18ویں ترمیم: ’اختیارات کی واپسی نہیں چاہتے مگر این ایف سی ایوارڈ میں ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے‘


فواد چوہدری

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صوبوں کو بھی دفاعی بجٹ اور میگا پراجیکٹس کے لیے حصہ دینا چاہیے

پاکستان کے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ان کی جماعت صوبوں سے اختیارات واپس لینے کے حق میں ہرگز نہیں لیکن صوبوں میں رقم کی تقسیم کے لیے بنائے گئے این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں تبدیلی آنی چاہیے۔

بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ کے تحت صوبوں کو بڑی رقم چلی جاتی ہے لیکن وفاق کے پاس کچھ نہیں پچتا۔

’اس وقت جو پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ ہے وہ قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی ہے جبکہ دفاعی بجٹ بھی وفاق کا ایک بڑا خرچہ ہے۔

’وفاق کو قرضوں کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، بڑے منصوبے چلانے ہوتے ہیں اور دفاعی بجٹ دینا ہوتا ہے لیکن یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو صوبے بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے صوبوں کو بھی دفاعی بجٹ اور میگا پراجیکٹس کے لیے حصہ دینا چاہیے۔‘

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ یہ معاملات این ایف سی ایوارڈ کے تحت آتے ہیں اس لیے ’این ایف سی ایوارڈ میں ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے‘ اور اس پر جلد بحث کا آغاز ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو: وفاق سندھ کے’بہتر کام‘ سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے

مراد علی شاہ: لاک ڈاؤن جلدی کیا جاتا تو جانیں بچ سکتی تھیں

وفاقی حکومت کا مسئلہ 18ویں ترمیم ہے یا این ایف سی ایوارڈ؟

چند اور سخت فیصلے؟

‘باجوہ ڈاکٹرائین کو صرف سکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جائے‘

پاکستان میں ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی وبا کے روک تھام کے لیے کیے گئے اقدامات کے سلسلے میں وفاق اور صوبۂ سندھ جہاں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، کے درمیان تناؤ اور کھنچاؤ دیکھا گیا ہے، ایک بار پھر 18ویں ترمیم میں تبدیلی یا اس کے خاتمے کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں گرماگرم بحث چھِڑی ہوئی ہے۔

کئی حلقے اسے حکومت کی جانب سے ’کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی‘ سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔

مراد علی شاہ

پاکستان میں کورونا کی وبا کے دوران سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافِ رائے دیکھا گیا ہے

’ہمارے وزرائے اعلیٰ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار ہیں‘

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’18ویں ترمیم کے پہلے حصے یعنی اختیارات کی صوبوں کو منتقلی پر تمام جماعتیں متفق ہیں اور پی ٹی آئی تو ایک قدم آگے ہے کہ یہ اختیارات ںچلی سطح پر ہوں۔ مگر بد قسمتی سے یہی وہ حصہ ہے جس میں اپوزیشن ناکام ہوئی ہے۔

’دوسرا حصہ صوبوں کی سطح پر رابطہ کاری کی کمی ہے۔ تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس جانے سے پہلے سے بھی بدتر ہو گیا ہے اور یہی حال صحت کا ہے۔ اس وقت تین صوبوں میں ہماری حکومت ہے تو بات سن لی جاتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو خاصی مشکل ہو جائے‘۔

پاکستانی آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم کی منظوری سنہ 2010 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔ اس کے تحت صدر کو حاصل تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ اسی ترمیم کے تحت وفاق کے زیادہ تر اختیارات اور تعلیم اور صحت جیسے شعبے صوبوں کو دے دیے گئے جس سے صوبے زیادہ با اختیار ہوئے تھے۔

فواد چودھری نے کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارا سب سے زیادہ پیسہ صوبوں کو جاتا ہے، مگر میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ صوبوں میں وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کا دفتر ہی اصل اختیارات کی نیچے منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘۔

’وزارئے اعلیٰ اپنے اختیارات شیئر کرنے کو تیار نہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے وزرائے اعلیٰ تو وزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیار ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ ان سب معاملات پر بات ہونی چاہیے، یہاں تک 19ویں اور 20ویں ترمیم پر بھی بحث ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جج صاحبان کی تقرری، ترقی، ان کے احتساب اور ازخود نوٹس جیسے اختیارات کا طریقۂ کار بھی متنازع ہے اور اس پر سیاسی جماعتوں کو بات کرنی چاہیے‘۔

قمر جاوید باجوہ

پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ماضی میں 18ویں ترمیم کو ایک رکاوٹ قرار دے چکے ہیں

’فوج جمہوریت میں سٹیک ہولڈر ہے‘

اس سوال پر کہ کیا فوج بھی 18ویں ترمیم کے معاملے میں دفاعی بجٹ کی وجہ سے ایک سٹیک ہولڈر ہے، فواد چودھری نے کہا کہ ’یہ درست ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یقینی طورپر، فوج تو پاکستان میں ایک سٹیک ہولڈر ہے، ہم مانیں یا نہ مانیں اور ساری دنیا میں ہی افواج سٹیک ہولڈر ہوتی ہیں۔ امریکہ میں بھی ہے، پاکستان میں بھی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ’میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ فوجی قیادت سے زیادہ جمہوری قیادت کم ہی پاکستان کی تاریخ میں رہی ہو گی۔ جنرل باجوہ، دیگر قیادت اور ڈی جی آئی ایس پی آر حقیقی طور پر جمہوری کلچر کے لوگ ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ پاکستان جمہوریت کی مضبوطی سے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔

’اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ سٹیک ہولڈر ہیں مگر وہ جمہوریت میں سٹیک ہولڈر ہیں‘۔

’نواز شریف سے سودے بازی نہیں ہو رہی‘

فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت 18ویں ترمیم کے معاملے پر حزب اختلاف خصوصا سابق وزیر اعظم نواز شریف سے کوئی سودے بازی نہیں کر رہی ہے۔

’وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے نیب قانون پر ہی لین دین کرنا ہوتا تو ہم حکومت میں ہی کیوں آتے۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں یہ خبریں گرم رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے حکومت کے رابطے ہوئے ہیں جن میں 18ویں ترمیم کے سلسلے میں حمایت کے بدلے نیب قوانین میں تبدیلی کی پیشکش کی گئی جس کا براہ راست فائدہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ہو سکتا ہے۔

تاہم حزب اختلاف اور حکومتی جماعت دونوں نے ہی اس کی تردید کی تھی۔

عمران خان

وفاقی وزیر کے مطابق موجودہ نیب قوانین سے ان کی جماعت اور خود وزیراعظم عمران خان بھی مطمئن نہیں ہیں

’وزیراعظم بھی نیب قوانین سے مطمئن نہیں‘

گزشہ ہفتے ایسی خبریں سامنے آئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ ن نے نیب قوانین میں تبدیلی کا ایک مسودہ حکومت کو بھجوایا ہے جس کے مطابق مسلم لیگ ن چیئرمین نیب کی تقرری اور اختیارات میں تندیلی کی خواہاں ہے جبکہ اس میں گرفتاری کے لیے نیب کے بجائے عدالت کا فیصلہ، عہدے سے برخاستگی کو ٹرائل میں جرم ثابت ہونے کی بجائے اپیل کے حق سے جوڑنے جیسی تجاویز شامل ہیں۔

تاہم فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن نے نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی مسودہ نہیں دیا۔

’پی ایم ایل این اور پیپلزپارٹی مسلسل نیب قانون پر تنقید کر رہی ہے مگر ہم نے یہ نہیں بنایا، یہاں چیئرمین سے لے کر چپڑاسی تک سب لوگ انھی دو جماعتوں کے ہیں۔

’میں نے احسن اقبال اور رانا تنویر سے کہا کہ آئیے اسے تبدیل کرتے ہیں۔ آپ اپنی تجاویز دیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس کا ڈرافٹ پیپلزپارٹی سے شیئر کریں گے۔ اس دن کے بعد پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ ن کو اور ہم اپوزیشن کو ڈھونڈ رہے ہیں‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کے نیب قوانین کے حوالے سینیٹ سے پاس ہونے والے بل میں کئی بہت اچھے نکات ہیں اور اگر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں تو بہت سی باتوں پر اتفاق ہو سکتا ہے‘۔

اس سوال پر کہ پی ٹی آئی خود نیب قوانین میں کیا تبدیلی چاہتی ہے، فواد چودھری نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی احتساب کے جس نعرے کو لے کر برسراقتدار آئی تھی اس پر مکمل کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے عوام بھی ناراض ہیں۔

انھوں نے کہا موجودہ نیب قوانین سے ان کی جماعت مطمئن نہیں ہے اور ’خود وزیراعظم بھی مطمئن نہیں ہیں۔

ان کے مطابق نیب قوانین میں بےشمار مسائل ہیں۔ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن مقدمات کا آغاز کیا گیا تھا ان کو حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا، لوگ احتساب کے معاملے پر ہم سے خوش نہیں ہیں‘۔

ڈاکٹر

فواد چوہدری کے مطابق ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی سامان نہ ملنے کی شکایات کا تعلق ترسیل سے تو ہو سکتا ہے مگر اس سامان کی تیاری سے نہیں

’فوجی اور سول ادارے مل کر تحقیق کریں‘

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کے دوران ملک میں فوجی اور سول سائنس لیبارٹریز نے مل کر کام کیا جو انتہائی کامیاب رہا ہے جس کے بعد ان کی وزارت نے یہ تجویز دی ہے کہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس کے تحت ملک کے فوجی سٹریٹجک ادارے اور سِول سائنسی ادارے مل کر تحقیق کریں۔

ان کے مطابق ان کی اس تجویز سے فوجی قیادت بھی متفق ہے۔

فواد چوہدری نے کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد ملک میں طبی سامان کی تیاری سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب اس میدان میں خود کفالت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئندہ چند روز میں پاکستان میں تیار ہونے والے ماسک کی برآمد بھی شروع کر دی جائے گی جبکہ جلد ہی این 95 ماسک بھی تجارتی بنیادوں پر تیار ہو گا جس کی دستیابی سے ڈاکٹروں اور نرسوں کے تحفظات میں مزید کمی ہو گی۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ڈاکٹروں کی جانب سے حفاظتی سامان نہ ملنے کی شکایات کا تعلق ترسیل سے تو ہو سکتا ہے مگر اس سامان کی تیاری سے نہیں کیونکہ ہم نے ملکی ضروریات کے مطابق سامان تیار کیا ہوا ہے‘۔

فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ’تمام حفاظتی کٹ پہننے کے باوجود کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ طبی عملہ اور ڈاکٹر اس کِٹ کو مجوزہ طریقے سے استعمال نہیں کرتے اور بے احتیاطی کے باعث یہ وائرس ان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وینٹیلیٹرز کی تیاری کے لیے سات ڈیزائن منظور ہو چکے ہیں اور وہ اب لائسنسنگ کے مرحلے میں ہیں جس کے بعد ہم وینٹیلیٹرز بھی بنا ئیں گے‘۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp