی تھی۔ اس وقت ان کی بیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔ انھوں نے اپنی جماعت مذہب اور قومیت کی بنیاد پر بنائی تھی۔

ان پر کتاب لکھنے والے ایک مصنف کے مطابق وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھیں۔ وہ بجلی کی طرح کڑکتی تھیں۔ ولندیزی حکام پر سخت نکتہ چینی کی ہمت کرنے کی وجہ سے لوگ انھیں شیرنی کے نام سے پکارتے تھے۔

ولندیزیوں نے کئی مرتبہ ان کی تقریروں کو روکا اور ایک موقع پر انھیں گرفتار کر کے 14 مہینے کے لیے قید میں ڈال دیا گیا۔ سنہ 1942 میں جب جاپانیوں نے آرکیپیلیگو پر حملہ کیا تو ریسونا سیڈ جاپان کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم میں شامل ہو گئیں لیکن انھوں نے آزادی کے لیے اپنی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا۔

انڈونیشیا میں جاپان کی شکست کے بعد بھی لڑائی جاری رہی کیونکہ ولندیزی اپنی حاکمیت کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے تھے اور شروع میں انھوں نے برطانیہ سے مدد بھی حاصل کی۔ اِس کی وجہ سے چار برس طویل ایک بہت پرتشدد تنازع شروع ہو گیا۔

یہ تنازع اس وقت ختم ہوا جب سنہ 1949 میں ولندیزی حکمرانوں نے انڈونیشیا کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔ اِس جدوجہد میں ریسونا سیڈ کا اہم کردار تھا۔ وہ صنفی برابری اور عورتوں کی تعلیم کی زبردست وکیل تھیں۔ ریسونا سیڈ انڈونیشیا میں ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھیں وہاں قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp