امریکی الیکشن کا اونٹ


\"hana

ہمیں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے
پس پردہ تماشہ دوسرا ہے

لیجئے جناب، آخری بیس گھنٹے باقی ہیں، بس آنکھوں کی سوئیاں!

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی صاحب اس الیکشن میں خاص ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں۔

بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟

ان کے انکشافات کی وجہ سے یہ اونٹ کبھی ایک کروٹ لیتا ہے تو کبھی دوسری۔ پر یہ طے ہے کہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ بہرحال اب ہلری ای میل کے سلسلے میں بری ہو چکی ہیں۔

یہاں ایک اہم نکتہ دیکھئے کہ امریکہ سمیت تمام دنیا میں صدر یا وزیراعظم کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک بددیانت، بدکار، ریاکار، فریبی اور مکار مرد کو بلا تامل ایوان صدر میں پہنچا دیا جاتا ہے، مگر اس کے برعکس خاتون امیدوار کے لئے دوغلا سٹینڈرڈ ہے کہ وہ مکمل طور پہ پارسا ہو، فرشتہ صفت اور ہر قسم کے عیب سے عاری ہو، صرف تبھی اس کو اس عہدے کے قابل سمجھا جائے!
یہی وجہ ہے کے ریپبلکن پارٹی نے ای میل کو رائی کا پہاڑ بنا رکھا ہے۔ بہت سوں کی دانست میں تو ریپبلکن پارٹی کو گھٹنوں کے بل گرجا گھر میں بیٹھ کر شکرانہ ادا کرنا چاہیے کے اوباما نے بش اور چینی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں دائر نہیں کیا۔ ورنہ جو کرتوت ان کے تھے الحفیظ و الاماں۔ وہ کسی بھی طرح سلوبودان ملوسوچ سے کم نہیں۔

ان بیس گھنٹوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دس سوئنگ اسٹیٹ ہیں جن پر الیکشن کا دارومدار ہے۔ ان میں سے پانچ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ فلوریڈا، نارتھ کیرولینا، اوہائیو، پینسیلوانیا اور ورجینیا۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر ٹرمپ نے کوئی سی تین جیت لیں تو الیکشن کی رات طویل ہو جائے گی۔

\"usa-election\"

نتیجے کے انتظار میں ہم یہی کہیں گے کہ

تم آئے ہو نہ شب انتظار گذری ہے

اور بالفرض چار یا پانچ جیت لیں تو ہلری کی جیت کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ہلری نے ان پانچ میں سے تین جیت لیں تو ان کے قدم مضبوط ہو جائیں گے۔ اور اگر چار یا پانچ جیت لیں تو حتمی طور پر فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔

آج سیاسی مہم کے آخری دن پینسیلوانیا میں پانچ ستارہ ریلی میں صدر اوباما، ان کی اہلیہ مشیل، سبق صدر کلنٹن، ان کی صاحبزادی چیلسی اور مشہور و معروف راک سٹار بروس سپرنگسٹین اور جان بن جووی شریک ہوں گے۔ پچھلے ہفتے ہپ ہاپ سین کے اہم ستارے جے زی اور بیونسے نے شرکت کی تا کہ سیاہ فام امریکیوں میں ہلری کی مقبولیت کو بڑھایا جائے۔

ہلری تیس سال سے ہر طرح کے مسائل و معاملات سے نہایت تحمل مزاجی کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ صدر ہونے کے لئے جس اعتماد، مستقل مزاجی اور جرات کی ضرورت ہے، وہ تمام اوصاف ان میں موجود ہیں۔

جبکہ ٹرمپ کا حال یہ ہے کے ان کی سیاسی مہم کی مینجر کیلی این کونوے نے ان کا فون ضبط کر لیا ہے اورٹویٹر پر پابندی لگا دی ہے اس خوف سے کہ وہ عادت سے مجبو ہو کر پھر بد گفتاری کے مرتکب نہ ہو جائیں! جو شخص پانچ سالہ ضدی بچے کی مانند ہے، اس کی قابلیت کا انحصار فقط سفید فام مرد ہونے پر ہے!

\"usa-election-hillary-obama\"

ٹرمپ نے نہ صرف امریکی الیکشن کے معیار کا استحصال کیا ہے بلکہ ریپبلکن پارٹی کو بھی اندر سے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کے ریپبلکن پارٹی اپنا تجزیہ کرے کہ وہ لنکن کی پارٹی سے ٹرمپ کی پارٹی کیسے بن گئ؟ اپنے سیاسی منشور پر توجہ دے اور اس کو اکیسویں صدی کے مطابق بنائے۔ اس کے علاوہ اپنے اعمال گزشتہ پہ بھی نظر ثانی کرے۔ پہلے سیاہ فام صدر کے ساتھ جو رویہ اختیار رکھا گیا وہ شرمناک حد تک قابل افسوس ہے۔ صدر اوباما کے مذہب، ان کی پیدائش اورشہریت کو لے کر شک و شبہات کا لامتناہی سلسلہ آٹھ سال سے جاری ہے۔ ہر پالیسی میں سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرنا ریپبلکن پارٹی کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہر مسلمان کو دہشت گرد سمجھنا اور ان کے حقوق کی پامالی کرنا گویا اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا ہے۔

ایف بی آئی کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کو زیادہ خطرہ کے کے کے KKK کی طرح کی تنظیموں سے لاحق ہے، مسلمانوں سے نہیں!

پچھلی تین دہائیوں سے فاکس نیوز نے ایسا بگاڑ پیدا کر دیا ہے جسے سلجھانا آسان نہیں۔ اگر ریپبلکن پارٹی پھر سے مقبول ہونا چاہتی ہے تو ان کو اپنے جعلی اور سطحی انداز فکر کو بدلنا ہوگا۔ انہیں سیاہ فام، ہسپانوی اور مسلمان شہریوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

ایک نجی محفل میں جارج ڈبلیو بش کا یہ المیہ سنا گیا کے شاید وہ ریپبلکن پارٹی کے آخری صدر ثابت ہوں۔

جناب خضر خان کو ہلری کے ساتھ اسٹیج پر دیکھ کر فخرہوتا ہے، تسلی ہوتی ہے اور تقویت ملتی ہے۔ انہیں اپنے ساتھ رکھنا ہلری کی دور اندیشی ہے۔

\"donald-trump\"

بحر اوقیانوس کے اس پار جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پرشدّت سے اثرانداز ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو سالانہ دو بلین ڈالر کی ایڈ مہیا کی جاتی ہے۔ ایک عالم اس وقت ٹرمپ کے جیتنے سے ہراساں ہے۔ وال سٹریٹ کا ہیجان قابل دید ہے۔

اس وقت نہ صرف ہلری کی جیت ضروری ہے بلکہ سینیٹ اور کانگریس میں ڈیموکرٹس کی فتح سخت لازمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہی جوتم پیزار کا سلسلہ جو آٹھ سال سے چل رہا ہے وہی جاری رہے گا۔ سپریم کورٹ کی اسامی کو پر کرنا بہت اہم ہے اور اس سے زیادہ اہم ہے دنیا کو نیوکلیئر دھماکے سے محفوظ رکھنا۔

امریکہ کی ڈھائی سو سالہ جمھوریت داؤ پہ لگی ہوئی ہے اور تمام عالم مضطرب ہے کہ 8 اور9 نومبر کی درمیانی رات کو فیض کا کونسا مصرعہ ہمارے حسب حال ہوگا:

وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

اور یا پھر

سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments